شہرۂ آفاق کتاب ''سفرنامہ مقبوضہ ہندوستان‘‘ کے مصنف‘ ہمارے دوست اور انیس امروہوی کے یارِ غار سید انیس شاہ جیلانی جو محمد آباد (صادق آباد) میں اپنے والد صاحب کے نام پر مبارک لائبریری قائم کیے ہوئے ہیں اور وہیں سے ''لالۂ صحرا‘‘ کے نام سے ایک سہ ماہی جریدہ بھی نکالتے ہیں‘ ایک تازہ تصنیف مندرجہ بالا عنوان سے مرتب کر کے میدان میں لائے ہیں جو بے حد دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف ادبی شخصیات کے رویوں اور دیگر خصوصیات سے پردہ اٹھاتا ہے۔ یہ کتاب فکشن ہائوس لاہور نے چھاپی ہے اور اس کی قیمت 240 روپے رکھی ہے۔
یہ قصہ لطیف الزمان صاحب کے ایک خط سے شروع ہوتا ہے جو کچھ یوں ہے کہ 5اپریل 1969ء کو توفیق احمد قادری امروہوی نے بھوپال کے ایک کتب فروش شفیق الحسن سے بیاضِ غالب کو گیارہ روپے میں خریدا اور 7 اپریل 1969ء کو روزنامہ الجمعیت دہلی میں اشتہار دیا کہ اس کے پاس غالب کے ہاتھ کا لکھا ہوا دیوان موجود ہے اور اس کی قیمت چھ ہزار روپے ہے۔ 7 اپریل 1969ء کو ہندوستان میں شائع ہونے والے کئی زبانوں کے اخبارات میں بڑی تفصیل سے یہ خبر شائع ہوئی کہ غالب کے قلم سے لکھا ہوا مسودہ جس میں تقریباً ایک ہزار اردو غزلیات ،13 فارسی کی اور گیارہ رباعیات اردو کی موجود ہیں‘ دریافت ہواہے...
دراصل یہ مختلف خطوط کا مجموعہ ہے جسے انیس شاہ جیلانی نے ترتیب دیا ہے جو اس قصے کے کرداروں نے ایک دوسرے کو لکھے اور جن میں مرتب کے اپنے کمنٹس بھی موجود ہیں۔ ان حضرات کا تعارف خود بخود ہی ہوتا چلا جائے گا۔ مثلاً ایک خط اس طرح سے ہے:
لطیف الزماں خاں کا بے حد کامیاب جوابی حملہ اور ترکی بہ ترکی جواب معروف ادیب شاعر‘ مفسر‘ محقق اور صحافی ناشرحضرت مشفق خواجہ کے لیے۔
موصوف (لطیف الزماں خاں) کے پاس غالب سے متعلق کتابوں کا بہت بڑا ذخیرہ ہے جس کی بنا پر انہیں غالب شناس قرار دینا ایسا ہی ہے جیسے کسی کے پاس قوتِ باہ کی دوائوں کا ذخیرہ دیکھ کر اس کی قوت مردمی کی شان میں قصیدے پڑھے جائیں (مشفق خواجہ بنام گوہر نوشاہی مطبوعہ برسبیل غالب از سید معین الرحمن ،مطبع اول دو ہزار)
''جناب مشفق خواجہ! کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔ میں چار جوان جہان بچوں کا باپ ہوں۔ آپ نرے خواجہ سرا۔ کیا لطیفہ ہے کہ میری ''مردانگی‘‘ پر وہ شبہ ظاہر کر رہا ہے جو بے چارہ خود قوتِ مردمی سے بالکل محروم ہے۔ لاہور میں ان کے ہم پلہ ''مرد تحقیق‘‘ ہانپتے ہوئے ڈاکٹر عبدالوحید قریشی کا بھی یہی حال ہے۔ نہ مشفق خواجہ کے کوئی اولاد نہ وحید قریشی صاحبِ اولاد۔ دونوں دوسروں کو تکلیف پہنچانے اور غیبت کا سیشن لگانے کی شہرت میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ہیں۔ مقبولت کا یہ حال ہے کہ آزادانہ رائے لی جا سکے تو ان دونوں کو اپنی بیویوں سے بھی اپنے حق میں ووٹ نہ ملیں۔ مشفق خواجہ اس کے جواب میں کیا فرماتے ہیں اس کا انتظار کرتا ہوں (لطیف الزماں خاں بنام انعام الحق جاوید مطبوعہ برسبیل غالبؔ از سید معین الرحمن) ''میں ایک کتاب شائع کرنا چاہتا ہوں ''اردو کے تین دروغ گو‘‘ اس سلسلے کی ایک کڑی تو حضرت ڈاکٹر نثار احمد فاروقی ہیں۔ دوسرے صاحب ہیں ڈاکٹر سید معین الرحمن‘ تیسرے دروغ گو آل احمد سرور صاحب ہیں (اکتوبر 1989ء) ''ایک بڑے مزے کی خبر سنیے۔ سید قدرت حسین نقوی صاحب نے ملتان میں سکول کی ملازمت ترک کردی۔وہاں انہیں ایک سو دس روپے ماہانہ ملتا تھا۔ صفی صاحب نے حقِ دوستی یوں ادا کیا کہ جوش صاحب کو ترقی بورڈ سے نکالا اور ساڑھے چھ سو ماہانہ پر قدرت صاحب کا تقرر کیا۔ جوش صاحب کا نعم البدل کیا خوب تلاش کیا‘‘۔ ''اقبالؔ اور غالبؔ دونوں کو اپنی عظمت کا احساس تھا مگر اقبالؔ اور غالبؔ کے احساس میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ غالبؔ کو ڈومنی سے عشق تھا تو چھپایا نہیں۔ اقبال اگر عطیہ کو چاہتے تھے تو چھپاتے تھے۔ شبلی کا بھی یہی حال تھا۔ غالب جسے جو کچھ کہا چاہتا کہہ گزرتا لیکن یہ بات کسی اور کو نصیب نہ ہو سکی‘‘۔
''ڈاکٹر محمد ایوب قادری کی تحریک ''العلم‘‘ کے غالب نمبر کے لیے میں نے غالب کی دشنام طرازیوں کو ''کتنے شیریں ہیں تیرے لب‘‘ کے عنوان سے یکجا کر دیا تھا جسے کچھ لوگوں نے پسند بھی کیا۔ باقی رہی غالب کی چغل خوریوں کی بات تو بھائی غالب بڑے دنیا دار بھی تو تھے۔ شاعری ذریعۂ عزت نہ سہی‘ پیٹ کے معاملات بھی تھے۔ ایک ہی قصیدے کو مختلف ہر آنے والے حکمران کا نام ڈال کر آگے بڑھانے والا حصولِ کرسی وزرکے لیے لگائی بجھائی کیوں نہیں کر سکتا۔ انگریز کی خوشنودیٔ مزاج سے زیادہ اپنے جلے دل کے پھپھولے بھی تو پھوڑنا تھے‘‘۔
''رشید احمد صدیقی صاحب‘ ان جیسا نثرنگار دور جدید میں پیدا ہی نہیں ہوا۔ اب نہیں‘ برسوں سے بجھ گئے ہیں۔ ان سے ملا ہوں اور آج تک ان کے چہرے کے کرب کے آثار کو نہیں بھول سکا ہوں۔ ان کی صاحبزادی سلمیٰ کی شادی دہلی میں ہوئی۔ تین بچوں کی ماں‘ اور ٹھوکر کھائی۔ شوہر نے منع کیا اور سمجھایا مگر وہ یہی کہتی رہیں کہ آداب اور ادب کے رشتے سے وہ کرشن چندر (اردو کے مشہور افسانہ نگار) سے ملتی ہیں۔ بالآخر شوہر سے علیحدگی ہوئی اور کرشن چندر اور سلمیٰ نے شادی کر لی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘۔
''اردو ادب سے جو لگائو مجھے پیدا ہوا‘ اس کے ذمہ دار تین حضرات ہیں۔ نیاز صاحب! مجنوں گورکھپوری اور جوش۔ شاعری کو پڑھنا اور لطف اندوز ہونا جوش کی شاعری کا عطا کردہ تحفہ ہے۔ نیاز صاحب کی تحریروں سے شعر کے حسن و قبح پر نظر ڈالنا آیا اور مجنوں کی تحریروں سے میں نے افسانوی ادب کا مطالعہ کیا۔ ان تینوں کی جانب سے دل میں ایک کسک بھی ہے۔ ان تینوں حضرات نے ہندوستان سے ہجرت کر کے ہندوستان کے مسلمانوں کو دکھ پہنچایا۔ تینوں نے اپنی تحریروں سے پاکستان کی مخالفت کی اور یہیں آئے‘ ایسا نہیں ہونا چاہیے‘‘۔
''ہم ایک ڈبیا میں بند قوم ہیں‘ بالکل کنوئیں کے مینڈک۔ وہ بھی کبھی کبھار سورج کی روشنی کا مزہ چکھ لیتا ہے۔ ہمارا حال اس سے بھی بدتر ہے۔ یہاں قدم قدم پر چودھری محمد حسین اب بھی موجود ہیں جنہیں منٹو جیسا رگِ جاں سے قریب قلم کار لفنگاہی نظر آتا رہا۔ زندگی بھر جب تک منٹو جئے ان پر ایک نہ ایک عذاب مسلط کرنے کا ثواب کماتے رہے‘‘۔
یہ اس نہایت دلچسپ اور چشم کشا واقعات پر مبنی کتاب کا محض ایک اجمالی جائزہ ہے کہ کالم میں اس سے زیادہ کی گنجائش ہی کہاں ہے۔ فکشن ہائوس کچھ زیادہ دور نہیں‘ اسے خریدیے اور بھرپور لطف اٹھایئے!
آج کا مقطع
تغافل اُس کا توجہ سے کم نہیں ہے، ظفرؔ
کہ یہ سلوک بھی ہر ایک سے نہیں ہوتا