تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     08-07-2014

طوفاں سے لڑ رہے ہیں

وزیراعظم کی طرف سے ضرب عضب کے حق میں بیانات تو بہت آ رہے ہیں، لیکن اس کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے 7لاکھ پاکستانیوں کی دیکھ بھال کے لئے‘ حکومت کی طرف سے وہ سرگرمیاں دکھائی نہیں دے رہیں‘ جو نقل مکانی کرنے والے معصوم اور بے گناہ شہریوں کی تکالیف میں کمی کر سکیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان‘ جن کی پارٹی صوبائی حکومت چلا رہی ہے‘ کئی دنوں سے صرف 5 ارب روپیہ مانگ رہے ہیں کہ صوبائی حکومت یہ رقم صوبائی انتظامیہ کے ذریعے‘ ضرورت مندوں میں تقسیم کر سکے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے اس سلسلے میں کچھ سرگرمی دکھائی ہے۔ دیگر دو صوبوں بلوچستان اور سندھ میں‘جوش و خروش دکھائی نہیں دے رہا۔ حکمران مسلم لیگ یوں گوشہ عافیت میں پڑی ہے‘ جیسے ملک میں حالات معمول کے مطابق ہوں۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کی طرف سے ریلیف فنڈ قائم ضرور ہوئے ہیں۔ لیکن حکومتی سطح پر وہ سرگرمیاں دور دور تک دیکھنے میں نہیں آ رہیں‘ جو سیلاب یا زلزلہ زدگان کی مدد کے لئے ہم دیکھتے رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے عطیات جمع کرنے کے لئے بھی چھوٹے بڑے شہروں میں کیمپ نہیں لگائے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے یہ جنگ کسی اور کی ہے۔ بے گھر ہونے والے بے سروسامان لوگ کسی اورملک سے تعلق رکھتے ہیں۔ جس گرم جوشی اور جوش و خروش کے ساتھ‘ حکومت پاکستان نے افغان باشندوں کی پذیرائی کی تھی‘ نہ جانے اپنوں کو اس سلوک کا مستحق کیوں نہیں سمجھا جا رہا؟ حالانکہ ان کے مسائل اور تکالیف کی ذمہ دار ہماری حکومتیں ہیں۔ وہ بے چارے تو اپنے علاقے میں امن اور سکون کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ قبائلی معاشرہ اپنی روایت کے مطابق زندگی سے خوش تھا۔ قبائلی رسوم و رواج اور روایات کے تحت‘ امن و امان کی حالت ‘بندوبستی علاقوں کے مقابلے میں بہتر تھی۔ جرگہ سسٹم کے ذریعے عوام کو تحفظ حاصل تھا۔ انہیں فوری انصاف ملتا تھا۔ عورتوں اور بچوں کو تحفظ دیا جاتاتھا۔ نجی دشمنی کے نتیجے میں قتل اور دشمن کا اغوا‘ غیرمعمولی بات نہیں تھی۔ لیکن جب ایسا ہوتا‘ تو جرگہ سسٹم فوراً حرکت میں آ جاتا اور سزاوجزا کا معاملہ‘ فریقین کی رضامندی سے طے ہو جایا کرتا۔ 
حکومت پاکستان نے‘ دنیا بھر کے غنڈے ‘ پرامن قبائل کے علاقوں میں لا بٹھائے۔ جن کے بارے میں کہا جاتا کہ یہ مجاہدین ہیں۔ اصل حقیقت اس کے برعکس تھی۔ افغان عوام نے اپنے ظالم حکمرانوں کے خلاف انقلاب برپا کر کے‘ جو آزاد حکومت قائم کی تھی‘ امریکیوں نے اس کے خلاف سازشیں شروع کر دیں۔ حفیظ اللہ امین نے عوامی حکومت کے خلاف بغاوت کر کے‘ اقتدار پر قبضہ کر لیا اور سماجی اصلاحات ختم کر کے‘ امریکہ نواز پالیسی پر عمل کرنے لگا۔ ردعمل میں قوم پرستوں نے پھر سے بغاوت کر کے‘ اقتدار پر قبضہ کر لیا ۔ امریکی حاشیہ بردار‘ نئی حکومت کے خلاف پھر سرگرم ہو گئے۔ جس پر ببرک کارمل نے‘ سوویت یونین سے امداد طلب کر لی۔ امریکہ درحقیقت اسی موقعے کے انتظار میں تھا۔ اس نے فوراً ہی اپنے حاشیہ برداروں کی مدد سے اسے اسلام اورکفر کی جنگ قرار دے کر‘ اپنی ساری طاقت‘ سوویت افواج کو شکست دینے کے لئے جمع کرنا شروع کر دی۔ پاکستانی حکومت نے دائود خان کے زمانے میں‘ جن افغان باغیوں کی مدد کی تھی‘ انہیں مجاہدین بنا کر چھاپہ مار جنگ کے لئے تیار کیا گیا اور امریکہ نے عرب دنیا کے جرائم پیشہ افراد‘ جو اپنے اپنے ملکوں کے مفرور تھے‘ سب کو جمع کر کے مجاہدین بنایا اور ہمارے قبائلی علاقوں میں ان کے مراکز قائم کر دیئے۔ ان میں زیادہ تعداد عرب حکومتوں کے باغیوں کی تھی۔ وسطی ایشیا سے ازبکستان کے بھگوڑے بھی جمع کر کے‘ قبائلی علاقوں میں لا بٹھائے گئے۔ ان لوگوں کے پاس ڈالروں کی بہتات تھی اور یہ جدیدترین اسلحہ سے لیس تھے۔یہ افغانستان میں چھاپہ مار کارروائیاں تو کرتے ہی تھے‘ ہمارے قبائلی علاقوں میں انہوں نے اپنا کنٹرول قائم کرنا شروع کر دیا۔ قبائلی عوام قدیم طرز کی روایتی لڑائیاں‘ روایتی ہتھیاروں کے ساتھ لڑنے کے عادی تھے۔ وہ جدید جنگی حربوں‘ ڈالروں اور جدید ترین اسلحہ کے زور پر‘ سادہ لوح قبائلیوں پر غالب آتے گئے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ملک مقامی قبائل کے جو معتبر لوگ تھے‘ وہ پاکستانی حکومتوں اور عوام کے درمیان رابطوں کا کام کرتے تھے۔ نام نہاد مجاہدوں نے انہیں ہلاک کرنا شروع کر دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے‘ قبائل کا پرانا سماجی نظام ختم ہو گیا۔ ان علاقوں میں عوام اور حکومت کے درمیان رابطوں کی درمیانی کڑی ٹوٹی‘ تو حکومت پاکستان کا جو برائے نام عمل دخل تھا‘ وہ بھی باقی نہ رہا اور اس طرح یہ نام نہاد مجاہدین‘ عملی طور پر تمام قبائلی ایجنسیوں میں مقامی آبادیوں پر حکم چلانے لگے۔ ان کی بودوباش‘ ان کا کلچر‘ ان کی روایات اور ان کے طور طریقوں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا اور اپنی دقیانوسیت‘ جہالت اور پسماندہ تہذیبی اقدار کو‘ اسلام کے نام پر مسلط کرنے لگے۔ بے بس عوام‘ ان جنگجوئوں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں تھے۔ جس ملک کے یہ باشندے تھے یعنی پاکستان‘ اس کی حکومت ان مسلح غنڈوں کی سرپرست تھی۔ یہ اجمالی جائزہ پڑھ کر‘ آسانی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اپنے ملک کے قبائلی عوام پر‘ مسلح غیرملکیوں کا تسلط خود ہم نے قائم کرایا۔ ان کے جمے جمائے معاشرے کوہم نے ادھیڑ کے رکھ دیا۔ جو رسم و رواج اور روایات ‘ان کے لئے قانون کا درجہ رکھتی تھیں‘ انہیں طرح طرح کے نسلی اور جغرافیائی تعصبات رکھنے والوں نے روند ڈالا۔ 
یہ نام نہاد مجاہدین‘ افغانستان میں دہشت گردی کرنے جاتے‘تو وہاں ان کا رابطہ ملاعمر کے ساتھیوں سے ہو گیا۔ یہ ان کے ساتھ مل کر کارروائیاں کرنے لگے۔ کچھ گروہ افغانستان کی سرکاری ایجنسیوں کے ایجنٹ بنے اور کچھ القاعدہ کے۔ پاکستانی حکومتوں نے ان تبدیلیوںکو یا تو سمجھا نہیں یا جان بوجھ کر نظرانداز کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ نام نہاد مجاہدین میں سے کچھ لوگوں کو امریکہ نے خریدا۔ کچھ افغان حکومت کے ایجنٹ بنے اور کچھ ملا عمر کے ڈسپلن میں آ گئے۔ حقانی گروپ‘ ملاعمرکا حلیف اور امریکیوں کا دشمن تھا۔ امریکیوں سے ڈالر اور ہتھیار لینے والے طالبان نے ‘ تحریک طالبان پاکستان قائم کر کے‘ پاکستان میں دہشت گردی شروع کر دی۔ یہ پاک امریکہ اختلافات کا نتیجہ تھا۔ پاکستانی حکومتیں‘ دہشت گردی کے خلاف جنگی اخراجات پورے کرنے کے لئے‘ امریکہ سے مدد لے رہی تھیں۔ لیکن وہ‘ امریکہ دشمن دہشت گردوں کو تحفظ اور مالی امداد دیتی رہیں۔ جب امریکی یہ شکایت کرتے کہ آپ ہم سے ڈالر لے کر‘ ہمارے ہی فوجیوں کو ہلاک کرا رہے ہیں‘ تو ہمارے حکمران مکر جاتے۔ امریکی باقاعدہ شواہد فراہم کر کے دکھاتے اور بتایا کرتے کہ حقانی گروپ جس کی سرپرستی پاکستان کر رہا ہے‘ وہ ملا عمر کے ساتھ مل کر‘ امریکیوں پر حملے کرتا ہے۔ یہی بات پاک امریکہ تعلقات میں کشیدگی کی بنیاد بنی۔ امریکہ نے ان دہشت گردوں کے خلاف ڈرون حملے شروع کر دیئے‘ جو پاکستان سے افغانستان میں جا کر دہشت گردی کرتے تھے۔ امریکہ ہر گروپ کے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا تقاضا کر رہا تھا۔ جبکہ پاکستانی حکمران‘ امریکہ دشمن دہشت گردوں کی مدد کر کے‘ انہیں تحفظ دیتے اور تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرتے رہے۔ المیہ یہ تھا کہ پاکستان کے دشمن اور پاکستان کے پالے ہوئے دہشت گرد‘ ایک ہی جگہ مل جل کر رہتے تھے۔ جس کی وجہ سے پاکستان کے لئے‘ اپنے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنا مشکل ہو گیا اور جب مجبوراً کارروائیاں شروع کرنا پڑیں‘ توعلاقے کی پوری آبادی کو نقل مکانی پر مجبور کیا گیا۔ شمالی وزیرستان سے پہلے ‘ہم قریباً تمام ایجنسیوں میںیہی مشق دہرا چکے ہیں۔ ان ایجنسیوں کے بے گھر ہونے والے لاکھوں قبائل‘ آج بھی کیمپوں میں بے یارومددگار پڑے ہیں۔ عام اندازے کے مطابق ان کی تعداد بھی آٹھ نو لاکھ کے قریب ہے۔ شمالی وزیرستان میں آپریشن کے متاثرین کی تعداد‘ 7لاکھ کے قریب ہو چکی ہے۔ قبائلی علاقوں کے بے گناہ عوام درحقیقت پاکستانی حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔پہلے انہوں نے دس پندرہ سال غیر ملکی دہشت گردوں کی غلامی میں گزارے اور جب پاکستان نے ان کے خلاف فوجی کارروائی کی‘ تو ان علاقوں کے لاکھوں قبائلی بے گھر ہونے پر مجبور ہوئے۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ ان کا گناہ کیا ہے؟ ان سے غلطی کیا ہوئی؟ ہماری کسی حکومت نے ان کی دلجوئی کی کوشش نہیں کی۔ کسی حکومت نے اپنے ان جرائم کی تلافی کرنے پر توجہ نہ دی‘ جس کی سزا قبائلی عوام کو برسوں بھگتنا پڑی اور اب شمالی وزیرستان میں کارروائی ہو رہی ہے‘ تو انہیں ایک بار پھر بے گھر ہونا پڑ گیا۔ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ پہلے جن ایجنسیوں میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی ہوئی‘ وہاں سے بے گھر ہونے والوں میں‘ ایک بڑی تعداد آج بھی بے یارومددگار ہے۔ اسی لئے شمالی وزیرستان کے بہت سے باشندے ‘ پاکستان آنے کی بجائے‘ افغانستان کی طرف چلے گئے۔ وہاں حکومت‘ ملاعمر کے طالبان اور امریکی‘ جو باہم برسرپیکار ہیں‘ سارے مل کر شمالی وزیرستان کے بے گھروں کی میزبانی کر رہے ہیں اور یہاں ایک عمران خان‘ ان کی امداد کرنے کے لئے شور مچا رہا ہے۔ باقی سب زبانی کلامی ہمدردی تک محدود ہیں۔ یہ دیکھ کر مجھے پختون صحافی سلیم صافی کی بات یاد آ رہی ہے۔ انہوں نے صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ چند سو خودکش بمباروں کو مارنے کی کوشش میں‘ ہم 7لاکھ بے گھروں کو خودکش بمبار نہ بنا دیں۔آج جن لوگوں کو محبت کے دوبول ‘ روٹی کپڑے اور رہائش کی سہولتیں پیش کر کے‘ ہم محبت کے رشتوں میں باندھ سکتے ہیں‘ ہو سکتا ہے کل ہم اپنا خون بہا کر بھی پیار‘ محبت اور بھائی چارے کے رشتے بحال نہ کر سکیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved