تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     08-07-2014

کتبے

سید مشکور حسین یاد
جب انہیں معلوم ہوا کہ ڈاکٹر انورسدیدنے ڈاکٹر وزیر آغاکو انشائیے کا بانی قرار دیا ہے تو انتہائی مایوسی میں مینار پاکستان پر چڑھ گئے تاکہ وہاں سے چھلانگ لگاکر خودکشی کرسکیں لیکن پیرانہ سالی کی وجہ سے ابھی آدھی سیڑھیاں ہی چڑھے تھے کہ تیورا کر گرے اور جان جاں آفریں کے سپرد کردی۔ وزیراعظم کے استاد تھے اس لیے حکومت نے سوگ میں آدھے دن کی چھٹی کا اعلان کیا۔ نماز جنازہ علامہ طالب رضوی نے پڑھائی اور مرحوم پر لکھا ہوا مرثیہ پڑھ کر اہل جنازہ کو سنایا جس پر متعدد حضرات بے ہوش ہوگئے۔
پھول تو دو دن بہار جاں فزا دکھلا گئے 
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے
سید انتظار حسین 
ریڈنگز میں مسعود اشعر ، محمد سلیم الرحمن اور ریاض احمد چودھری کے ہمراہ بیٹھے کسی ادبی مسئلہ پر گرما گرم بحث ہورہی تھی کہ اس دوران ریاض احمد چودھری نے کوئی غلط محاورہ بول دیا جس پر اسی جگہ اتوا نٹی کھٹوانٹی لے کر پڑگئے ، حتیٰ کہ اس صدمے سے جانبر نہ ہوسکے اور اسی عالم میں اس دارفانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کیا۔ نماز جنازہ آصف فرخی نے کراچی سے آکر پڑھائی۔ سنگ میل پبلی کیشنز والے افضال احمد نے مرحوم کے لیے ایک شایان شان یادگار تعمیر کروانے کا اعلان کیا۔ اس سانحہ پر ادبی حلقوں نے سخت غم و غصہ کا اظہار کیا۔ 
سنے جاتے نہ تھے تم سے مرے دن رات کے شکوے
کفن سرکائو میری بے زبانی دیکھتے جائو 
عطاالحق قاسمی
اپنے ہی ایک کالم پرہنستے ہنستے دوہرے ہوگئے اور پھر سیدھے ہونے کا موقع ہی نہ ملا اور اسی عالم میں فرشتہ اجل نے آکر کام تمام کردیا، اگرچہ موصوف نے کافی مزاحمت کی اور فرشتہ مذکور کو ایک آدھ لات بھی رسید کی لیکن بے سود ، نماز جنازہ وزیراعظم نے خود پڑھائی اور مرحوم کے چیدہ چیدہ اشعار ترنم کے ساتھ اہل جنازہ کو سنائے جن میں سے اکثر کی گھگی بندھ گئی جسے بڑی مشکل سے کھولا گیا۔ امجد اسلام امجد نے دوران جنازہ ایک دلدوز چیخ ماری اور لڑکھڑا کر گرتے ہی روح قفسِ عنصری سے پروازکرگئی۔ آخر دونوں دوستوں کو ایک ہی قبر میں دفن کیاگیاتاکہ دونوں کا دل لگا رہے 
مر گیا پھوڑ کے سر غالب وحشی ہے ہے
بیٹھنا اس کا وہ آکر تری دیوار کے پاس
محمد اظہار الحق
سخت سردی کا موسم تھا۔ اونٹ پر سوار ہوکر گھر سے بغداد کے سفر پر روانہ ہوگئے۔ راستے میں ایک صحرائے لق ودق میں رات پڑی تو خورجین میں سے سفری خیمہ نکال کر گاڑا ، اونٹ کو باہر کھڑا کیا اور خود خیمے میں محواستراحت ہوئے ہی تھے کہ اونٹ نے باہر سے اندر آنے کی درخواست کی۔ مسترد ہونے پر صرف منہ خیمہ کے اندر کرنے کی اجازت چاہی جس کے منظور ہونے کے بعد ایسا ہوا کہ رفتہ رفتہ اونٹ خیمے کے اندرتھا اور موصوف باہر ، حتیٰ کہ سردی میں جم کر برف ہوگئے جبکہ برف ہونے سے پہلے ہی اللہ کو پیارے ہوچکے تھے۔ حتیٰ کہ اونٹ ہی منہ سے انہیں اٹھا کر واپس لایا۔ نماز جنازہ خالد اقبال یاسر نے پڑھائی۔
گلیوں میں مری نعش کو کھینچے پھرو کہ میں 
جاں دادۂ ہوائے سرِراہگزار تھا
ڈاکٹر صغریٰ صدف
قد کافی لمبا تھا اس لیے ہمیشہ سر نیہوڑا کر چلتی تھیں۔ ایک دن پلاک میں ایک تقریب کی کامیابی پر فخر سے سر اٹھا کر چل رہی تھیں کہ کھمبے کے تاروں میں الجھ کر رہ گئیں اور ریسکیو والوں کے آنے سے پہلے ہی اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ جنازہ فخر زمان نے پڑھا یا،جس دوران اپنی پنجابی کانگریس کے اغراض و مقاصد پر کھل کر روشنی ڈالی۔ سلیم کاشر نے اپنا لکھا ہوا نوحہ باآواز بلند پیش کیا اور فرط غم سے نوحہ ختم ہونے سے پہلے ہی زمین بوس ہوگئے اور داعی اجل کو لبیک کہا۔ سرکاری طور پر تین دن کے سوگ کا اعلان کیاگیا۔ مقصود ثاقب نے اپنے رسالہ پنچم کا صغریٰ صدف نمبر نکالنے کا اعلان کیا۔
موت سے کس کو رستگاری ہے 
آج تم کل ہماری باری ہے 
ظفر اقبال
اچھے بھلے سوئے تھے کہ باہر کہیں بم وغیرہ پھٹنے کی دھمک ہوئی اور کارنس پر سجائی ہوئی کلیات ''اب تک ‘‘ کی چاروں جلدیں سر پر آگریں اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موقع پر ہی آنجہانی ہوگئے۔ نماز جنازہ شمس الرحمن فاروقی نے بھارت سے آکر پڑھائی اور ایک دلدوز لیکچر دیا، خوش قسمتی سے جو کسی کی سمجھ میں نہ آیا اور اس طرح کوئی مزید اندوہناک واقعہ نہ ہوسکا۔ چونکہ قبل ازیں شعر گوئی سے تائب ہو چکے تھے اس لیے عذاب قبر میں قدرے نرمی کی توقع کا اظہار کیاگیا۔ نذیر ناجی مرحوم کی شاعری پر روشنی ڈال ہی رہے تھے کہ بجلی چلی گئی اور زیادہ تر اندھیرا ہی ڈال سکے۔ حق مغفرت کرے عجب زباں دراز مرد تھا۔
ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا
نہ کہیں جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
خوشخبری
اپنے مردے نہلانے کے لیے ہماری خدمات حاصل کریں۔ نیز ہمارے ہاں سے ریڈی میڈ کفن بازار سے بارعایت حاصل کرلیں۔ ہر جمعرات کو قبر پر پھولوں کی پتیاں بکھرانے کا بھی تسلی بخش انتظام موجود ہے۔ بس آپ صرف مرجائیں ، باقی سارا کام ہمارے ذمے۔ ہر ہفتہ قبر پر دیا جلانے اور بجوئوں سمیت انسانی اعضا چوروں سے مکمل تحفظ کی ضمانت دی جاتی ہے۔ بارش وغیرہ سے قبر بیٹھ جانے پر دوبارہ کھڑی کردی جاتی ہے۔ نیز سنگ مرمر پر خوشخط کتبے تیار کروانے کے لیے بھی ہمیں یاد فرمائیں۔ قبرپر گاہے گاہے فاتحہ پڑھنے کا بھی انتظام موجود ہے ۔ 
(غسّال برادرز، لاہور)
آج کا مقطع
خریدنا نہیں، میں نے بیچنا ہے، ظفرؔ
رکا ہوا ہوں جو بازار سے گزرتے ہوئے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved