تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     11-07-2014

ابھی

ترکیب یقیناً سابق صدر آصف زرداری کی ہو گی‘ جسے مارکیٹ میں خورشید شاہ نے پیش کیا۔ وہ پاکستان کے پہلے سیاست دان ہیں‘ جنہوں نے جمہوری دور میں جائز طریقے سے ایک منتخب صدر کی حیثیت میں اپنے اقتدار کے پانچ سال پورے کئے۔ پاکستان میں یہ مشکل ترین سفر آج تک کوئی مکمل نہیں کر سکا۔ ظاہر ہے آصف زرداری کے پاس ایسی گدڑ سنگھی ضرور ہے ‘ جس کے بل بوتے پر وہ‘ ایسا معرکہ انجام دینے میں کامیاب رہے‘ جو ان سے پہلے کوئی نہ کر سکا۔ جس طرح نوازشریف کے لئے‘ تیسری وزارت عظمیٰ کا پہلا سال ہی پورا کرنا مشکل بنا دیا گیا‘ یہی حال آصف زرداری کا ہوا تھا۔ انہیں منصب صدارت سنبھالے‘ چند ماہ بھی نہیں گزرے تھے کہ ان کے خلاف سازشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ باقاعدہ مہم چلا دی گئی کہ وہ امور مملکت کو سنبھالنے میں‘ بری طرح ناکام ہو رہے ہیں اور اگر انہیں مزید موقع دیا گیا تو وہ پاکستان کا وغیرہ وغیرہ کر دیں گے۔ دہائیاں دی جانے لگیں کہ کوئی آئو‘ زرداری سے پاکستان کو بچائو۔ جلد ہی اس ''کوئی‘‘ کو بھی بے نقاب کر دیا گیا اور کھل کر نام لیا جانے لگا کہ کیانی صاحب آئیں اور پاکستان بچائیں۔یہ مہم شروع ہوئی تو جنرل کیانی نے اس پر خاص توجہ نہیں دی ۔ مہم شروع کرنے والے خود ہی اس کی کامیابی سے اتنا متاثر ہوئے کہ انہوں نے اپنے آپ کو مبارکیں دینا شروع کر دیں۔ از خود سوچ لیا کہ ان کی مہم کامیاب ہو گئی ہے۔ جنرل کیانی نے‘ صدر زرداری کو‘ ایوان اقتدار سے بے دخل کرنے کا پروگرام بنا لیا ہے۔ اب عوام کو مزید انتظار میں رکھے بغیر‘ یہ راز کھول دینا چاہئے کہ زرداری صاحب کس تاریخ کو فارغ کئے جا رہے ہیں؟ بڑے شوق اور اشتیاق سے‘ انہوں نے وہ تاریخ شائع کر دی‘ جب زرداری صاحب کو برطرف ہونا تھا۔ یہ تاریخ ایک سال بعد کی تھی۔
چونکہ ماضی میں ہمارے ساتھ یہی کچھ ہوتا رہا ہے ۔ اہل وطن بے حد پریشان تھے کہ جمہوریت ابھی قدم بھی نہیں جما پائی کہ اسے اکھیڑنے کے منصوبے بن گئے۔ میں واحد لکھنے والا تھا‘ جس نے یہ مہم چلانے والوں کا دل کھول کے مضحکہ اڑایا اور دلائل سے ثابت کیا کہ صدرمملکت کو ایوان صدر سے بے دخل کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ پارلیمنٹ موجود اور فنکشنل ہے۔ اظہار رائے کی آزادی ہے۔ عوام پر کسی قسم کا دبائو نہیں۔ تمام آئینی آزادیاں حاصل ہیں۔ ایسے ماحول میں عوام فوجی مداخلت ہرگز قبول نہیں کریں گے لیکن وہ تھے کہ بازنہیں آرہے تھے۔بار بار وہ اپنی دی ہوئی تاریخ دہراتے اور تکرار کے ساتھ لکھتے چلے گئے کہ ان مقررکردہ تاریخ کوصدر زرداری یقیناً گھر چلے جائیں گے۔ کمال یہ تھا کہ صدر زرداری نے اس مہم کا ذرا بھی نوٹس نہیں لیا۔ یہ تحریک چلانے والے صحافیوں کو امید تھی کہ صدر زرداری اپنے خلاف اتنی شدید مخالفانہ مہم کو دیکھ کر‘ گھبرائیں گے‘ ان کے ساتھ رابطے قائم کر کے‘ پوچھیں گے کہ ''بولو کیا چاہتے ہو‘‘؟ یہ زرداری صاحب کا خاص طریقہ کار تھا۔ جو بھی ان کے خلاف مخالفانہ مہم شروع کرتا‘ وہ فوراً ہی اسے بلاکر پوچھتے ''بولو کیا چاہتے ہو‘‘؟ زرداری صاحب کے یہ جادوئی الفاظ ہمیشہ کام کر جاتے۔ مولانا فضل الرحمن تو اتنے عادی ہو چکے تھے کہ جیسے ہی انہیں قمیض میں سلا ہوا‘ چار گرہ کپڑا چبھنے لگتا تو وہ فوراً ہی مخالفانہ بیان جاری کرنے لگتے۔ زرداری صاحب مدعا سمجھ لیتے۔ مولانا صاحب کو انتہائی احترام سے‘ ایوان صدر میں بلاتے۔ اور وہی جادوئی الفاظ مولانا کی خدمت میں پیش کر دیتے۔ ہو سکتا ہے شروع شروع میں‘ تفصیلات طے کرتے ہوئے مشکل پڑی ہو لیکن بعد میں سب کچھ رواں دواں ہو گیا تھا۔ مولانا مخالفانہ بیان دیتے۔ زرداری صاحب کی طرف سے دعوت ملاقات آجاتی۔ دونوں حضرات بڑے تپاک سے بغل گیر ہو کر‘ نشستوں پر بیٹھتے اور اس کے بعد ہاتھ ملانا شروع کر دیتے۔ جتنی بار ہاتھ ملایا جاتا‘ اسی کی گنتی کر کے اصل بات طے ہو جاتی۔ منہ سے بولنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ ویسے بھی ایوان صدر میں ‘خفیہ ریکارڈنگ کا موثر نظام موجود ہے۔ اشاروں میں کی گئی بات چیت‘ کیمرے میں بھی ریکارڈ ہو جائے تو اسے دیکھ کر کوئی پہچان نہیں سکتا کہ دونوں طرف سے کہا کیا گیا ہے؟ میرا خیال ہے مخالفانہ مہم چلانے والے صحافی بھی ‘اسی آس میں ہوں گے کہ جیسے مولانا کو ایک ہی بیان کے بعد‘ بلاوا آجاتا ہے۔ ان کی مخالفانہ تحریریں شائع ہوتے ہی‘ ایوان صدر سے انہیں بھی بلاوا آجائے گا۔ لیکن زرداری صاحب تھے کہ گھاس نہیں ڈال رہے تھے۔
مخالفانہ مہم چلانے والے صحافی ‘ انتظار کرتے کرتے اکتا گئے تو انہوں نے سوچا کہ صدر صاحب سے خود ملاقات کا وقت مانگ کر ان سے کہا جائے ۔
شاید کہ مجھ کو بھول کے پچھتا رہے ہیں آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں
افسوس کہ صدر زرداری نے انہیں‘ یہ بھی کہنے کا موقع نہ دیا۔ انہوں نے مختلف ذرائع سے پیغامات بھیجے۔ جواب ندارد ۔ ٹیلی فون کر کے پیغام لکھوائے۔ جواب ندارد۔آخر کار پرنسپل سیکرٹری سلمان فاروقی صاحب سے‘ دردمندانہ التماس کی کہ صدر صاحب تک ان کی یہ درخواست پہنچا دی جائے کہ وہ ملاقات کے متمنی ہیں۔ ان دونوں میں ایک اپنے زمانے کا مشہور اینکر پرسن تھا اور دوسرا بہ زعم خود ایک بڑا صحافی‘ جس کی شناخت ایک وہسکی کے برانڈ نام سے بھی ہوتی ہے۔فاروقی صاحب ان دونوں سے واقف تھے۔ انہوں نے صدر صاحب کی ملاقاتوں کی فہرست دیکھ کر‘ ایک خالی وقت چنا اور ان دونوں کو‘ ایوان صدر‘ اس خیال سے بلا لیا کہ صدر صاحب کو فارغ وقت میں بتا دیا جائے گا‘ یہ دونوں معزز صحافی‘ آپ سے ملاقات کے منتظر بیٹھے ہیں۔دونوں ایوان گئے۔ انتظار کیا۔ وقت آیا تو صدر صاحب کو اطلاع دی گئی۔ صدر صاحب نے حیرت سے پوچھا کہ میں نے تو انہیں نہیں بلایا۔ فاروقی صاحب نے بتایا کہ آپ کا فارغ وقت دیکھ کر‘ میں نے اپنے طور پہ بلا لیا تھا۔ ان دونوں کو آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ مجھے امید تھی کہ آپ ان سے مل لیں گے۔ صدر صاحب نے جواب دیا۔''آپ نے انہیں بلایا ہے‘ خود ہی بھگتیے۔ میں انہیں ملنے کا پابند نہیں ہوں اور نہ ہی مل رہا ہوں‘‘۔فاروقی صاحب بڑے شائستہ اور نستعلیق قسم کے بزرگ ہیں۔ بہت پریشان ہوئے کہ ان معزز صحافیوں کو‘ ایوان صدر سے نکالیں کس طرح؟ انہوں نے انتہائی خوبصورت الفاظ کا چنائو کر کے‘ انہیں پیغام دیا کہ آپ تشریف لے جائیں‘ صدر صاحب آپ سے نہیں ملنا چاہتے۔ دونوں معروف صحافیوں کی خود اعتمادی‘ خود ترسی میں بد ل گئی۔ بلڈ پریشر بڑھ گیا۔ غصے میں سر کے بال کھڑے ہو گئے۔ بوجھل قدموں کے ساتھ‘ بڑے بے آبرو ہو کر‘ وہاں سے سر نگوں نکلے۔ ستم ظریفی یہ ہو ئی کہ ایوان صدر سے اس بے آبروئی کی خبر باہر نکل گئی۔ اخبار میں شائع بھی ہو گئی۔ میں نے اس پر کالم بھی لکھ دیا۔ ظاہر ہے اس کے بعد انہوں نے‘ جس قدر ممکن تھا زور لگایا کہ زرداری صاحب کو ایوان صدر سے نکال دیں۔ لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ پہلے سال انہوں نے جو تاریخ دی‘ وہ انہیں ذلیل و خوار کرتی ہوئی گزر گئی۔ انہوں نے نئے سرے سے دلائل کا تانا بانا بنا۔ پھر سے زرداری صاحب کی برطرفی کے حق میں دلائل دینا شروع کئے۔ پھر سے جنرل کیانی سے دردمندانہ اپیلیں کیں۔ پھر سے تاریخ دے دی کہ اس سال زرداری صاحب گھر چلے جائیں گے۔ وہ اس سال بھی نہیں گئے۔ اپنے اقتدار کی مدت پوری کی اور پہلی مرتبہ ایک منتخب صدر کی حیثیت میں عزت وآبرو کے ساتھ‘ ایوان صدر سے رخصت ہوئے۔ ان پانچ سالوں کے دوران‘ ان کے خلاف بے شمار سیاسی و صحافتی حملے ہوئے مگر وہ کسی کو خاطر میں نہیں لائے۔
وزیراعظم نوازشریف پر بھی حسب دستور‘ سیاسی حملے جلد ہی شروع ہو گئے لیکن وہ فوراً ہی ردعمل ظاہر کرنے لگے۔ مخالفین نے سوچا کہ یہاں تو بڑی جلدی اثر پڑتا ہے ۔ ان کے حوصلے بڑھ گئے۔ انہوں نے مخالفت کے نئے نئے حربے‘ ڈھونڈ کر مزید زور لگانا شروع کر دیا۔ نوازشریف مزید ردعمل ظاہر کرنے لگے۔ اور اب تو مخالفین کے حوصلے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ وہ نئی حکومت بنانے کی تیاریاں کرنے لگے ہیں۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے ہی ‘کولیشن بنانے لگے ہیں ۔ نوازشریف بھی جلدی جلدی‘ ردعمل ظاہر کر رہے ہیں۔ خورشید شاہ نے‘ میاں صاحب کی مدد کے لئے ماہرانہ چال چلی کہ آئندہ منتخب حکومت کی مدت‘ ایک سال کم کردی جائے۔ شہبازشریف معاملات کو لٹکانے کے عادی نہیں۔ انہوں نے فوراً ہی یہ تجویز قبول کرنے کا عندیہ دے دیا لیکن انہیں اندازہ نہیں کہ ان کے مخالفین‘ بہت منجھے ہوئے ہیں۔ جیسے جیسے ان کے دبائو پر ردعمل آئے گا‘ ویسے وہ دبائو بڑھاتے جائیں گے۔ ان کا علاج وہی ہے جو صدر زرداری نے کیا۔مخالفین کو ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ وہ جس طرف کو زور لگائیں‘ وہاں سے ہٹ جائیں۔ یہ خود ہی اپنے زور میں ‘کسی نہ کسی غلط جگہ ٹکراتے رہیں گے۔ ورنہ منتخب حکومت کی مدت اقتدار پر سودے بازی شروع ہو گئی تو چارسال کے جواب میں‘ وہ تین سال کہیں گے ۔ تین سال ما نیں تو وہ دوسال کہیں گے۔ دوسال مان لئے گئے‘ تو وہ ایک سال کہیں گے اور ایک سال مان لیا تو مطالبہ ہو گا ۔۔۔۔۔۔ ابھی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved