نواب امیر خان 1768ء میں راجستھان میں رہنے والے ایک پٹھان گھر میں پیدا ہوا۔ سالار زئی پٹھان خاندان سے تعلق ہونے کی وجہ سے اس نے اپنا آبائی پیشہ سپاہ گری اختیار کیا اور زمانے کے دستور کے مطابق اپنے رشتہ داروں کے ساتھ راجستھان کے چھوٹے موٹے نوابوں کے حفاظتی دستوں میں شامل ہوکر گزر بسر کرنے لگا۔ ایک نواب نے دھتکارا تو کسی دوسرے کی ذاتی فوج کا حصہ بنا اور وہاں سے لات پڑی تو کسی اور زمیندار کی ٹولی میں شامل ہوکراس کے مخالف کی زندگی اجیرن کردی۔ اٹھارویں صدی کاہندوستان طوائف الملوکی سے گزر رہا تھا اور انگریز ایک کو دوسرے سے لڑا کر اپنے پاؤں پھیلاتے چلے جارہے تھے، ایک مریل سا بادشاہ اگرچہ دلی میں موجود تھا لیکن عملاً ملک پر جہاں جس کا زور چلتا وہ اپنی حکومت قائم کرلیتا۔ اس افراتفری میں امیر خان کو عجب سوجھی اور خوب سوجھی۔ اس نے اپنے خاندان کے بیکار نوجوانوں کو اکٹھا کرکے ایک ایسی فوجی ٹولی بنالی جو کرائے پر اپنی خدمات ضرورت مندوں کو فراہم کرتی تھی۔ علاقے کے نواب اپنے اپنے مخالفین کی درگت بنوانے کے لیے اس ٹولی کی خدمات کا معاوضہ نقد یا بصورت زمین ادا کرتے اور اپنا مقصد حاصل کرکے اس ٹولی کو بطریق احسن فارغ کردیتے۔ امیر خان نے کرائے پر بدمعاشی کی خدمات فراہم کرنے کا نظام شروع کرکے گویا زمینداروں کو بدمعاش پالنے سے بے نیاز کردیا تھا۔ وہ اپنے بدمعاشوں کو بروقت اور باقاعدہ تنخواہ ادا کرتا جس کی وجہ سے بہت جلد اردگرد کے چھوٹے موٹے شورہ پشتوں نے بھی اس کی ملازمت قبول کرلی۔سیاسی عدم استحکام کے اس دور میں اس کا کاروبار بہت تیزی سے پھیلا ۔ ٹولی اب فوج کا روپ دھار نے لگی، اس کے 'سپاہی‘ وردیاں پہننے لگے اور باقاعدگی سے فوجی تربیت حاصل کرنے لگے۔ اب امیر خان بھی سپاہ سالار کہلانے لگا اور بجائے چھوٹے موٹے نوابوں کے مرہٹوں ، روہیلوں اور راجستھان کے راجوں کو کرائے پر اپنی خدمات فراہم کرنے لگا۔ 1810ء تک اس لشکر میں آٹھ ہزار گھڑسوار ، دس ہزار پیدل فوجی اور دو سو چھوٹے بڑے بارودی ہتھیار تھے۔ اس کے لشکر کی اتنی شہرت ہوچکی تھی کہ کچھ عرصہ کے لیے سید احمد شہیدؒ نے اس امید پر اس کی ملازمت کی کہ شاید وہ اس کی مفادپرستانہ ذہنیت کو بدل کر انگریزوں اور سکھوں کے خلاف جہاد کی راہ پر ڈال سکیں گے لیکن جب انہیںمعلوم ہوگیا کہ یہ لشکر نیچے سے اوپر تک ناقابلِ اصلاح بدمعاشوں سے بھرا ہے تو اسے چھوڑ کر چلے گئے۔
امیرخان نے اپنی موقع شناسی سے بہت جلد بھانپ لیا کہ ہندوستان میں اب انگریزی اقتدار کو روکنا ممکن نہیں رہا۔ ویسے بھی اس نے اپنے روہیلہ گاہکوں کی طرف سے انگریز کے ساتھ لڑ کر دیکھ لیا تھا کہ جنگی حکمت عملی اور ہتھیاروں کے معاملے میں کوئی ہندوستانی لشکر زیادہ دیر تک ان کے سامنے جم نہیں سکتا۔ دوسری طرف روہیلوں کے خلاف جنگ میں امیرخان کے کرائے کے فوجیوں کی کارکردگی دیکھ کر ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھی سمجھ لیا کہ اس کو رام کیے بغیر راجستھان پر قبضہ آسان نہیں ہوگا۔ سو انگریزوں نے 1817ء میں اس سے ایک معاہدہ کرکے اسے ریاست ٹونک (اب ضلع ٹونک ، بھارت) کا حکمران تسلیم کرلیا جسے اندرونی طور پر مکمل آزادی حاصل تھی اور اسے کوئی خراج بھی ادا نہیں کرنا تھا۔ اس معاہدے کے بعد امیر خان ، نواب تسلیم کرلیا گیا اور انگریزوں نے بہت جلد راجستھان کو برطانوی ہند کا حصہ بنا لیا۔
نواب امیر خان کہنے کو راجستھانی تھا لیکن درحقیقت ایک ایسا کردار ہے جو ہر اس ریاست میں جنم لیتا ہے جہاں انتظام ابتر ہوجائے۔ یہ کردار اپنا جتھا بنا کر کبھی ایک کے ساتھ مل کر کسی دوسرے سے لڑتا ہے اور کبھی دوسرے سے کرایہ وصول کرکے پہلے کو تہہ تیغ کرنے پر تل جاتا ہے۔ ڈھائی سو سال قبل کے امیر خان نے بالکل سادہ طریقہ اپنایا اور اپنے جتھے کی خدمات فروخت کرکے اپنا الو سیدھا کرلیا، وقت کے ساتھ ساتھ امیرخانوں کے ڈھنگ بدلتے گئے۔اب ضروری نہیں کہ یہ ہتھیار بند لشکر بنائیں، یہ لوگ اب سیاسی طریقے سے ملکوں کو برباد کرتے ہیں۔ کبھی اسلام کے نام کو استعمال کرتے ہیں، کبھی اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے انقلاب کا نعرہ بلند کردیتے ہیں اور کبھی کسی عنوان سے لانگ مارچوں کا ڈول ڈالتے ہیں۔ مقصد ان کا صرف ایک ہی رہتا ہے کہ کسی صورت بھی افراتفری اور بدامنی ختم نہ ہونے پائے، کیونکہ ان لوگوں کو معلوم ہے کہ ایک بار امن قائم ہوگیا تو ان کا کاروبار ختم ہوجائے گا، اس لیے جیسے ہی کسی کمزور ریاست میں مضبوطی کا تاثر ابھرنے لگتا ہے، وہاں کے امیر خان اپنے اپنے جتھے لے کر میدان میں اتر آتے ہیں اور دوبارہ وہی ماحول پیدا کرنے کی سازشیں شروع کردیتے ہیں جو ان کے دھندے کے لیے ضروری ہے۔بالکل ایسے ہی جیسے آج کل پاکستان کے امیر خان ہمیں دھمکا رہے ہیں کہ وہ اپنے اپنے جتھے لے کر اسلام آباد پر چڑھ دوڑیں گے اور اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔
شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن شروع کرکے پاکستان نے دنیا پر ثابت کیا ہے کہ ہم ایک کمزور ہوتی ہوئی ریاست کی بجائے مستحکم ہوتی ہوئی ریاست بننے کی کوشش کررہے ہیں۔ استحکام کا امکان پیدا ہوتے ہی امیرخانوں کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں کیونکہ ان جتھہ فروشوں کو اپنی دکانیں بند ہوتی نظر آرہی ہیں۔ یہ جانتے ہیں کہ ایک بار پاکستان دہشت گردوں کو برباد کرنے میں کامیاب ہوگیا توان امیرخانوں کے پاس بیچنے کے لیے کچھ نہیں رہے گا۔ اس 'ہنگامی‘ صورتحال سے نمٹنے کے لیے کوئی کینیڈا کے برف زاروں سے انقلاب کا فارمولا لے آیا ہے اور کوئی نامعلوم سے مطالبات لے کر لانگ مارچ کا نسخہ آزمانے چلا ہے۔یہ سب صرف اس لیے کیا جارہا ہے کہ پاکستان کو شمالی وزیرستان میں زیادہ سے زیادہ عرصے تک الجھایا جاسکے، اور یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کبھی تو فوج کی توجہ ہدف سے ہٹائی جائے اور کبھی حکومت کو غیر ضروری طور پر الجھا لیا جائے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ اس قماش کے لوگوں سے نمٹنے کے لیے طاقت کی نہیں مصلحت کی ضرورت ہوتی ہے۔ آج کے امیرخانوں کا علاج صرف اور صرف عوام کے پاس ہے۔ ان لوگوں کو عوام کی عدالت میں لے جائیں تاکہ انہیں ان کی اصل حیثیت معلوم ہوجائے اور انہیں عوام تک لیجانے کا راستہ ہمارا دستور آرٹیکل ایک سو چالیس اے کے ذریعے دکھاتا ہے، جس کا مطلب ہے ملک میں بلدیاتی انتخاب۔ اگر حکومت آئین کے اس آرٹیکل پر عمل کرتے ہوئے بلدیاتی انتخابات کا اعلان کردیتی ہے تو یہ سارے امیرخان جو آج اپنے قد سے کہیں بڑے نظر آتے ہیں دوڑ جائیں گے یا گمنامی کے گھاٹ اتر جائیں گے۔ عوام ان لوگوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور خوب جانتے ہیں کہ یہ کس سلوک کے مستحق ہیں۔
یاد رکھیے امیرخانوں کی دلیل ہے کہ حکومت آرٹیکل چھ پر تو سرگرمی سے عمل کررہی ہے لیکن ایک سو چالیس (اے) کے لیے کچھ نہیں کررہی۔ یہ دلیل دینے والا کتنا بھی بدنیت کیوں نہ ہو، یہ بات ماننی پڑے گی کہ کہہ ٹھیک رہا ہے۔ دستور کی ایک شق کو پکڑ لینے اور دوسری کو نظر انداز کرنے میں کسی کا بھلا نہیں ہوگا۔ دستوری حکومت کا مطلب یہ نہیں کہ وہ صرف الیکشن کے ذریعے وجود میں آئے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ دستور کے تحت بننے والی حکومت دستور کی ہر شق کو ایک جیسی اہمیت دے خوا ہ آرٹیکل چھے ہو، آرٹیکل ایک سو چالیس اے ہو یا آرٹیکل دو سو اکاون ہو۔ اپنی مرضی کی شقوں پر عمل کرنے کی آزادی آمروں کو ہوتی ہے ، جمہوری حکومتوں کو نہیں۔ ایک ہی شق پر عمل درامد کے اصرار سے امیرخانوں کا کام ہی آسان ہوگا۔