آج دنیا بحران و اضطراب کی زد میں ہے۔ جنوبی ایشیا میں مسائل عروج پر ہیں جو بین الریاست تصادمات سے حل طلب تنازعات‘ انسانی المیوں‘ تشدد‘ انتہا پسندی اور دہشت گردی تک پھیلے ہوئے ہیں۔ کُھلی جوہری پیشرفت کے باوصف جنوبی ایشیا کے مسائل اس خطے تک محدود نہیں بلکہ یہ پریشان کُن عالمی جہتوں کے حامل ہیں‘ جن کے باعث یہاں کے امن اور سکیورٹی کے حوالے سے بڑی طاقتوں کو بھی خدشات لاحق ہیں۔
اگر اس خطے کی متلاطم تاریخ سے سبق حاصل کیا جاتا تو دنیا اس کے تزویری توازن کو خراب کرنے کے بجائے اسے فروغ دیتی۔ ہمیں جنوبی ایشیا میں ایٹمی سکیورٹی کا ایک مستحکم نظام درکار ہے۔ ایسے اقدامات اس خطے کے عوام کے مفاد میں نہیں ہوں گے جو ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح دو ہمسایہ ملکوں کے اِن ہتھیاروںکے استعمال کے امکانات کو کم کرنے میں توکردار ادا کریں مگر اس کے ساتھ ساتھ ان کے مابین ہتھیاروں کی غیر ضروری دوڑ کو بھی ہوا دیں۔ بھارت کی سہ طرفہ نیوکلیئر ڈاکٹرائن‘ اس کی جارحانہ کولڈ سٹارٹ سٹریٹیجی اور اینٹی بیلسٹک میزائل سسٹم اس خطے کے استحکام کے لیے زہر قاتل ہیں۔
اب جبکہ نریندر مودی کی سربراہی میں بھارت‘ دنیا کی عسکری صنعتوں کے لیے اپنے دروازے کھول رہا ہے‘ خطے کو تباہ کن ہتھیاروں کی دوڑ کا خطرہ درپیش ہے، جس کے عالمی امن و سلامتی پر دیرپا منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ جوہری طاقت کا حامل یہ خطہ مزید مہم جوئی کا متحمل نہیں ہو سکتا بلکہ ایک محدود روایتی جنگ کا بھی نہیں‘ جو بھارت اپنی کج رو ''کولڈ سٹارٹ‘‘ ڈاکٹرائن کے تحت ایک تیز رفتار اور بھرپور حملہ کر کے پاکستان پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔ اس صورت میں روایتی جنگ کے حوالے سے نسبتاً ایک کمزور ملک کا ردعمل کیا ہو سکتا ہے؟ اس کا واحد قابل اعتماد ردعمل جوابی طاقت کا استعمال ہو گا اور بھارت ـ پاکستان کی صورت میں چھوٹے ایٹمی ہتھیار (Tactical warheads) بروئے کار آئیں گے۔
چونکہ نیوکلیئر اور میزائل سازی کے میدان میں پاکستان کو بھارت پر ہر اعتبار سے برتری حاصل رہی ہے‘ اس لیے ہمارے خطے میں جوہری اور روایتی ہتھیاروں میں استحکام لانے کے لیے دونوں طرف سے تحمل اور احساسِ ذمہ داری کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے بھارت کے ساتھ باہم مربوط تین عناصر پر توجہ مرکوز کرنا لازم ہے: تنازعات کا تصفیہ‘ نیوکلیئر اور میزائل پروگرام کی محدودیت اور روایتی ہتھیاروں میں توازن۔ لیکن بھارت اس خطے کے علاوہ دوسری تشویشوںکی رٹ لگا کر ان تجاویزکی مخالفت کرتا ہے‘ حالانکہ اس کی فوجی استعداد ہمیشہ پاکستان کے حوالے سے ہی متعین ہوتی رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ بھارت کی طرف سے اپنی فوجی قوت میں اضافے کے پیش نظر‘ جس میں خطرناک ہتھیاروں کا حصول‘ جارحانہ نظریات اور ایٹمی تعاون کے ایسے انتظامات‘ جن کے تحت جوہری مواد کو فوجی استعمال میں لایا جا سکتا ہو‘ میں مسلسل اضافے کے توڑ کے لیے اُتنے ہی خطرناک جوابی اقدامات ناگزیر ہو جاتے ہیں۔ بزعمِ خود ترکِ اسلحہ کے علمبرداروں کی جانب سے اختیار کیے گئے دوہرے معیارات کے سبب اس خطے میں جوہری اور فوجی عدم مساوات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اسی سے امریکہ بھارت منحوس ایٹمی سمجھوتے کے مضمرات کھل کر سامنے آتے ہیں۔ اس سمجھوتے کے تحت بھارت کو نیوکلیئر سپلائر گروپ (این ایس جی) نے یہ اختیار دیا ہے کہ وہ سب پر عائد مساوی شرائط کے برخلاف نیوکلیئر ٹیکنالوجی حاصل کر سکتا ہے؛ چنانچہ بھارت اپنے آٹھ نیوکلیئر ری ایکٹرز اور بریڈر پروگرام کو بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کی نگرانی سے باہر رکھ کر ایٹمی ہتھیار بنانے کے قابل پلوٹونیم کی مطلوبہ مقدار تیار کر سکتا ہے۔ جب تک امریکہ‘ بھارت کے ساتھ اپنے اس غیر متوازن معاہدے پر نظرثانی نہیں کرتا اور اسے پاکستان کے موافق نہیں بناتا، بھارت امریکہ گٹھ جوڑ خطے کے امن و استحکام کیلئے خطرہ بنا رہے گا۔
نیوکلیئر سپلائر گروپ کا قیام 1974ء میں بھارت کی طرف سے پہلے ایٹمی تجربے کے بعد عمل میں آیا تھا۔مقصد یہ تھا کہ جوہری مواد کی سویلین تجارت فوجی مقاصد میں تبدیل نہ کی جا سکے۔ خود بھارت نے اپنے ایٹمی ہتھیاروں کا خفیہ پروگرام اُن آلات اور مواد سے مکمل کیا جو اُس نے بظاہر پُرامن مقاصد کے لیے کینیڈا اور امریکہ سے حاصل کیے تھے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اب وہی بھارت این ایس جی کی مکمل رکنیت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کو اپنی واضح وجوہ کی بنا پر بھارت کے ساتھ این ایس جی کے ترجیحی سلوک پر شدید تشویش لاحق ہے کیونکہ اس طرح وہ (بھارت) ایٹمی ہتھیاروں کا پھیلائو روکنے کے عالمی معاہدے کے برخلاف نیوکلیئر ٹیکنالوجی حاصل کر سکے گا۔
این ایس جی کی رکنیت کے لیے بھارت کی درخواست پر گزشتہ مہینے بیونس آئرس میں منعقدہ اجلاس میں غور کیا گیا۔ بھارت کو سپلائر گروپ میں پہلے ہی پارٹنرشپ کا درجہ حاصل ہو چکا ہے‘ اگر اُسے اس کی رکنیت بھی مل گئی تو وہ اپنے آپ کو ایک باقاعدہ ایٹمی طاقت کے حامل ملک کی حیثیت سے منوانے کی مہم تیز کر دے گا جس سے جوہری مواد کی برآمد کے سلسلے میں اس کی رائے کو اہمیت حاصل ہو جائے گی۔ این ایس جی کا رکن ہونے کی وجہ سے بھارت کو اس کے فیصلوں کو ویٹو کرنے کا حق بھی مل جائے گا جس میں پاکستان کے بارے میں اس کے مستقبل کے فیصلے شامل ہیں۔ پاکستان کو این ایس جی کی رکنیت دینے کے بارے میں ابھی غور نہیں کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک خطرناک منظرنامہ ہے جس سے امریکہ کی طرف سے پیش کردہ گلوبل نیوکلیئر سکیورٹی کا عمل کمزور ہو گا۔
اسی منحوس صورت حال کے پس منظر میں نیویارک ٹائمز نے گزشتہ اتوار کے روز اپنے اداریے میں بھارت کی این ایس جی میں رکنیت کے لیے خصوصی رعایت کو موضوع بنایا۔ اخبار نے بھارت کی طرف سے باقاعدہ ایٹمی دائرے میں شمولیت کے لیے خصوصی استثنا کے حصول کی طویل جدوجہد کا ذکر کرتے ہوئے این ایس جی پر زور دیا کہ وہ اس وقت تک اسے رکنیت نہ دے جب تک یہ دنیا کے سب سے زیادہ تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا پھیلائو روکنے میں نمایاں کردار ادا کرنے پر رضامند نہ ہو جائے۔ اس کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ اس خطے میں جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی خطرناک دوڑ ختم کرانے کے لیے پاکستان اور چین کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں۔ بلاشبہ یہ ایک اچھی تجویز ہے۔
نیویارک ٹائمز نے این ایس جی میں پاکستان کی طرف سے مساوی معیار پر مبنی مؤقف کی تائید کی ہے۔ یہ ایک طرح سے دنیا کی بڑی طاقتوں خصوصاً امریکہ کو بروقت تنبیہ ہے کہ وہ بھارت کو خصوصی استثنا دے کر خطے کے امن و استحکام کو جو نقصان پہنچانے والے ہیں وہ اس کی گہرائی کا ادراک کریں۔ دوسری جانب بھارت اس صورت حال سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور ایک دفاعی تحقیق کے ادارے آئی ایچ ایس جینز (IHS Jane's) کے مطابق وہ یورینیم کو افزودہ کرنے والے پلانٹ میں توسیع کر رہا ہے جس سے مزید ایٹم بم تیار ہو سکیں گے ۔ نیویارک ٹائمز نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ پاکستان کو اس پیشرفت کی وجہ سے بہت زیادہ تشویش لاحق ہو گی۔
اس پس منظر میں لازم ہے کہ اس شورش زدہ خطے میں ایٹمی اور تزویری استحکام کے معاملات کو سکیورٹی کے ناقابلِ تقسیم اصول کو مدنظر رکھ کر طے کیا جائے۔ اس ضمن میں دو جوہری ممالک کے مابین مساوات اور بلاامتیاز سلوک اختیار کرنے سے دیرپا امن قائم ہو سکتا ہے۔ دنیا کے بڑے دارالحکومتوں‘ خاص طور پر واشنگٹن کو چاہیے تھا کہ وہ اس خطے میں سکیورٹی اور انصاف کو فروغ دینے کے لیے بہت پہلے سے توجہ دینا شروع کرتے‘ انہیں بھارت اور پاکستان کے مابین جوہری مساوات برقرار رکھنے کے لیے امتیازی پالیسیوں سے بھی گریز کرنا چاہیے تھا۔
اس معاملے کا براہ راست تعلق بھارت کے اپنے دو قریب ترین ہمسایہ ملکوں کے ساتھ عرصہ دراز سے تصادم آمیز تعلقات ہیں۔ ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان دونوں جامع مذاکرات کے حصے کے طور پر اعتماد سازی کے کئی جوہری اور روایتی اقدامات پر اتفاق کر چکے ہیں۔ عالمی طاقتوں کو چاہیے کہ وہ بھی خطے میں جوہری امتیازکو وسیع ہونے سے روکنے کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں اور جوہری مساوات کے لیے سب کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھیں۔
اگرچہ نریندر مودی کی سربراہی میں بھارت ان طاقتوں کو دفاع اور توانائی کے میدان میں نئے معاہدوں کی پیشکش کرنے والا ہے‘ لیکن انہیں بھارت کو این ایس جی کی رکنیت اس وقت تک نہیں دینی چاہیے جب تک وہ ایٹمی اسلحے کا پھیلائو روکنے کے سلسلے میں بنیادی شرائط پوری نہیں کر لیتا اور خطے میں اپنے حریفوں کے ساتھ مذاکرات کا آغاز نہیں کرتا۔ این ایس جی کو چاہیے کہ وہ ایک طرف جھکائو کی روش تبدیل کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھے کیونکہ اس کا امتیازی برتائو خطے میں امن و استحکام کے لیے مفید نہیں ہو گا۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)