تحریر : ڈاکٹر عائشہ صدیقہ تاریخ اشاعت     10-07-2014

عوامی رائے کی حقیقی جانچ

چند دن پہلے پاکستانی اخبارات نے Pew کی طرف سے 2013ء اور2014ء میں لی گئی عوامی رائے کے نتائج شائع کیے۔ ان نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد ملک میں پُرتشدد انتہا پسندی کی وجہ سے پریشان ہے۔ اس امریکی سروے کی رپورٹس کے مطابق تقریباً ساٹھ فیصد پاکستانیوں نے انتہا پسندی کے تصور کی حمایت نہیں کی اور تقریباً انسٹھ فیصد پاکستانی طالبان کو ناپسند کرتے ہیں۔ اس طرح Pew سروے کے مطابق انتہا پسندوںکے خلاف پاک فوج کے آپریشن کو عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے‘ لوگ بڑھتے ہوئے تشدد ، انتہا پسندی اور دہشت گردی کی وجہ سے خائف تھے ، اس لیے ان کے خوف کو رفع کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ کیے جانے کی ضرورت تھی۔ 
کسی غیر ملکی تنظیم کی طرف سے اعدادو شمار اکٹھے کرنے کی بنیاد پر اس طرح تحقیق کرنے کے عمل میںاس تنظیم کاتعصب بھی شامل ہوسکتا ہے؛ تاہم اس کا دارومدار اس بات پر بھی ہے کہ ان کی رسائی کس قسم کے افراد کے گروہ تک تھی اور ان سے کیا سوالات پوچھے گئے؟ بہرحال Pew سروے کے نتائج کوملحوظ ِ خاطر رکھتے ہوئے کیا یہ اندازہ لگانا درست ہوگا کہ عوام کی اکثریت، جنھوںنے انتہا پسندی کو اپنے لیے خطرہ جانا، ترقی پسندسوچ رکھنے والے وہ افراد ہیں جو ملک میں امن و استحکام کے خواہاں ہیں؟ اس سروے میں یقینا ان افراد کے نظریاتی افکار کی پیمائش بہت گہرائی تک نہیں کی گئی ہوگی۔ بہت سے لوگ ، جو ایسے موضوعات پر رائے شماری میں حصہ لیتے ہیں، پرتشدد انتہا پسندی ان کی سوچ اور رویے سے ظاہر تو نہیں ہوتی لیکن اس کی جڑیں ان کی بنیادی فطرت میں گڑی ہوتی ہیں ۔ درحقیقت ہم سے بہت سے افراد سوچنے میں یہ غلطی کرجاتے ہیں کہ تشدد اور دہشت گردی ہمارے سماجی رویوں میں شامل نہیں؛ تاہم اگر غیر جانبدارہوکر اپنی سوچ اور رویوں کا ناقدانہ جائزہ لیں تو پتہ چلے گا ان میں تشدد اور انتہا پسندی کے عناصر شامل ہیں۔ کئی برسوں سے انتہا پسندی کے سوتوں سے پھوٹنے والے خیالات کی ترویج نے لوگوں کی مخصوص ذہنیت کو پروان چڑھایا ۔ ہماری سماجی سوچ، ہمارے عقائد اوردیگر قومیتوں اور اقلیتوں کے بارے میں ہمارے رویے سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ ہمارا معاشرہ مجموعی طور پر انتہا پسندی کی حمایت کرتا ہے۔ 
بعض قوانین ہماری ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ ایسا شاید ہی کوئی دن گزرتا ہو جب یہ خبر سننے کو نہ ملے کہ ملک کے کسی نہ کسی حصے میں کسی کو کوئی الزام لگا کر ہلاک نہ کردیا گیا ہو۔ وہ لوگ جو انتہا پسندی پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں، اُنہیں بھی مشتعل ہجوم کی طرف سے تشدد کا خطرہ موجود رہتا ہے۔ اس ضمن میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ توہین کے کیسز میں فیصلہ کرنے کا اختیار ہجوم اپنے ہاتھ میںلے لیتا ہے۔ اگر ملزم کی قسمت اچھی ہو تو پولیس اُسے کسی طور حراست میں لے کر جیل میں بند کردیتی ہے، ورنہ اس کی فوری موت یقینی ہے۔ 
فرقہ وارانہ منافرت اور مذہبی عصبیت کسی اور قوم کی طرف سے ہمارے ہاں نہیں پھیلائی گئی بلکہ یہ ہمارے عقائد اور انتہا پسندانہ نظریات کا ثمر ہے۔ اگر آپ کسی سے بھی بات کرنا شروع کردیں تو اندازہ ہوگا کہ ہمارے ہاں انتہا پسندی بڑی حد تک کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ہم یہ سوچتے ہیں، یا یوں کہہ لیں کہ یہ سوچ ہمارے ذہن میں راسخ کردی جاتی ہے ، کہ ہمارے افکار اور رویوں کا معاشرے کی گراوٹ سے کوئی تعلق نہیں ۔ مثال کے طور پر انتہا پسندی کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا تعلق غریب لوگوں کی آبادیوںسے ہی ہوتا ہے۔ بے شک غربت اور جہالت انتہا پسندی کی وجہ بنتے ہیں لیکن ایسا ہونا ضروری نہیں۔ بہت سے د ولت مند اور تعلیم یافتہ طبقوں میں بھی اس کے جراثیم پائے جاتے ہیں۔ 
پاکستانی معاشرے میںبتدریج انتہا پسندانہ ذہنیت کے بیج بوئے گئے۔ اس کا ایک اظہار یہ ہونے لگا کہ ہم نے افراد میں ان کے نظریات کی بنیاد پر امتیاز کرنا شروع کردیا۔ اس کے بعد تعصبات کے گرد فرضی حکایات کی ملمع کاری کی گئی یہاں تک کہ 
امتیاز کی لکیر بہت گہری اور واضح ہوگئی۔ مثال کے طور پر اگلے دن میں ایک تعلیم یافتہ اور نسبتاً ذہن شخص سے بات کررہی تھی۔ ہم مقامی اور عالمی سیاست پر گفتگو کررہے تھے کہ اچانک بے ساختہ ، اس نے ایک ایسی رائے دی جس سے اس کی فطری ذہنیت کی عکاسی ہوتی تھی۔ اُس کی رائے فرقہ وارانہ تعصب کی بنیاد پر تھی حالانکہ وہ کوئی ایسا شخص نہیں تھا جو کسی انتہا پسند تنظیم میں شامل ہو کر مخالف فرقے کے لوگوں کو ہلاک کرنے کے لیے تیار بیٹھا ہو۔ غالباً یہ احساس اُسے بھی نہیں تھا کہ اس کی بنیادی فطرت تشدد کی طرف مائل ہے حالانکہ وہ زبانی طور پر تشدد کے خلاف تھا۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ سرکاری افسران اور پولیس والے کہتے ہیں کہ وہ انتہا پسندی کے خلاف ہیں لیکن درحقیقت فرقہ واریت کے جراثیم ان کے اندر بھی موجود ہوتے ہیں؛ چنانچہ واضح ہوا کہ انتہا پسندی صرف ان پڑھ اور غریب افراد تک ہی محدود نہیں۔ 
علاوہ ازیں گزشتہ کئی برسوں سے ہمارے ہاں خواتین پر تشدد میں بے حد اضافہ ہوچکا ہے۔ ایسے کیسز روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں کہ جو لڑکیاں اپنی مرضی سے شادی کرنے کی جسارت کرتی ہیں، وہ اپنے اہل ِ خانہ کے ہاتھوںماری جاتی ہیں۔ ایسا صرف میڈیا رپورٹنگ کی وجہ سے نہیں ، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے۔ ہمارا یہ رویہ اس علم کا عملی اظہار ہے جو ہم نے روایتی یا غیر روایتی طور پر حاصل کیا۔ ان واقعات کی وجہ میڈیا کا پھیلائو نہیں بلکہ ہماری سوچ میں تعصبات بہت حد تک اپنی جگہ بنا چکے ہیں۔ آج سے تیس سال پہلے کے افراد مذہب کی اس تشریح سے واقف نہیں تھے جو آج کی نسل کو ذہن نشین کرائی جارہی ہے۔ یقینا اُس وقت بھی لوگ مسلمان تھے اور بہت اچھے مسلمان تھے لیکن ان کی سوچ اس پرتشدد طرز عمل میں نہیں ڈھلی تھی۔ اُ س وقت بھی لوگوں میں عزت کا احساس تھا لیکن آج یہ احساس اس لیے مہلک ہوچکا ہے کہ اسے مذہبی رنگ دے دیا گیا ہے۔ 
اس وقت انتہا ئی ضروری بات یہ ہے کہ ہم اپنے رویے پر غور کریں اور دیکھیں کہ کہیں یہ انفرادی طور پر ہمارے ارد گرد چھائی ہوئی انتہا پسندی میں اضافے کا موجب تو نہیں بن رہا۔ درست، کہ غریب افراد مالی وسائل کی خاطر تشدد کی راہ اپنانے کی طرف مائل ہوجاتے ہیں ۔۔۔ کم از کم اکثر لوگ یہی خیال کرتے ہیں۔۔۔لیکن انتہا پسندی کے لیے وسائل اور سوچ اُس طبقے کی طرف سے آتی ہے جو خوشحال اور صاحب ِ حیثیت ہے۔ بہت سے خوشحال طبقے انتہا پسند تنظیموںکو عطیات فراہم کرتے ہیں کیونکہ وہ سوچتے ہیں کہ جہاد ایک مذہبی فریضہ ہے اور اگر وہ اس میں عملی طور پر شرکت نہ کرسکیں تو بھی مالی مدد کرکے ثواب کمائیں۔ مختصر یہ کہ ہماری تنگ نظری انتہا پسندی اور تشدد کا باعث بنتی ہے۔ جب تک اس مرض کی تشخیص نہیں کی جاتی، اسے ملٹری آپریشن سے جڑ سے اکھاڑنا مشکل ہوگا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved