تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     10-07-2014

انقلاب اعلان سے نہیں جدوجہد سے آتا ہے

ادارہ منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے لاہور میںایک پریس کانفرنس سے دھواں دھار خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ''انقلاب آئے گا‘‘ (اور یہ الفاظ انہوں نے تین مرتبہ دہرائے جس سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ انہیں انقلاب کے آنے پر پکا یقین ہے)اور وہ اس انقلاب کا عنقریب اعلان کرنے والے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ موجودہ حکومت (اس سے مراد حکومتیں ہونی چاہئیں جن میں پی ٹی آئی کی صوبہ خیبر پختون خوا میں قائم حکومت بھی شامل ہے کیونکہ جب انقلاب آتا ہے تو سب حکومتوں کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے)کا خاتمہ چند مہینوں یا ہفتوں کی بات نہیں بلکہ دِنوں میں اس کی چھٹی ہونے والی ہے۔آنے والے انقلاب کی نوید سناتے ہوئے انہوں نے موجودہ سٹیٹ سٹرکچر یعنی پولیس اور سرکاری افسروں کو خبر دار کر دیا ہے کہ وہ سیدھے ہو جائیں۔ معلوم نہیں سرکاری افسران نے اپنے بارے میں یہ الفاظ سن کر کیا محسوس کیا ہوگا۔1969-1967ء کی ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک کے دوران جب ''نوکر شاہی مردہ باد‘‘ کا نعرہ لگایا جاتا تھا تو اس وقت بھی سرکاری افسروں کے بارے میں اس طرح کے الفاظ استعمال نہیں ہوتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سارے پولیس والے اور سرکاری افسر کرپٹ نہیں۔ان میں متعدد دیانت دار، مستعد،محنتی اور قابل لوگ بھی موجود ہیں جنہوں نے ملک و قوم کی فلاح کیلئے گراں قدر خدمات سر انجام دینے کے علاوہ ہر طرح کی قربانیاں بھی دیں۔ اس کالم کا موضوع چونکہ ''انقلاب‘‘ ہے اس لیے ہم اسی طرف لوٹ آتے ہیں۔دنیا میں اب تک جتنے انقلاب آئے ان میں سے ہر ایک کے پیچھے طویل جدوجہد اور قربانیوں کی داستان ہے۔بہتر ہوتا کہ ڈاکٹر طاہر القادری اس ضمن میں روس،چین،ویت نام اور کیوبا میں آنے والے انقلاب کا مطالبہ کر لیتے یا لینن،مائو،ہوچی مہنہ اور چی گویرا کی انقلابی تحریریں پڑھ لیتے۔مجھے تو لگتا ہے کہ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی میں ''انقلابی پروفیسروں‘‘ کی صحبت میں انقلاب اور انقلابی جدوجہد کے بارے میں جو کچھ سیکھا تھا، وہ بھی بھلا دیا ہے۔
حضرت مولا نا روم ؒ سے لے کر علامہ اقبال ـؒ،لینن اور مائو تک سب انقلابی دانشوروں اور لیڈروں کا خیال ہے کہ انقلاب لانے سے پہلے پرانے سٹرکچر کو نیست و نابود کر کے نئے نظام کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔کیا ڈاکٹر طاہر القادری موجودہ سسٹم کو جڑ سے اکھاڑنے کی پوزیشن میں ہیں؟اور اگر وہ اس کا بیڑہ اٹھا لیں تو کیا پاکستان کے عوام کی اکثریت ان کے ساتھ ہوگی؟یہ دو بڑے سوالیہ نشان ہیں جن کا جواب تلاش کرنا ضروری ہے۔ 
اگر بقول ڈاکٹر طاہر القادری انقلاب آتا ہے‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اگر موجودہ نظام کی جگہ نیا نظام لانا چاہتے ہیں،تو نئے نظام کے کیا خدوخال ہوں گے؟اس کے تحت نظامِ حکومت اور معیشت کا کیا نظام ہوگا؟اور انتقال ِاقتدار کا کیا میکنزم ہوگا؟ انقلاب کا بلیو پرنٹ تیار کیے بغیر انقلاب کی بات کرنا غیر ذمہ دار حرکت ہی نہیں بلکہ ایک طفلانہ بات بھی ہے۔ ساتھ ہی اسے ملک کی سالمیت اور قوم کی وحدت پر ایک کاری ضرب لگانے کی کوشش بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس لیے کہ بیش قدر قربانیوں اور جدوجہد کے بعد پاکستان کی سیاسی پارٹیوں اور عوام میں خوش قسمتی سے ایک نکتے پر اتفاقِ رائے(Consensus)پیدا ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ پاکستان میں ایک جمہوری،وفاقی پارلیمانی نظام قائم ہوگا جس کے خدوخال اور مختلف پہلوئوں کو1973ء کے آئین میں وضاحت سے پیش کیا گیا ہے۔یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ اس پر ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں‘ جن میں مذہبی سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں، پوری طرح متفق ہیں اور وہ 1973ء کے آئینی فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے اپنی اپنی پارٹی کے ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانا چاہتی ہیں۔ جمہوری، وفاقی اور پارلیمانی نظام پر قومی اتفاقِ رائے ملک کی بقا کی ضمانت ہے۔ جو اس سے روگردانی کرے گا۔وہ قوم اورملک سے دشمنی کا مرتکب ہوگا۔
ہاں اس نظام میں اصلاح کی گنجائش ہے اور اس کا طریقہ بھی اس نظام میں دیا گیا ہے۔دنیا کا کوئی سیاسی نظام کامل نہیں ہوتا۔ ہر نظام میں نقائص موجود ہوتے ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ ان نقائص کو دور کرنے کیلئے اس نظام میں کوئی طریقہ کار موجود ہے یا نہیں؟اگر ہے تو اسے استعمال کرنا چاہیے نہ کہ گلیوں اور سڑکوں پر جذباتی اور جوش سے بپھرے ہوئے لوگوں کو لا کر ''انقلاب‘‘ بپاکیا جانا چاہیے۔ ایسا کرنا نہ صرف غیر قانونی اور غیر آئینی ہوگا بلکہ ایک ایسے وقت میں‘ جب حکومت کو اقتدار سنبھالے ابھی ایک سال ہی ہوا ہے اور ملک سنگین اندرونی اور بیرونی چیلنجوں سے دو چار ہے،جذباتی نعرے لگا کر لوگوں کو امن و امان کو تہ و بالا کرنے پر اکسانا کسی طور مناسب نہیں۔
پھر آخر کیوں بعض لوگ آئین میں دیے گئے طریقہ کو اپنانے کی بجائے،انارکی کی راہ اختیار کر رہے ہیں؟دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری ''انقلاب‘‘ کے ساتھ آئین کی بھی بات کرتے ہیں۔ان کا دعویٰ ہے کہ موجودہ سسٹم غیر آئینی ہے ۔یہ کہتے ہوئے انہوں نے سسٹم کی وضاحت نہیں کی۔کیا اس آئین کے تحت عوام کو حاصل بنیادی حقوق غیر آئینی ہیں؟کیا انتخابات کا موجودہ طریقہ غیر آئینی ہے؟کیا ملک میں پارلیمنٹ کی بالا دستی پر مبنی نظام غیر آئینی ہے؟کیا ملک میں صوبوں اور صوبائی حکومتوں کا قیام غیر آئینی ہے؟کیا قانون سازی،انتظامی امور اور مالی شعبوں میں مرکز اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کی سکیم غیر آئینی ہے؟کیا آئین کے تحت ایک آزاد عدلیہ کا قیام غیر آئینی ہے؟اگر ڈاکٹر طاہر القادری سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ غیر آئینی ہے اور ان کی جدوجہد یا ''انقلاب‘‘ کا مقصد آئین کا تحفظ یا صحیح آئینی نظام کا قیام ہے تو انہیں سب سے پہلے سپریم کورٹ کی طرف رجوع کرنا چاہیے کیونکہ سپریم کورٹ ہی آئین کی حتمی محافظ ہے۔سپریم کورٹ کی طرف رجوع کرنا ڈاکٹرطاہر القادری کیلئے اس لیے بھی لازمی ہے کہ انہوں نے اب تک اس ادارے کو غیر آئینی نہیں کہا بلکہ سانحہ ماڈل ٹائون پر تحقیقات کیلئے انہوں نے خود سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل پینل کی تجویز دی۔ اس سے سپریم کورٹ پر ان کے اعتماد کا ثبوت ملتا ہے۔
پھر آخر آئینی راہ اختیار کرنے کی بجائے کیوں یہ لوگ سڑکوں کا رخ کر رہے ہیں؟اس سوال کا جواب تلاش کرنے کیلئے ہمیں قومی سیاست کی حالیہ تاریخ کا جائزہ لینا ہوگا۔ملک پر غیر جمہوری،غیرآئینی اور آمرانہ حکومتوں کے طویل دورِ حکمرانی کی ایک وجہ جمہوری اور سیاسی قوتوں میں نفاق اور تفرقہ بھی رہا ہے۔غیر جمہوری قوتوں نے ماضی میں نہ صرف اس سے فائدہ اٹھایا،بلکہ اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کیلئے ان اختلافی رجحانات کی کبھی درپردہ اور کبھی برملا حوصلہ افزائی بھی کی ۔ بدقسمتی سے ہماری بعض سیاسی جماعتیں اس فریب کا شکار بھی ہوتی رہی ہیں۔اس کی ایک نمایاں مثال 1990ء میں ایک انٹیلی جنس ایجنسی کی طرف سے پیپلز پارٹی کو انتخابات میں ہروانے کیلئے اس کی مخالف سیاسی پارٹیوں میں14کروڑ روپے کی خطیر رقم کی تقسیم ہے؛ تاہم گزشتہ کچھ عرصہ سے سیاسی پارٹیوں نے دور اندیشی اور بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماضی کی غلطیوں سے اجتناب کا فیصلہ کر لیا ہے۔ا ب ان کا ایک نکتے پر اتفاق ہے کہ ملک میں جو بھی سیاسی تبدیلی آئے گی وہ آئین کے مطابق اور جمہوری طریقے سے ہوگی اور کوئی سیاسی پارٹی جمہوریت کے خلاف کسی سازش میں غیر جمہوری قوتوں کا آلۂ کار نہیں بنے گی۔ مئی 2006ء میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان معاہدے اور موجودہ اسمبلی میں حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان جمہوریت کے دفاع پر اتفاق کے اعلان میں یہی پیغام مضمر ہے۔ لیکن غیر جمہوری طاقتوں کو سیاسی قوتوں کا یہ اتحاد گوارا نہیں۔ وہ اس اتحاد کو توڑنے کیلئے مختلف حربے اور طریقے استعمال کرتی رہتی ہیں۔ انقلاب کا نعرہ بھی اسی سلسلے کی کڑی محسوس ہوتا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved