تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     05-07-2014

عراق اور شام کی صورتِ حال

تازہ اطلاعات کے مطابق عراق اور شام میں وزیراعظم نوری المالکی اور صدر بشار الاسد کی حکومتوں سے برسرِپیکار اسلامک سٹیٹ آف عراق اور بلادِ شام (ISIL)نے دونوں ملکوں میں اپنے زیر قبضہ علاقوں پر مشتمل ''خلافت‘‘ کے قیام کا اعلان کر دیا اور اس تحریک کے کمانڈر ابوبکر البغداد ی کو خلیفہ مقرر کیا ہے۔مغربی مبصرین نے اس اعلان کو امریکہ میں 11ستمبر2001ء کے دہشت گردی کے حملوں کے بعد سب سے اہم واقعہ قرار دیا ہے کیونکہ ابوبکرالبغدادی کی قیادت میں یکے بعد دیگرے جنگی کامیابیاں حاصل کرنے والی سنی عقیدے سے منسلک اسلامی بنیاد پرستوں کی یہ تنظیم عراق اور شام کی موجودہ حکومتوں کے لیے ہی خطرہ نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ سے باہر دوردراز علاقوں تک اس کے اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں۔مغربی ذرائع کے مطابق آئی ایس آئی ایل نے حالیہ دِنوں میں عراق کے محاذ پر جو کا میابیاں حاصل کیں، ان سے متاثر ہو کر،دنیا بھر سے مذہبی انتہا پسندجوق در جوق اس میں شامل ہورہے ہیں۔ان غیر ملکی جنگجوئوں میں دیگر ممالک کے علاوہ امریکہ اور یورپ سے آنے والے جنگجو بھی شامل ہیں۔کچھ حلقوں کے مطابق اب تک بارہ ہزار کے قریب غیر ملکی جنگجوڈاکٹر ابوبکر البغدادی کی تنظیم میں شامل ہوچکے ہیں۔ان میں سے تین ہزار کا تعلق امریکہ اور یورپ سے ہے۔ ابوبکرالبغدادی کی تنظیم انہیں عسکری تربیت دے رہی ہے اور ذہنی طور پر انہیں اپنے اپنے ملکوں میں واپس جا کر دہشت گرد تنظیموں کی بنیاد رکھنے پر آمادہ بھی کر رہی ہے۔جن ملکوں کی انتہا پسند اور دہشت گرد تنظیموں نے آئی ایس آئی ایل سے رابطہ کر کے انہیں اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے ان میں پاکستان اور افغانستان بھی شامل ہیں۔
غیر ملکی میڈیاذرائع کے مطابق آئی ایس آئی ایل اگرچہ اپنے آپ کو القاعدہ کا جانشین سمجھتی ہے لیکن مبصرین نے انہیں القاعدہ سے بھی زیادہ خطرناک اور بے رحم قرار دیا ہے کیونکہ اس نے اپنے مخالفین کو مذہبی،سیاسی یا فرقہ وارانہ امتیاز کے بغیر جس طرح ظالمانہ انداز میں قتل کیا‘ اس کی مثال نہیں ملتی۔ابوبکر البغدادی کے ہاتھ صرف عراقی فوج اور سویلین آبادی کے خون سے ہی نہیں رنگے ہوئے بلکہ اس نے اپنے پرانے ساتھیوں اور القاعدہ سے تعلق رکھنے والے جنگجوئوں کے گلے کاٹنے سے بھی احتراز نہیں کیا،جن کا قصور صرف یہ تھا کہ انہوں نے شام میں اس کی جنگی حکمتِ عملی سے اختلاف کیا تھا۔ ابوبکرالبغدادی نے اسامہ بن لادن کے جانشین الظواہری کو بھی عملی طور پر غیر موثر اور غیر متعلقہ بنا دیا ہے۔ اس کی تنظیم کا دعویٰ ہے کہ القاعدہ کی تشکیل کے وقت اسامہ بن لادن نے جو خواب دیکھا تھا، آئی ایس آئی ایل نے شام اور عراق کے مفتوحہ علاقوں پر مشتمل اسلامی ریاست قائم کر کے، اس کی تکمیل کر دی ہے۔ابوبکر البغدادی سے زیادہ سے زیادہ عسکریت پسندوں کے رجوع کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس نے میدانِ جنگ میں اپنے دستوں کی خود کمان کر کے ایک اچھا کمانڈر ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ علاوہ ازیں ابوبکرالبغدادی نے موصل اور تکریت پر حملوں کے دوران عراقی فوج کے بے شمار ہتھیاروں اور فوجی سازوسامان پر قبضہ کر کے اپنی قوت میں بے پناہ اضافہ کر لیا ہے۔ لگتا ہے اب نوری المالکی کی کمزور حکومت کے فوجی دستے بغداد کی طرف اس کی پیش قدمی نہیں روک سکتے۔ اس حقیقت کا حال ہی میں انکشاف ہوا ہے۔عراق کی سرکاری فوجوں نے تکریت‘ جو سابق صدر صدام حسین کا آبائی شہر بھی ہے‘پرہیلی کاپٹرگن شپ اور ٹینکوں کی مدد سے دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش کی لیکن حملہ ناکام رہا اور انہیں پسپائی اختیار کرنی پڑی۔دورانِ جنگ آئی ایس آئی ایل کے جنگجوئوں نے ایک جنگی ہیلی کاپٹر بھی مار گرایا۔
آئی ایس آئی ایل کی طر ف سے ''خلافت‘‘ کے اعلان کے بعد دنیا بھر میں اب دوسوال پوچھے جارہے ہیں ۔کیا آئی ایس آئی ایل کی بغداد کی طرف پیش قدمی جاری رہے گی اور شام اور عراق میں علی الترتیب صدر بشارالاسد اور وزیراعظم نوری المالکی کی حکومتیں ختم ہو جائیں گی اور دوسرے افغانستان اور پاکستان پر اس کا کیا اثر پڑے گا کیونکہ ان دونوں ملکوں میں بھی عسکریت پسندوں نے رائج الوقت حکومتوں کے خلاف لڑائی شروع کر رکھی ہے۔
جہاں تک عراق اور شام میں آئی ایس آئی ایل کی مزید پیش قدمی یا دمشق اور بغداد پر ان کے قبضے کا تعلق ہے‘بیشتر مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ عراق کی فوجیں اگر نظم و ضبط اور بہتر قیادت کا مظاہرہ کریں تو شدت پسندوں کا راستہ روک سکتی ہیں‘ کیونکہ ان کے پاس بھاری ہتھیار‘ جن میں دور مار توپیں،ٹینک اور جیٹ طیارے شامل ہیں،موجودہیں اور وہ ان ہتھیاروں کے استعمال سے جنگ کا پانسہ پلٹ سکتی ہیں۔غالباًاس حکمتِ عملی کے تحت عراق نے اپنی فوجی قوت خصوصاً فضائیہ کو مضبوط بنانا شروع کر دیا ہے۔روس سے جنگی طیاروں کی ایک کھیپ کا حصول انہی کوششوں کا حصہ ہے۔اس کے علاوہ شام جہاں ''اسلامک سٹیٹ‘‘ خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکی تھی ،نے بھی عراق کی امداد شروع کر دی ہے۔
فوری طور پر تو ''خلافت‘‘ کے اعلان سے اسلامی ملکوں کے بہت سے نوجون اس طرف راغب ہوسکتے ہیں اور ابوبکرالبغدادی کی تنظیم انہیں بخوشی اپنی صفوں میں شامل کرلے گی لیکن آہستہ آہستہ یہ سحر ٹوٹنا شروع ہوجائے گا‘ کیونکہ البغدادی کی تنظیم نے فرقہ واریت اور قتل و غارت کی بنیاد پر نام نہاد جہاد شروع کیا ہے۔ایسے جہاد کو اسلام میں کبھی پذیرائی حاصل نہیں ہوسکتی۔اس کے علاوہ ''خلافت‘‘ کے اعلان نے مسلمانوں کو ایک مرکز پر اکٹھا کرنے کی بجائے ان میں نفاق کا بیج بودیا ہے۔اس لیے کہ بہت سے لوگ اسے چیلنج کر دیں گے۔ سب سے پہلے تو یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ اصلی خلیفہ کون ہے؟ملا عمر یا ابوبکرالبغدادی۔ ابوبکرالبغدادی کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ایک سخت گیر اور آمرانہ سوچ کا مالک ہے اور اپنے علاوہ کسی کو لیڈر تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں۔ اسی سوچ کے تحت اس نے شام میں اپنے ہی ساتھیوں کے خلاف جنگ کر کے ان میں سے بہت سوں کے گلے کاٹے۔ یہاں تک کہ اس نے اسامہ بن لادن کے دستِ راست اور جانشین الزواہری کی قیادت کو بھی ماننے سے انکار کر دیا ہے۔بہت سے مبصرین کی رائے ہے کہ البغدادی نے اپنے آمرانہ رویے کی وجہ سے لاتعداد دشمن پیدا کر لیے ہیں اور اسے ان کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
عراق کی مثال سامنے رکھتے ہوئے بعض حلقوں کی رائے ہے کہ سال ِ رواں کے آخر میں جب افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج چلی جائیں گی، تو وہاں بھی افغان نیشنل آرمی اور افغان سیکورٹی فورسز طالبان کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوں گی۔اس خدشے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مبصرین طالبان کے بڑھتے ہوئے حملوں اور کارروائیوں کا حوالہ دیتے ہیں‘ لیکن جو کچھ عراق اور شام میں ہورہا ہے ضروری نہیں کہ افغانستان میں بھی ایسا ہو۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ قبائلی اور لسانی خطوط پر منقسم ہونے کے باوجود افغانیوں میں قوم پرستی کا جذبہ بہت شدید ہے۔شام اور عراق کے برعکس افغانستان کے کسی حصے کو باقی ملک سے جدا کر کے ''امارت‘‘ یا ''خلافت‘‘ قائم کرنا ممکن نہیں۔شام اور عراق میں تو فرقہ پرستی اور لسانی کارڈ کھیلا جاسکتا ہے‘ افغانستان میں ایسا ممکن نہیں حتیٰ کہ ملک کے سب سے بڑے لسانی گروہ یعنی پختونوں کو بھی باقی ملک سے کاٹ کر الگ ریاست نہیں بنایا جاسکتا کیونکہ ایسا کرنے سے نہ صرف افغانستان کی سالمیت خطرہ میں پڑ جائے گی بلکہ یہ اقدام پاکستان کیلئے بھی انتہائی خطرناک مضمرات کا حامل ہوسکتا ہے۔اس کے علاوہ افغان نیشنل آرمی نے حال ہی میں صوبہ ہلمندمیں طالبان کی یلغار کو جس کامیابی سے پسپا کیا‘ اس سے بھی افغان فوج کی اہلیت کے بارے میں شکوک و شبہات کو دور کرنے میں مدد ملی ہے۔امریکی اور ایساف کمانڈر پر اعتماد ہیں کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغان نیشنل آرمی طالبان کے خلاف حکومت اور وطن کے دفاع کی پوری پوری اہلیت رکھتی ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved