اندیشہ ختم ہوا مگر سوال ذہن سے چپکا رہا : اگر آدمی کو مرجانا ہے، تو پھر یہ کیا زندگی ہے ، جو ہم گزار رہے ہیں ۔ اگر آدمی کو اپنے اعمال کا جواب دینا ہے تو کیا ترجیحات کا تعین اس طرح ہونا چاہیے؟ اس طرح؟
عجیب سا ایک واقعہ پیش آیا اور خیال کا دھارا بدل گیا۔ چراغ گل کر دیا تھا۔ بیداری لیکن باقی رہی ، غنودگی سی۔ا چانک یہ محسوس ہوا کہ دل بہت زور سے دھڑکا ہے ۔ پھر خیال آیا ،کیا عجب اب وہ بار اٹھانے سے انکار ہی کر دے ۔ خوف کا احساس نہ ہوا مگر کلمہ پڑھا ''میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐ اس کے رسول ہیں‘‘۔ سوچا : وقت اگر آپہنچا ہے تو ابھی کچھ دیر میں قضا آئے گی ۔ پھر ایک اور خیال ''اے وہ لوگو، جنہوں نے اپنی زندگی ضائع کردی، اس کی رحمت سے مایوس نہ ہو جانا‘‘۔ سکرات سے پہلے توبہ کافی ہے اور حسنِ امید۔ دعائے قنوت یاد آئی۔ ''اے اللہ ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں اور استغفار کرتے ہیں۔ تجھی پہ ایمان لاتے ہیں اور تجھی پہ تمام تر انحصار کرنے والے ہیں ‘‘
عمرِ رائیگاں کا حساب ، ماضی کی ایک ایک تصویر ۔ پھرآنے والا کل ، خاندا ن کاکیا ہوگا؟ اس خیال سے بہت تشفی ہوئی کہ وہ مفلس نہیں ہوں گے ۔ اگر وہ دیانت سے کام لیں اور اگر یکجا رہیں تو عزت اور قار کے ساتھ اللہ انہیں رزق عطا کرے گا۔ پھر ایک ایک کے بارے میں سوچا۔ اللہ انہیں برکت دے ۔معلوم ہوا ، کسی سے کوئی شکایت نہیں ۔ ہاں ، خود زندگی سے بھی ہرگز نہیں ۔
مغرب کی نماز سراج الحق کی امامت میں پڑھی ۔ بارہا وہ آیت سنی ہوگی مگر آج اس کا مفہوم گویا دل پہ اترنے لگا ''تو پاک ہے ، ہم ہرگز کوئی علم نہیں رکھتے مگر وہ جو آپ نے ہمیں عطا کیا‘‘ دل نے کہا: بھول بھلیوں میں رہے ۔علم کی آرزو ہی کب پالی تھی ۔ پھر ڈھارس بندھی کہ رمضان المبارک ہے ۔ معافی تو مالک سے مانگتے ہی رہتے ہیں ۔ وہ غفور الرحیم ہے ۔ اس قلق نے البتہ آلیا کہ شکر ادا نہ کر سکے ۔ اتنی بے شمار نعمتیں ، اس پر بھی خود سے ہمدردی رہی اور تحدیثِ نعمت کا حق ادا نہ ہوا۔
پھر ایک احساس کمال قوت سے پھوٹا : ایک وصیّت لکھ دینی چاہیے۔ اس کالم کے حقوق ادارے کے پاس ہیں ۔ اگر وہ پسند کریں تو جستہ جستہ بعد میں بھی چھاپ لیا کریں ۔ مرتّب کون کرے گا ؟ بلال الرشید! تدوین کس کے ذمہ ہو ؟ خالد مسعو د خان ؟ اگر کہیں کوئی جملہ حذف کرنا پڑا، اگر کہیں اضافہ کرنا پڑا؟ ڈاکٹر اطہر مسعود؟ سجاد میر؟ اسلم کولسری ؟ عامر خاکوانی ؟ چھوڑو جی ، یہ کیا دردِ سر ہے ، آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل ۔ تم کس کھیت کی مولی ہو ۔ وقت کوہساروں کو گمنامی کی گرد میں گم کر دیتا ہے ؎
پہاڑ کاٹنے والے زمیں سے ہار گئے
اسی زمین میں دریا سمائے ہیں کیا کیا
شکر ہے کہ عظمت کی آرزو نہ پالی ۔ انسانی ذہن بھی کیسا عجیب ہے ۔ احساس کی پھر ایک اور موج رواں ہوئی ۔ ظفر اقبالؔ نے کیا کہا تھا، وحشتِ خیال کے باب میں ؟
دل کا یہ دشت عرصۂ محشر لگا مجھے
میں کیا بلا ہوں، رات بڑا ڈر لگا مجھے
کیا اس شعر کا اسد اللہ خاں غالبؔ کے خیال سے کوئی رشتہ ہے؟ ڈیڑھ سو برس ہوتے ہیں ، جب وہ مضمون اس نے باندھا تھا۔
ہے آدمی بجائے خود اک محشرِ خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں، خلوت ہی کیوں نہ ہو
ہاں ! ایک اعتبار سے مگر یہ بالکل نیا خیال ہے۔ ظفر اقبال غزل کا ایسا بے پناہ شاعر تھا، پھر چاندنی سے دھلے اپنے دیار کو اس نے خیر باد کیوں کہا ؟ تجربات کی آرزو میں کیا وہ رفعتوں سے نیچے نہ اتر آیا؟ چھوڑو جی ، تم اپنی فکر کرو۔ اس وقت تمہیں یہ کیا سوجھی ہے اور تم نقاد کب سے ہو گئے ؟
ہاں ! اگرچہ دل کے دورے کا خیال باطل ہی نظر آتا ہے مگر وصیت تو لکھنی چاہیے۔ ہاں ! ایک بات لازماً ۔ مودبانہ التماس یہ ہے کہ خراجِ تحسین کے لیے کوئی تقریب ہرگز نہ ہونی چاہیے۔ کون سا کارنامہ انجام دیا ہے کہ اس کی ضرورت ہو ؟ کس قدر تصنّع اور کس قدر داستان آرائی ہوتی ہے اس طرح کے تماشوں میں۔ رسولِ اکرمؐ کے صحابیؓ مرقد کو روانہ تھے کہ کان کی لو پھڑکی۔ اٹھ بیٹھے اور گھر لے جائے گئے۔ بہن کو تھپڑ رسید کیا : گریہ کرتے ہوئے، تم نے میرے بارے میں کس قدر مبالغہ کیا۔ فرشتوں نے کہا : جھوٹ ، بالکل جھوٹ۔
ہاں مگر دعا ! کون ہے جو دعا کا محتاج نہیں ۔ سرکارؐ نے فرمایا تھا: سب لوگ اللہ کی رحمت سے جنت میں جائیں گے۔ دعا قبول کی جاتی ہے اور صدقہ بھی ۔ سمندر پار کچھ رونے والے ہیں ، کچھ ہمیشہ دعا مانگنے والے ۔ میرے بھائی، میری نورِ نظربھی ۔ اللہ اسے جیتا رکھے، وصیت میں لکھنا چاہیے: جانِ پدر ، نماز، تسبیح،علم اور شکر گزاری، زندگی اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں ۔ عالی ہمّتی اللہ نے تمہیں بخشی ہے ، پھر اور کیا: اس کی ماں اپنی بیٹی سے زیادہ بلند ہمت اور خوددار ہے ۔ اللہ اسے خوش رکھے ۔ دل کا بوجھ اترنے لگا۔ کیا مجھے اپنے قارئین سے درخواست کرنی چاہیے کہ وہ ہر روز میرے لیے اللہ سے رحمت طلب کیا کریں ؟ کیا وہ ایسا کریں گے ؟ رہنے دو یار، بھلے چنگے ہو ۔ خودترحمی کی کیفیت بھی اس وقت تو بہرحال نہیں ، پھر یہ کیا سوچنے لگے ۔ سوچ مگر کہاں ٹلتی ہے ۔ ہاں ! امید ہے کہ وہ ایسا کریں گے ۔ عرب شاعر امرائو القیس یاد آیا۔ و بدت لی و اشرق الصبح منہا۔ پس روشنی کا اچانک ظہور ہوا اور سحر پھوٹ پڑی۔ میرا قبیلہ، ہاں میرا قبیلہ۔ عارف کی گلی میں ، گھر کے سامنے گاڑیاں پارک کرنے کا ایک قطعہ ہے ۔ کیا اتنی سی رعایت سرکار نہ دے گی کہ وہیں گاڑنے کی اجازت دے ۔ کیا یہ لاکھوں لوگ اپنے اس محبت کرنے والے کی استدعا یاد نہ رکھیں گے کہ پنج وقتہ نمازوں میں اسے فراموش نہ کریں ۔ قرار آنے لگا اور ایسا قرار ؎
جیسے صحرائوں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے
اٹھ بیٹھا اور چراغ جلایا۔ بھوک چمک اٹھی تھی اور صبح کے اڑھائی بج رہے تھے۔ خواجہ مہر علی شاہؒ نے کہا تھا کہ پاکیزہ خیال کو اگر تھام لیا جائے اور تھام رکھا جائے تو تن من اُجلا ہو سکتاہے ۔ اجلے خیال کو تھامنا چاہیے۔
موبائل اٹھایا ۔ میرپور سے محمد آصف نے عارف کے کچھ اقوال لکھ بھیجے تھے ''اللہ اپنی یاد میں رہنے والوں پر ہمیشہ کرم اور بھلائی کا ارادہ رکھتاہے‘‘۔ ''جب آپ اللہ کو علمِ کل ، خالقِ علم اور خالقِ عقل مانتے ہو تو پھر اسے یہ حق کیوںنہیں دیتے کہ وہ آپ کے لیے ترجیحات طے کرے‘‘۔ ''جہاں جہاں عالمین کا وجود ہے، وہاں وہاں رحمتہ اللعالمینؐ کی رحمت موجود ہے‘‘۔ ''صوفی خدا کے حق میں نفس کے خلاف جدوجہد کرتاہے‘‘۔ ''اللہ کی سب سے بہترین تخلیق عقل ہے‘‘۔ ''جب توازن (اعتدال )آتا ہے یقینا خدا ئی علم کا دروازہ کھل جاتا ہے‘‘۔ ''جس دن آپ نے اللہ کو اپنے ذہن میں ترجیحِ اوّل قرار دے دیا ، ربّ کعبہ کی قسم، دنوں میں نہیں ، منٹوں میں وہ آپ کا ہے‘‘
سحری کا کھانا ڈٹ کر کھایا ۔اندیشہ ختم ہوا مگر سوال ذہن سے چپکا رہا : اگر آدمی کو مرجانا ہے ، تو پھر یہ کیا زندگی ہے ، جو ہم گزار رہے ہیں ۔ اگر آدمی کو اپنے اعمال کا جواب دینا ہے تو کیا ترجیحات کا تعین اس طرح ہونا چاہیے؟ اس طرح؟