تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     07-07-2014

ہم آخر ہر بات پر اعتراض کیوں کرتے ہیں؟

بالآخر ارسلان افتخار نے بلوچستان سرمایہ کاری بورڈ کے وائس چیئرمین کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ یہ استعفیٰ بظاہر تو ارسلان افتخار نے خود یعنی رضا کارانہ دیا ہے مگر اس کے پیچھے وہ شدید مزاحمت تھی جو سول سوسائٹی ، میڈیا، سیاستدان اور بذات خود ڈاکٹر عبدالمالک کی اپنی نیشنل پارٹی کے عہدیداروں اور ارکان اسمبلی نے کی تھی۔ نیشنل پارٹی کے دیگر رہنمائوں نے اپنے وزیراعلیٰ کی بڑی طبیعت صاف کی۔ میڈیا نے اس پر بھرپور شور مچایا اور بالآخر مجبوراً ڈاکٹر عبدالمالک نے چیف جسٹس زادے سے کہا کہ آپ کی عزت کی توخیر ہے‘ کوئی بات نہیں‘ مگر اب خود میری عزت دائو پر لگ گئی ہے لہٰذا مجھے اس مصیبت سے نکالو۔ استعفیٰ دو اور گھر جائو۔ اس کے بعد ارسلان افتخار نے ''ازخود‘‘ استعفیٰ دے دیا۔
ارسلان افتخار کا استعفیٰ بھی تکبر، غرور اور خود ستائشی سے بھرا ہوا ہے۔ استعفیٰ پڑھیں تو لگتا ہے کہ جیسے دنیائے سرمایہ کاری کا سب سے معروف، نیک نام اور کامیاب ترین ماہر مستعفی ہورہا ہے۔ عوامی دبائو اور میڈیا میں معاملات اچھلنے کے بعد ارسلان افتخار کا یہ دوسرا استعفیٰ ہے۔ موصوف اس سے قبل بھی اسی قسم کے معاملے میں اپنے باپ کو خراب کرنے اور خود رسوا ہونے کے بعد استعفیٰ دے چکے ہیں۔ اگر خواہشات اور ڈھٹائی کا یہی عالم رہا تو گمان ہے وہ آئندہ بھی کئی استعفے دے گا۔ اس نے اپنے استعفے میں لکھا ہے ''مجھے کسی سفارش پر تعینات نہیں 
کیاگیا تھا۔ کیا دوسرے صوبوں میں لوگ ایف پی ایس سی کا امتحان پاس کرکے آئے ہیں؟ میں ایک عرصے سے چپ تھا۔ پہلے میرے والد صاحب کی پوزیشن تھی۔ میں جواب نہیں دیتا تھا۔ ہر طرح کی باتیں کی گئیں۔ میں ان سب کو چیلنج کرتا ہوں۔ اب میرے والد چیف جسٹس نہیں، عدالتیں کھلی ہیں‘‘۔ پھر یہ بھی کہا '' میں بطور پاکستانی آرٹیکل 62اور 63کی تشریح کے لیے سامنے آئوں گا۔ میں اور والد ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتے۔ گھبرانے والا نہیں، استعفیٰ دے کر لوگوں کے منہ بند کردیے ہیں‘‘۔
میں نے چودھری بھکن کو کہا کہ اب تو ڈاکٹر ارسلان افتخار نے استعفیٰ دے دیا ہے‘ اب تمہیں کیا اعتراض ہے؟ چودھری کہنے لگا‘ مجھے ارسلان افتخار کے استعفے پر کوئی رتی برابر بھی اعتراض نہیں ہے۔ مجھے تو صرف اس بات پر اعتراض ہے کہ ارسلان افتخار اس عہدے پر آیا کیسے تھا؟ کیا وہ کوئی پروفیشنل تھا اور سرمایہ کاری کے معاملات کو سمجھتا تھا؟یہ بات درست ہے کہ وہ دنوں میں امیر ہوا تھا اور اس نے تھوڑے عرصے میں ہی وہ کچھ کرکے دکھایا جو لوگوں کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہوتا مگر اس کا سرمایہ کاری سے کیا تعلق ہے؟ ریکوڈک والا معاملہ کوئی ملک ریاض والا معاملہ تو نہیں 
ہے کہ وہاں ابا جان کا نام چلاکر کام نکال لیاجائے ۔ دنیا میں سرمایہ کاری کے لیے کسی کو قائل کرنا اور اس سلسلے میں رائج عالمی قوانین اور قواعد و ضوابط کو سمجھنا ایک الگ چیز ہے اور اپنے والد گرامی کے عہدے سے ڈرا کر مال پانی اکٹھا کرنا بالکل ایک الگ چیز ہے۔ اباجی کے عہدے کے طفیل ایئرپورٹ پر وی وی آئی پی پروٹوکول لینا ایک بالکل الگ معاملہ ہے۔ برخوردار فرما رہے ہیں کہ انہیں کسی سفارش پر تعینات نہیں کیاگیا تھا۔ تو کیا موصوف کے پاس اس سلسلے میں کوئی تجربہ تھا؟ کوئی پروفیشنل ڈگری تھی؟ کیا موصوف سرمایہ کاری کے کسی بورڈ سے بحیثیت ممبر بھی کبھی وابستہ رہے ؟ اگر سفارش نہیں تھی تو کیا میرٹ تھا؟ ارسلان افتخار کی کل حیثیت ایک چیف جسٹس زادے سے زیادہ اور ہے کیا ؟ ابھی تو فرزند اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال کو گلہ رہتا ہے کہ لوگ انہیں ابھی تک ان کے والد کے حوالے سے جانتے ہیں اور یہ سچ بھی ہے کہ اگر وہ فرزند اقبال نہ ہوتے تو عدالتوں میں بطوروکیل ہی پیش ہوتے رہتے۔ اللہ ہی جانے کہ وہ وکیل بھی کیسے تھے مگر پھر بھی وہ اپنی فیلڈ میں اعلیٰ ترین تعلیم یافتہ تھے۔ ڈاکٹریٹ کی ہوئی تھی اور قانون کے شعبہ سے ہی متعلق تھے۔ ادھر ڈاکٹر ارسلان کا معاملہ تویہ ہے کہ اگر چیف جسٹس زادے نہ ہوتے تو ایف ایس سی میں '' سی گریڈ‘‘ کے طفیل بعدازاں سادہ بی اے کرکے کہیں کلرکی کررہے ہوتے۔ انہوں نے سرمایہ کاری کے سلسلے میں ایسا کون سا کارنامہ سرانجام دیا تھا جس کی بنیاد پر وہ خود کو سفارشی نہیں بلکہ میرٹ پر اس عہدے کا حق دار سمجھتے ہیں؟ 
صوفی کہنے لگا میں آپ کو موصوف کا میرٹ بتاتا ہوں۔ ایف ایس سی میں سی گریڈ لیا اور بولان میڈیکل میں داخل ہوگیا۔ موصوف کا یہ داخلہ صرف اور صرف میرٹ پر ہوا تھا اور یہ میرٹ تھا کہ وہ وزیراعلیٰ کے خصوصی کوٹے میں میڈیکل کالج ہی داخل ہوئے۔ اس سلسلے میں ان کے والد صاحب کا نام نامی یا سفارش قطعاً استعمال نہیں ہوئی تھی۔ پھر موصوف ڈاکٹر بن گئے ۔ ڈاکٹر بننے کے فوراً بعد میرٹ پر میڈیکل آفیسر تعینات ہوگئے۔ صرف چھبیس دن بعد ہی ان کی عالمی شہرت سے متاثر ہوکر ایف آئی اے والوں نے ان کی خدمات صرف اور صرف میرٹ کی بنیاد پر مانگ لیں اور اس طرح یہ نوجوان اپنی چھبیس روزہ سروس بطور میڈیکل آفیسر کی بنیاد پر میرٹ پر اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایف آئی اے لگ گیا۔ مئی2006ء میں میرٹ پر گریڈ سترہ سے گریڈ اٹھارہ میں ترقی پاگیا اور نیشنل پولیس اکیڈمی میں تربیت کے لیے چلاگیا۔ ایک ڈاکٹر کے میرٹ پر بلوچستان میڈیکل سروس سے وفاقی حکومت میں ایف آئی اے میں جانے‘ گریڈ سترہ سے اٹھارہ میں ترقی پانے اور نیشنل پولیس اکیڈمی سے تربیت پاکر مستقل طور پر ایف آئی اے میں ضم ہونے کی یہ شاید پہلی اور آخری مثال تھی۔ اس پر کھپ مچ گئی۔ رولا پڑا۔ حتیٰ کہ یہ معاملہ ان کے والد گرامی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں بھی اٹھایاگیا۔ بہرحال انہیں میڈیا، سول سوسائٹی اور کئی دیگر عوامل کی طرف سے شدید تنقید کے باعث اس عہدے سے بھی مستعفی ہونا پڑا۔ عجب بدقسمت نوجوان ہے۔ میرٹ پر سی گریڈ لے کر میڈیکل کالج میں داخل ہوتا ہے تو شیخ رشید اعتراض کرتے ہیں۔ میرٹ پر ایف آئی اے میں ڈپٹی ڈائریکٹر لگتا ہے تو پبلک شور مچاتی ہے۔ میرٹ پر نیشنل پولیس اکیڈمی جاتا ہے تو میڈیا کھپ مچاتا ہے۔ میرٹ پر پیسے کماتا ہے تو عمران خان تنگ کرتے ہیں۔ میرٹ پر بلوچستان میں سرمایہ کاری بورڈ کا وائس چیئرمین لگ کر اربوں روپے کی ریکوڈک میں سونے اور تانبے کی کانوں کا مختار بنتا ہے تو سارا پاکستان آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے۔ عجب ملک اور عجیب قوم ہے۔ کسی ہونہار شخص کو میرٹ پر ترقی کرتا نہیں دیکھ پاتے۔ ان حالات میں میرٹ کا بول بالا کیسے ہوسکتا ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved