تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     08-07-2014

ہائے اس زودپشیماں کا پشیماں ہونا!

امریکی ریاست ٹیکساس کے پرسکون اور خوب صورت علاقے میں واقع اپنی رہائش گاہ پر ایک 66سالہ شخص بے سکون اور بے چین رہتا ہے۔ وہ اکثر اپنے ماضی کے بارے میں سوچتا ہے۔ ان فیصلوں پر غور کرتا ہے جو ہزاروں لوگوں کے لیے موت کا کنواں ثابت ہوئے ۔
یہ66سالہ شخص امریکہ کا سابق صدر جارج ڈبلیو بش ہے۔ 11ستمبر2001ء کو ہونے والا نائن الیون ، چھوٹے بش ہی کے دور حکمرانی میں ہوا۔ امریکہ کے لیے یہ ایک سانحہ تھا یا نہیں لیکن پوری دنیا اس کے بعد سانحوں سے آج تک نہیں سنبھل سکی۔نائن الیون کے بعد افغانستان پر حملہ ، عراق پر چڑھائی، ایک جنگ وجدل اور قتل و غارت کی نہ ختم ہونے والی داستان کا آغاز تھا۔ افغانستان اور عراق پر امریکی جارحیت بش کی ایک ایسی غلطی تھی جس کے بطن سے شدت پسندوں نے جنم لیا، عراق میں فرقہ واریت کی خونی جنگ کا آغاز ہوا اور 2014ء میں جب عراق میں امریکی جارحیت کو 12سال گزر گئے ہیں تو جارج ڈبلیو بش یہ اعتراف گناہ کرتے نظر آئے کہ عراق پر حملہ کرنا بہت بڑی غلطی تھی۔ اس کی قیمت آج امریکہ بھی چکا رہا ہے۔
اس جنگ میں امریکہ کے چالیس ہزار فوجی مارے گئے اور عراقیوں کی اموات کا تو اندازہ نہیں لگا سکتے۔ اس لیے کہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد بھی آج تک کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب بم دھماکوں میں معصوم عراقی مارے نہ جاتے ہوں۔ شدت پسندوں اور دہشت گردوں کا ایک نیا روپ آئی ایس آئی ایس کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ افغانستان اور عراق پر امریکی جارحیت کا آغاز کرنا جارج ڈبلیو بش کے ایسے فیصلے ہیں جنہوں نے دنیا کے امن کو تباہ کیا ہے۔خودکش بمبار پیدا کیے ہیں، بم دھماکوں کو فروغ دے کر روزمرہ کا واقعہ بنادیا ہے اور آج پاکستان بھی اسی کے اثرات جھیل رہا ہے۔ آدھی دنیا کو ایک جلتے ہوئے جہنم میں بدل کر سابق امریکی صدر شرمندہ ہیں اور اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں'' مجھے امید ہے کہ امریکی عوام مجھے معاف کردیں گے۔ میں نے جو کچھ کیا وہ اچھے ارادے کے طور پر کیا۔ میں خدا سے بھی معافی مانگتا ہوں۔‘‘
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا!
عراق کی جنگ کے حوالے سے جان کیری بھی یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ عراق وار ایک غلطی تھی۔ کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی پر ناقص اور غلط رپورٹس تیار ہوئیں اور ہم نے اس پر بھروسہ کیا۔
حیرت ہے ایک ملک کو جو امن میں تھا، جہاں صدام حسین کی زیر حکمرانی شیعہ سنی عراقی امن اور اتفاق سے رہ رہے تھے، وہاں امریکی مداخلت نے حالات بدتر کردیئے ہیں اور آج عراقی صدام حسین کے دور کو یاد کررہے ہیں۔ اس وقت تو پورا عراق ایک جلتا ہوا جہنم بن چکا ہے اور آج امریکی جارحیت کے 12سال مکمل ہونے پر بی بی سی سمیت دوسرے کئی مستند اداروں نے یہ سروے کروایا کہ پہلے کا عراق بہتر تھا یا صدام حسین کے بعد کا۔ پچاس فیصد عراقیوں نے کہا کہ صدام حسین کے وقت کا عراق زیادہ پُرامن تھا۔
اپنے فیصلوں سے دنیا کو ایک جلتے ہوئے جہنم میں تبدیل کرنے والے سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش جن دنوں اپنی یادوں پر مبنی کتاب Decision Pointsلکھ رہے تھے ، انہی دنوں اوپراونفری نے جارج ڈبلیو بش کا ایک انٹرویو کیا۔ اوپراونفری سیاہ فام امریکی ہیں اور دنیا میں گلیمر، خوبصورتی اور Philanthropy کے حوالوں سے خوب شہرت رکھتی ہیں۔ اوپراونفری کے بے تکلف سوالات کے سامنے سابق امریکی حکمران
وہ باتیں بھی بیان کرجاتے ہیں جو شاید انہوں نے اپنی سوانح حیات میں بھی نہیں کیں۔ مثلاً بش نے اعتراف کیا کہ ان کے غلط فیصلوں کے اثرات آج بھی ان کا تعاقب کرتے ہیں۔ وہ اپنے دل پر بوجھ محسوس کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ امریکی عوام ان سے نفرت کرتے ہیں اور ان کے لیے غلط زبان استعمال کرتے ہیں جو میرے خاندان خصوصاً میری بیوی اور میری بیٹیوں کی دل آزاری کا باعث ہے۔ بالکل ایسے ہی جب میرے والد بش کو ان کے فیصلوں پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا تو مجھے ایک بیٹے کی حیثیت سے دکھ پہنچتا تھا۔ جارج ڈبلیو بش نے کہا کہ میں نے اپنی کتاب کا نام Decision Pointsاس لیے رکھا ہے کہ اس کے ذریعے میں امریکی عوام کو بتا سکوں کہ میں نے مشکل فیصلے کس لیے کیے۔ان کے پیش نظر اپنے لوگوں کا تحفظ اور دنیا میں جمہوریت اور امن قائم کرنے کے مقاصد موجود تھے۔ یہ ہیں ایک سپر پاور کی مستیاں۔ کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹھہری۔ بش اب جس سہولت سے عراق پر امریکی چڑھائی کو اپنی غلطی تسلیم کررہے ہیں وہ محض ایک غلطی ہے یا ایک سنگین نوعیت کا جنگی جرم۔ امریکہ بہادر کی ایسی '' چھوٹی موٹی‘‘ غلطیاں دنیا بھر میں کہیں ویتنام کی صورت موجود ہیں، کہیں جلتے ہوئے عراق کی صورت میں۔
آج امریکی تھنک ٹینکس سرجوڑ کریہ اندازے تو لگارہے ہیں کہ عراق وار پر امریکہ نے 1.7ٹریلین ڈالر خرچ کردیے۔ اگر یہ پیسہ جنگ پر خرچ نہ ہوتا تو امریکہ میں کتنے نئے ہسپتال، کتنے نئے سکول اور کتنے برج ، پل اور سڑکیں بنائی جاسکتی تھیں۔ امریکی جنگی ایڈونچر نے امن کا قتل عام کیا ہے۔ آج اگر سابق امریکی صدر اعتراف کرتے ہیں کہ امریکی جارحیت ایک سنگین غلطی تھی تو کیا اسے ان کا اعتراف جرم نہیں سمجھنا چاہیے۔ اگر انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس اور انٹرنیشنل کریمینل کورٹ کے نام کے ادارے وجود رکھتے ہیں تو پھر سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے اعتراف جرم پر ایکشن لیں ۔ کیونکہ وہ نہ صرف اپنی سوانح حیات میں بلکہ پریس کے سامنے بھی اپنے وار کرائم کا اعتراف کرچکے ہیں لیکن شاید یہ ہماری بھول ہی ہے کہ ایسا ہوگا کیونکہ انصاف کی فراہمی کے یہ نام نہاد ادارے دست قاتل کے زیر سایہ ہی تو سانس لیتے ہیں۔ اسی لیے تاریخ خود کو دہراتی جارہی ہے۔ ویتنام سے لے کر افغانستان تک امریکہ کا جنگی ایڈونچر ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ دست قاتل لہو میں تر ہے۔ ہاں جارج ڈبلیو بش کی طرح کل کوئی اور سابق امریکی صدر واشنگٹن ڈی سی سے دور کسی پرسکون مقام پر ایکڑوں پر پھیلے ہوئے اپنے شاندارگھر میں اپنی سوانح حیات لکھتے ہوئے ایسی ہی کچھ اور خون آشام غلطیوں کا اعتراف کرکے خود کو ایک مہذب امریکی اور بہتر انسان ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہوگا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved