تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     06-07-2014

دل بیماریا دل شکستہ؟

چوہدری نثار علی خان‘1985ء میں مارشل لا کے زیرسایہ نمودار ہونے والی سیاست کی ایک اہم شخصیت ہیں۔مزاجاً دھڑے اور دھڑلے کے آدمی ہیں۔ دھڑا بھی اکیلے ہوتے ہیں اور دھڑلا بھی ان کا اپنا ہوتا ہے۔ سیاسی زندگی کا سارا عروج‘ انہیں نوازشریف کی معیت میں حاصل ہوا۔ وہ اپنی وزارت میں مداخلت برداشت نہیں کرتے‘ خواہ وزیراعظم کی طرف سے ہو۔ جب تک ان کی وزارتیں پٹرولیم ٹائپ کی رہیں‘ وہ بہت آسودہ تھے۔ جن وزارتوں میں عوامی رابطوں کی ضرورت نہ پڑے‘ وہاں چوہدری نثار جیسے اناپرست خوش رہتے ہیں۔ ایسی وزارتوں پر نوازشریف بھی زیادہ توجہ نہیں دیتے۔ چوہدری صاحب کی سیاسی طاقت دو ستونوں پر کھڑی ہے۔ ایک ستون ان کا حلقہ ہے‘ جس میں وہ الیکشن نہیں ہارتے۔ دوسرا ستون شہبازشریف کی دوستی ہے۔ نوازشریف کی پہلی وزارت عظمیٰ میں چوہدری صاحب کو پٹرولیم کی وزارت ملی۔ وزیراعظم نے اس وزارت کے معاملات میں کبھی مداخلت کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ حکومتی طاقت کا استعمال‘چوہدری صاحب پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے ذریعے کر لیا کرتے تھے۔ ان کی تسلی نہیں ہوتی تھی۔ وہ نوازشریف سے ملاقات کے بہانے وزیراعظم ہائوس چلے جاتے۔ اوقات کار کا زیادہ حصہ وہیں گزارتے اور بن پڑتا تو شام تک بھی وہیں رہتے اور جب ان کے وزارتی سٹاف سے پوچھا جاتا کہ چوہدری صاحب کہاں ہیں؟ تو جواب ملتا‘ وزیراعظم ہائوس میں ہیں۔ اس میں ایک مشکل تھی۔ وہ براہ راست ٹیلیفون کا استعمال نہیں کر پاتے تھے۔ وزیراعظم ہائوس کے سینئر سٹاف میں سے مختلف افسروں کے ٹیلیفون استعمال کرنا پڑتے‘ جس پر وہ مطمئن نہیں تھے۔ آخرکار ایک دن وزیراعظم کو اچھے موڈ میں دیکھ کر انہوں نے فرمائش کر دی کہ اگر انہیں چھوٹی انتظار گاہ میں‘ ایک میز رکھنے کی اجازت مل جائے‘ تووہ بہت سا کام وزیراعظم ہائوس کے اندر بیٹھ کر ہی کر لیں گے۔ وزیراعظم نے اجازت دے دی۔ 
باقی کام انہوں نے خود کر لیا۔ وزیراعظم ہائوس کی دو انتظار گاہیں ہیں۔ وزیراعظم ملاقاتوں کے لئے بڑی انتظارگاہ میں آجاتے‘ باقی مہمان چھوٹی انتظارگاہ میں منتظر رہتے۔ جتنے وزیر‘ منتخب نمائندے اور اعلیٰ افسران ‘ وزیراعظم سے ملاقات کے لئے آتے‘ انتظار میں بیٹھے ہوئے ملاقاتیوں میں سے چوہدری صاحب نمایاں شخصیتوں سے گپ شپ بھی کر لیتے۔ غیراہم افراد سے بے نیاز بیٹھے‘ میزپر رکھے کاغذات پر کچھ نہ کچھ لکھتے اور کاٹتے رہتے۔ ہر وقت وزیراعظم ہائوس میں ان کی موجودگی سے لوگ مرعوب ہونے لگے۔ انہیں ڈپٹی پرائم منسٹر کہا جانے لگا۔ اس پر چوہدری صاحب خوش ہوا کرتے تھے۔ میاں صاحب کی وزارت عظمیٰ کا پہلا دور اسی طرح گزرا۔ جب وزارت عظمیٰ ختم ہو گئی اور پارٹی کے لیڈروں کو میاں صاحب سے ملاقاتوں کا کھلا وقت ملنے لگا تو بیشتر ملاقاتیوں نے چوہدری صاحب کو یاد کرتے ہوئے‘ دبی زبان میں مشورے دیئے کہ آپ وزیراعظم ہائوس میں چوہدری نثار علی خان کو ڈپٹی پرائم منسٹر کی جو پوزیشن دے رکھی تھی‘ ہم لوگ اس پر بہت پریشان تھے۔ آپ ہمارے لیڈر ہیں۔ وزیراعظم بھی ہیں۔ آپ سے مل کر ہمارے کام بھی ہوتے اور آپ کی خوش اخلاقی سے راحت بھی ملتی‘ لیکن پرائم منسٹر ہائوس میں آتے جاتے چوہدری صاحب سے مل کر سارا مزہ خراب ہو جاتا تھا۔ نوازشریف دوسری مرتبہ وزیراعظم بنے تو انہوں نے پہلا کام یہ کیا کہ پرائم منسٹر ہائوس میں‘ کسی بھی جگہ چوہدری صاحب کے لئے میز نہیں رکھنے دی۔ چوہدری صاحب اس کے باوجود بھی‘ وزیراعظم ہائوس آ کر اپنا زیادہ وقت وہیں گزارتے۔ ان کے پاس اپنی میز اور اپنا ٹیلیفون نہ رہا۔ اکثر ادھر ادھر پائے جاتے۔ لیکن کافی وقت گزارنے کے باوجود‘ ڈپٹی پرائم منسٹر کا دبدبہ نہ بن سکا۔ وزیراعظم سے آمناسامنا تو ہو جاتا‘ لیکن ملاقاتوں کے مواقع کم ہو گئے۔ چوہدری صاحب کے لئے وہ دن بڑا مبارک ہوتا‘ جب شہبازشریف اسلام آباد تشریف لاتے۔ انہوں نے کبھی وزیراعلیٰ کے پروٹوکول سکواڈ کوانہیں ریسیو کرنے کا موقع نہیں دیا۔ سیدھے جہاز پر جاتے‘ شہبازشریف کو اپنی کار میں بٹھاتے اور خود ڈرائیو کرتے ہوئے پرائم منسٹر ہائوس میں لے آتے۔ جب تک شہبازشریف رہتے‘ انہیں وزیراعظم کی بھرپور قربت حاصل رہتی۔ واپسی کے وقت چوہدری صاحب شہبازصاحب کوخودایئرپورٹ چھوڑنے جاتے۔ ڈپٹی پرائم منسٹر تو وہ نہیں رہ گئے تھے لیکن ڈپٹی چیف منسٹر کی پوزیشن انہی کے پاس رہی۔ وہ آج بھی ہے۔ 
اس مرتبہ خرابی یہ ہوئی کہ چوہدری صاحب کو پرسکون وزارت کے بجائے‘ ہنگامہ خیز وزارت داخلہ مل گئی۔ شاید چوہدری صاحب کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ نئی وزارت کیا بلا ہے؟ آتے ہی کراچی کا مسئلہ گلے پڑ گیا۔ شہر میں آپریشن شروع ہوا تو اس میں چوہدری صاحب کی وزارت کا کردار مرکزی تھا۔ رینجرز ان کے ماتحت تھی۔ چوہدری صاحب نے شروع میں تو کراچی کے دورے بڑے شوق سے کئے۔ انہیں دوسرے شہروں میں جا کر‘ اپنی وزارت کے افسروں کی نیازمندی بلکہ ماتحتی سے واسطہ پڑتا تھا۔ اب منتخب حکومت کے وزیراعلیٰ اور وزرا سے ملاقاتیں کرنا پڑیں۔ منتخب عہدیداروں کا اپنا رکھ رکھائو ہوتا ہے۔ چوہدری صاحب ماتحتوں کی نیازمندی کے عادی تھے۔ وزیراعلیٰ اور وزرا ایسی نیاز مندی کب کرتے ہیں؟ آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ چوہدری صاحب نے آپریشن کے باوجود کراچی جانا ہی چھوڑ دیا۔ یوں سمجھ لیں کراچی سے روٹھ گئے۔ جب ایئرپورٹ کا واقعہ ہوا تو وزیراعظم کے حکم پر انہیں کراچی جانا پڑ گیا۔ چوہدری صاحب نے ایئرپورٹ پہنچ کر نجی مصروفیات کی طرح‘ اپنے ماتحتوں سے ملاقاتیں شروع کر دیں۔ وزیراعلیٰ کو ان کی آمد کا پتہ چلا تو وہ پروٹوکول کا تقاضا پورا کرتے ہوئے ایئرپورٹ آ گئے۔ لیکن چوہدری صاحب کا طرزعمل دیکھ کر فوراً ہی واپس چلے گئے۔ ملک میں امن و امان کی صورتحال کی وجہ سے‘ وزارت داخلہ کے معاملات میں ایجنسیوں اور فوج کی اعلیٰ شخصیتوں سے انٹرایکٹ کرنے کی ضرورت پڑی۔ جنرل حضرات کی اپنی حیثیت‘ طاقت اور پروٹوکول ہوتی ہے۔ چوہدری صاحب‘ شاید اس خیال میں تھے کہ یہ سارے ان کے ماتحت ہوں گے۔ لیکن جنرل ‘ سیکرٹریوں کی طرح جھک جھک کر ‘ سر سر کہنے کے عادی نہیں ہوتے۔ میرا خیال ہے‘ چوہدری صاحب نے اسی وجہ سے سکیورٹی کے معاملات پر ہونے والی میٹنگوں سے کنی کترانا شروع کر دی۔ چوہدری صاحب کا خیال تھا کہ وزیرداخلہ بن کر‘ وہ جلال بابا کی طرح ‘مشرق و مغرب کے بادشاہ بن گئے ہیں اور انہوں نے اسلام آباد پولیس سے گارڈ آف آنر بھی لے لی اور چیف آف سٹاف کی طرح کھلی جیپ میں کھڑے ہو کرچاق و چوبند دستوں کا معائنہ بھی کیا۔ مگر بعد میں وہ اس مشق سے بھی کنی کترا گئے۔ دوبارہ انہیں گارڈ آف آنر لیتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ طالبان سے مذاکرات شروع ہوئے تو چوہدری صاحب نے حسب عادت ڈکٹیشن دینا شروع کر دی۔ مذاکراتی ٹیم کا ہر رکن‘ اپنی اپنی پوزیشن رکھتا ہے۔ چوہدری صاحب کا خیال تھا کہ وہ فرمانبرداری سے ان کی ہدایات لیں گے۔ انہوں نے روز شام کو ٹیلیویژن سکرینوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ چوہدری صاحب اس پر بھی روٹھ گئے۔ وزارت داخلہ ‘ پٹرولیم کی وزارت کی طرح تو ہے نہیں۔ اس میں اپنے اپنے شعبے کے ماہر اور سرکردہ لوگ شامل ہوتے ہیں‘ جو اپنے رتبے اور وقار کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ یہ وہ علاقہ ہے ‘جہاں ان کی طاقت کا ستون‘ یعنی شہبازشریف بھی کام نہیں آ سکتے۔ ایک اور مشکل یہ آن پڑی کہ سکیورٹی کے حساس معاملات پر ہونے والی میٹنگوں میں وزیراعظم خود تشریف لے آتے ہیں۔ وزیراعظم کے سامنے چوہدری صاحب کا چراغ کیسے جلے؟ وزارت داخلہ کا انچارج ہو کر بھی‘ وہ میٹنگوں میں نمبر ٹو بن کر بیٹھیں‘ یہ ان کے مزاج کے خلاف ہے۔ میری ذاتی رائے ہے کہ وزارت داخلہ میں آ کر چوہدری صاحب کی حالت وہ ہو گئی ہے جیسے اونٹ‘ پہاڑ کے برابر آگیا ہو۔ معمول کے کام کاج کرنے والی وزارتوں میں چوہدری صاحب بادشاہ ہوتے ہیں۔ وزارت داخلہ میں بڑے بڑے جنات سے پالاپڑتا ہے‘ جہاں چوہدری صاحب کو برتری حاصل نہیں ہوتی‘ جس کے وہ عادی ہیں۔ شریف برادران کو چوہدری صاحب کی صحت مندی مطلوب ہے توانہیںکوئی ایسی وزارت دے دیں‘ جس کی میٹنگوں میں وہ ڈپٹی پرائم منسٹر بن کر بیٹھیں اور بڑے سے بڑے افسر‘ ان کے سامنے سر اور کمر جھکا کر پیش ہوں۔ ورنہ ڈاکٹر اسی مشکل میں رہیں گے کہ چوہدری صاحب کے دل کی بیماری کا علاج کریںیا ٹوٹے ہوئے دل کے ٹکڑے جوڑیں؟ دل بیمار یا دل شکستہ؟ 
ایک اور ریکارڈ: پنجاب نے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں دھرنا ہی دے دیا ہے۔ نکلنے کا نام نہیں لیتا۔ تازہ ریکارڈ کا اعزاز گلوبٹ نے حاصل کیا۔ اس کا نام گوگل سٹور کے APP پر آ گیا ہے۔نیٹ کھولیں گے تو گلو صاحب آپ کو ہر چیز توڑتے ہوئے دکھائی دیں گے۔گنیز بک کو تو مخصوص لوگ پڑھتے ہیں‘ گلوبٹ تو ساری دنیا پر چھا گیا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved