تحریر : طاہر سرور میر تاریخ اشاعت     06-07-2014

رقیب

پیپلز پارٹی ایسے نصیبوں والی ہے کہ اپنوں نے اسے سکیورٹی رسک قراردیا اورغیروں نے اس کی جاسوسی کی ۔فیلڈ مارشل ایوب خان اوریحییٰ خان کے مارشل لائوں سے پیدا شدہ حالات کے ردعمل کا نام پاکستان پیپلز پارٹی تھا۔ نومبر 1967ء میں معرض ِوجود میں آنے والی پیپلز پارٹی کی قیادت ذوالفقار علی بھٹو کررہے تھے جن کے ساتھی شہ دماغ تھے۔بھٹو صاحب کی انڈر نائن ٹین ٹیم بھی آج کے بابائے جمہوریت اوربابائے حریت سمیت دیگر بابوں سے زیادہ قابل تھی۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب پیپلز پارٹی کی فطری سیاست اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہوا کرتی تھی۔اس کی وجہ اس جماعت کا نام اورمنشور تھا ۔ چار بنیادی وعدوں اورنعروں میں شامل تھا کہ اسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے، سوشلز م ہماری معیشت ہے اور طاقت کاسرچشمہ عوام ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ رہی کہ سوشلزم ،جمہوریت اورعوام کاتو ستیاناس ہوا اور اسلام کے نام پر جو کچھ کیاگیااس کے نتائج سواستیاناس برآمد ہوئے۔ یاد رہے کہ درج بالاجملہ خصوصیات بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی میں پائی جاتی تھیں‘زرداری صاحب والی پیپلز پارٹی کا چال چلن تو ''نیک پروین ‘‘ اور''میں چپ رہوں گی ‘‘ جیسی فلموں کی مرکزی ہیروئن جیسا ہے۔جنہیں پاکستانی فلموں میں مشرقی روایات کی داسیاں بنا کرپیش کیاجاتارہاہے۔ 
اس تمہید ِغیر دلپذیر کا مقصد آپ کو آج کی کالم کہانی سناناتھا۔ امریکی میڈیا میں انکشاف کیاگیاکہ امریکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی جاسوسی کروارہاہے۔جس پر پیپلز پارٹی کے سینئر اراکین نے دفتر خارجہ سے شکایت کردی ۔دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان نے امریکی سفارت خانے سے باضابطہ رابطہ کرکے شدید احتجاج کیا اور انتباہ کیاکہ امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے)کا پاکستان کے داخلی امور میں مداخلت اورجاسوسی یانگرانی کرنا سنجیدہ نوعیت کا معاملہ ہے۔ بیان میں کہاگیاکہ جاسوسی یانگرانی سفارتی اقدار اوربین الاقوامی قوانین کے منافی ہے جبکہ ایک بڑی سیاسی جماعت کا حوالہ بھی انتہائی حیران کن ہے۔جدید دنیا اور بین الاقوامی معاملات میں امریکہ کاکردار بنیادی نوعیت کا حامل ہے۔نوابوں کی اولادیں آداب ِزندگانی سیکھنے کیلئے جیسے کوٹھوں پر جایاکرتی تھیں ٗ غالباََویسے ہی جدید دنیا میں آزادی اور اُمور جمہوریت سیکھنے کیلئے امریکہ کے وضع کئے ہوئے سلیبس کو رٹا لگانا پڑتا ہے۔جاسوسی یا نگرانی کرنے والے کو عربی زبان میں رقیب کے نام سے بھی پکاراجاتاہے ۔رقیب اوررقیبوں کا ذکر لگ بھگ سبھی شعراء نے کیاہے لیکن ذکر امریکیوںیعنی پری وشوں کا ہوتو پھر غالب رازداں کے رقیب بن جانے کا ماجرایوں سناتے ہیںکہ ع 
بن گیا رقیب آخر، تھا جو رازداں اپنا
پیپلز پارٹی کی صفوں میں سے امریکہ کی حکم عدولی صرف ذوالفقار علی بھٹو نے ہی کی تھی۔بھٹو عالمی سیاست میں امریکہ کے ہیبت ناک اورسفاک کردار سے واقف تھے ،وہ جانتے تھے کہ امریکہ نے 1945ء میں دوسری جنگ عظیم کے دوران 6اور 9اگست کے دن جاپان کے دوشہروں ہیروشیما اورناگا ساکی پر ایٹم بم گرا کر ڈیڑھ لاکھ سے زائد انسانوں کی ہڈیوں کو بھی جلاکر راکھ بناڈالاتھا۔لٹل بوائے اورفیٹ مین نامی ایٹم بموں نے کئی نسلوں کو اپاہج بنا دیاتھا۔بھٹو اپنی جبلی ذہانت اورریاضت کے باعث بین الاقوامی سیاست کا بہترین ادراک رکھتے تھے مگر وطن پرستی کے ہاتھوں مارے گئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے والد کی زندگی اور موت سے سیکھتے ہوئے اس رستے پر چلنے سے گریز کیالیکن اس کے باوجود قتل کردی گئیں۔بے نظیر بھٹو اورجنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے مابین ''ڈیل ‘‘ کا ضامن بھی امریکہ تھا لیکن بھٹو کی بیٹی کا انجام اپنے والد سے مختلف نہ ہوا۔ کیا شہادتیں صرف بھٹو خاندان سے ہی مقصود ہیں؟ دیگر کو اس ضمن میں ''استثنیٰ‘‘ حاصل ہے؟ اس سوال کا جواب پاکستان کی سیاست اور ریاست دونوں کے پاس نہیں ہے۔ 
پیپلز پارٹی کی جاسوسی کیے جانے کا معاملہ اگرچہ سنجیدہ ہے اوراس سلسلہ میں فرحت اللہ بابر کو بھی وزارت خارجہ نے سنجیدگی سے لیاہے لیکن رحمان ملک کا ذکر آتے ہی ''کھوتا کھُو وچ جاپیا‘‘ (گدھا کنوئیں میں جا گرا ہے )۔چیئر مین بھٹو کی پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل جے اے رحیم اور ڈپٹی سیکرٹری جنرل خورشید حسن میر ہوا کرتے تھے جبکہ ان کے دیگر ساتھیوں میں ڈاکٹر مبشر حسن، حنیف رامے اور ملک معراج خالد سمیت دیگر شامل تھے۔دوسری طرف زرداری صاحب کی پیپلز پارٹی میں اکادکا نظریاتی ساتھیوں سے پہلے رحمان ملک ، ڈاکٹر عاصم (پٹرولیم والے)، 
ڈاکٹر قیوم سومرو ،مظفر ٹپی اور باجی فریال تالپور چھائی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔یہ تو شکر ہے کہ آج تک اس میں رضا ربانی،اعتزاز احسن ،خورشیدشاہ اورچند دوسرے پرانی نظریاتی پارٹی کی ''یادگار‘‘ کے طور پر شامل ہیں۔وگرنہ بلاول بھٹو کے کول اور ینگ ایڈوائزرز نے تو پیپلز پارٹی کو ''فن پارٹی ‘‘ بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ۔یہاں یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ بلاول بھٹو اپنی ہم عمر لیڈر شپ میں سے سب سے زیادہ ذہین ،پڑھا لکھا اور ُپر جوش دکھائی دیتا ہے۔ایمانداری کی بات ہے کہ دیگر سیاسی گھرانوں کے چشم وچراغ مستند اور مشہور اساتذہ کی تعلیمی اور سیاسی تھتکار (رقص کی زبان میں ابتدائی تعلیم )کے باوجودخاطر خواہ پرفارمنس کا مظاہرہ نہیں کرپارہے ۔بلاول کے سیاسی رقیبوں کو جب ٹی وی چینلز پر بولتے دیکھیں تو یوں لگتاہے کہ جیسے سیاست کے کسی گھسے پٹے گیس پیپر سے رٹا رٹایا سبق پڑھ رہے ہوں ۔دوسری طرف موہنجو داڑومیں سند ھ فیسٹیول کی افتتاحی تقریب پر بلاول نے اپنی ُپر جوش اوربے ساختہ تقریر سے ثابت کردیاتھا کہ اپنے ہم عمروں میں اسکی حیثیت فیفا فٹ بال ورلڈ کپ کے ہیرو میسی جیسی ہے۔ 
پیپلز پارٹی کی جاسوسی کا معاملہ چھڑے تو یہ کہنا پڑتا ہے کہ بھٹو اوربے نظیر بھٹو کے بعد امریکہ کو اس پارٹی سے خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔البتہ احتیاطاََ وہ اس کی حرکات وسکنات پر نگاہ رکھتے ہوئے اندازہ لگا سکتا ہے کہ پی پی کی سندھ حکومت نے مرکز کا تجویز کردہ آئی جی تعینات کیوں نہیں کیا؟ حکومت کو لوڈشیڈنگ سے بچانے کے لئے خادم اعلیٰ اور وزیر اعظم نوازشریف کو اپنے نیٹ ورک میں کتنے جمہوری میگا واٹ شارٹ فال کا سامنا ہے۔اور وہ کن شرائط پر نوڈیرو واقع'' پیپلز پارٹی تھر مل پاور پراجیکٹ ‘‘سے یہ شارٹ فال پورا کریں گے؟ 
ظاہر ہے میاں برادران یہ قدم جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچانے کے لئے اٹھارہے ہیں،سیاست کے معروف معنی عوامی خدمت کے بھی ہیں ۔عوام کی خدمت کرنے کی دھن میں سیاسی مخالفین کو ''علی بابا‘‘ اور ان کے ساتھیوں کو ''چالیس چور ‘‘ قرار دینے والوں سے اگر آج سوال کیاجائے کہ اگر آصف زرداری علی بابا تھے تو آپ بھی سندباد اور الہ دین سے کم تونہیںہیں؟
ہمارے سیاسی قائدین علی بابا ہوں، سند باد یا پھر الہ دین‘ عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں۔وہ چاہتے ہیںکہ آپ سب مل کر کوئی ایسا جن نکالیں جو ان کے تما م دکھ درداورمسائل کوئی منتر پڑھ کر ہمیشہ ،ہمیشہ کے لئے ُچھو کردے۔ جمہوری قیادت اس امتحان پر پورا اترتی ہے یانہیں؟اس کا فیصلہ یا قسمت یا نصیب والا ہے۔ تاہم تب تک امریکہ بصد شوق پیپلز پارٹی کی جاسوسی اورنگرانی کرے ۔پیپلزپارٹی کا معاملہ بھی غالب والا ہے ،میرزا نے زندگی میں ہی موت کے بعد کا منظر یوں کھینچا تھاکہ ؎
چند تصویرِ بتاں، چند حسینوں کے خطوط
بعد مرنے کے میرے گھر سے یہ ساماں نکلا
پیپلز پارٹی اورہم سب کے لئے ہماری نگرانی کرنے والارقیب امریکہ ہمارے لئے اتنا ہی اہم ہے جتنا عبدالحمید عدم کے لئے ان کا رقیب باذوق تھا،عدم نے کہاتھاکہ ؎ 
دوہی باذوق آدمی ہیں عدم 
میں ہوا یا میرا رقیب ہوا 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved