تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     11-07-2014

دو مصنف‘ دو کتابیں

فکشن میری چائے کی پیالی نہیں ہے۔ میں تو اس کا باقاعدہ قاری بھی نہیں ہوں۔ اور‘ میں کوئی پیشہ ور نقاد بھی نہیں ہوں کہ میرے لیے ہر صنفِ ادب پر گہری نظر رکھنا ضروری ہو۔ ڈاکٹر یونس جاوید کا ناول ''کنجری کا پُل‘‘ کوئی ڈیڑھ سال پہلے مجھے موصول ہوا تھا اور جسے میں نے پڑھ بھی ڈالا تھا‘ لیکن اس پر رائے دینے سے اجتناب ہی کیا کہ اس میں کئی محیر العقول واقعات اور باتیں ایسی تھیں کہ میرا ان کے ساتھ سمجھوتہ نہ ہو سکا؛ تاہم مصنف کے ہاں زورِ بیان بھی ہے اور روانی بھی‘ اور یہ قاری کو ساتھ ساتھ رکھنے کا ہُنر بھی جانتے ہیں جبکہ میری ناقص رائے میں متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ قاری کا قائل ہونا بھی ضروری ہوتا ہے؛ چنانچہ جہاں جہاں میں قائل نہیں ہوا ہوں یہ میری سمجھ کا قصور بھی ہو سکتا ہے۔ 
ناول کا پلاٹ بھی کسی عیب سے پاک ہے جس میں چند طوائفوں کی کہانی بیان کی گئی ہے؛ تاہم میری سمجھ میں نہ آنے والی چیزوں میں پہلی تو یہ تھی کہ گندل خاں جو ایک لکڑہارا ہے‘ شادی کے خرچے کے طور پر اپنے سُسر کو دینے کے لیے ساڑھے تین لاکھ روپے کہاں سے لاتا ہے۔ نیز یہ بھی کہ اس کی بیوی اس کے ساتھ انتہائی عسرت اور تنگدستی کے سات آٹھ سال گزار کر بھی اتنی شاداب و شگفتہ کیونکر رہتی ہے کہ تھوڑے ہی عرصہ میں ایک طوائف کے طور پر لاکھوں کروڑوں میں کھیلنے لگے اور تماشبین حضرات اس پر مربعوں کے مربعے نچھاور کرنے لگیں۔ ایک مکالمہ دیکھیے: 
''مگر باجی‘‘ رک کر صبازادی بولی۔ ''باجی مربعوں کی دوڑ میں یہ سب سے آگے نکل گئے ہیں۔ آدھی زمین اور باغات پہلے آپ کے نام لگائے۔ تب آرزو بیان کی۔ پھر حویلیاں‘ مکانات
اور دکانیں نچھاور کردیں گویا... اور طشت بھر بھر کر نوٹ لُٹانے میں ان کا کوئی ثانی ہی نہ تھا۔ کوئی سونا چاندی زیور کپڑا الگ۔ جی دار اسے ہی کہتے ہیں۔ نڈر اور جرأت‘ واہ‘ آخر خود کو سچا ثابت کرنے کے لیے کیا کرے آدمی‘‘ اور‘ لطف یہ ہے کہ ایک آدھ کو چھوڑ کر یہ ساری ادھیڑ عمر ہیں جبکہ ایک کی عمر 42 سال بتائی گئی ہے۔ بیشک ان میں ایک نائیکہ بھی ہے۔ حتیٰ کہ ایک گاہک 40 لاکھ کی آفر بھی کر رہا ہے۔ حقیقی زندگی میں ایسا نہیں ہوتا کہ طوائف کوئی جنسِ نایاب نہیں ہوتی۔ بازار کا مال ہے اور اس کی قیمت بالعموم چند ہزار سے اوپر نہیں جاتی۔ کچھ مزید احوال سنیے: اس کے پاس سونے‘ جواہرات اور دولت کے انبار اتنے تھے کہ اب تو اسے اپنے صحیح لاکرز کی تعداد بھی یاد نہ رہی ہوگی... ہرچند اس کے آدھے سے زیادہ لاکرز کی چابیاں اور حصے داری میرے پاس تھی اور اپنی دولت کے علاوہ اس کے لاکرز میں اس کی دولت کے انبار اب میری ہی دسترس میں تھے‘ مگر کروڑوں کے جواہرات زہر لگ رہے تھے اور کروڑوں کے زیورات مٹی‘‘۔ پھر اپنے کردار ظہرہ سے مصنف نے وہ وہ ادبی مکالمے ادا کروائے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے جبکہ اس کا علمی پس منظر اس کی چغلی نہیں کھاتا۔ تحریر کو تعقلاتی منطقے سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔ پھر‘ ایک کردار نادانستگی میں اپنی سگی بہن سے شادی کر لیتا ہے اور دوسرا کردار شب بھر اپنی سگی بہن کے ساتھ ہوٹل میں دادِ عیش
دیتا دکھایا گیا ہے اور جب طوائف کو معلوم ہوتا ہے تو وہ ننگ دھڑنگ شور مچاتی ہوئی کمرے سے باہر نکل جاتی ہے اور ہوٹل کی راہداری میں پانچ سات مردوں کے سامنے کھڑی رہتی ہے۔ عملی زندگی میں ضرور ایسا ہوتا ہوگا لیکن ہر بات لکھنے کے لیے نہیں ہوتی۔ یہ کتاب جمہوری پبلی کیشنز لاہور نے چھاپی ہے اور اس کی قیمت 340 روپے رکھی ہے۔ 
''گستاخی معاف‘‘ طنز و مزاح کی کتاب ہے جو مظفر بخاری نے لکھی ہے۔ آپ اولڈ راوین ہیں‘ اخبار میں کالم لکھتے ہیں اور متعدد کتابوں کے مصنف۔ اسے ''کاغذی پیرہن‘‘ لاہور نے چھاپا ہے اور کوئی ساڑھے چار سو صفحات پر مشتمل اس مجموعے کی قیمت 600 روپے رکھی گئی ہے۔ کتاب کا انتساب جی سی یونیورسٹی لاہور کے سابقہ اور موجودہ تمام طلبہ و طالبات اور اساتذہ کے نام ہے۔ 
مزاح نگاری ایک بے حد مشکل گھاٹی ہونے کے علاوہ ایک خطرناک کام بھی ہے۔ مشکل اس لیے کہ مزاح نگاری تقریباً ناممکن ہے اور ہم جو نام نہاد مزاح نگاری کرتے ہیں‘ مزاح نگاری کی گویا نقل ہی اُتارتے ہیں۔ اور‘ خطرناک یوں کہ اس دوران ہاتھ اگر اوچھا پڑ جائے تو مضمون کی بجائے خود مضمون نگار پر ہنسی بھی آتی ہے اور رحم بھی۔ ابتدائی صفحات میں اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں کہ مظفر بخاری کے مضامین پڑھ کر کسی شخص نے کہا تھا کہ گورنمنٹ کالج میں ایک نیا پطرس بخاری ابھرا ہے تو یہ بات درست معلوم ہوتی ہے۔ اب خدا جانے ہمارے بزرگ دوست نے اس طرح مظفر بخاری کا رتبہ بڑھانے کی کوشش کی ہے یا پطرس بخاری کا درجہ گھٹانے کی۔ 
ایک اور صاحب نے ان مضامین کو انشایئے قرار دیا ہے جو کہ انشایئے نہ سہی‘ اس کتاب کے ساتھ زیادتی ضرور ہے۔ امجد اسلام امجد نے ایک بار انشایئے کو گُم ہیضہ قرار دیا تھا؛ تاہم ا سے زیادہ سے زیادہ لائٹ ریڈنگ قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ لطیفے کی طرح اگر یہ بھرپور نہ ہو تو خود ایک تصویر حسرت بن جاتا ہے۔ جعفر بلوچ لکھتے ہیں کہ ''گستاخی معاف‘‘ پڑھتے ہوئے مجھے ظرافت کا وہ خوان یاد آتا رہا جو کنہیا لال کپور‘ شوکت تھانوی‘ ضمیر جعفری‘ پطرس بخاری اور سجاد حیدر یلدرم نے چُنا تھا۔ اس پر تبصرے کی ضرورت نہیں۔ کتاب کا پہلا مضمون ''رفیع تمنا دی گریٹ‘‘ جو 21 صفحات پر مشتمل ہے‘ ایک تھکا دینے والی تحریر ہے۔ اس کے بعد مزید مضامین پڑھنے کی ہمت آپ میں نہیں رہتی‘ جبکہ اس کا سب سے بڑا عیب ہی اس کی بے جا طوالت ہے۔ ایسا طویل مزاحیہ مضمون لکھنے کے لیے کم از کم شفیق الرحمن ہونا ضروری ہے۔ یہی غلطی ہمارے دوست ایچ اے شیرازی نے اپنی تصنیف ''بابو نگری‘‘ میں کی ہے۔ بلکہ ایسا لگتا ہے کہ یہ کتاب شیرازی صاحب نے لکھی ہے اور ''بابونگری‘‘ مظفر بخاری نے کیونکہ دونوں کا سٹائل بھی ایک جیسا ہے۔ پھر‘ مزاح نگاری کا خاصہ یہ ہے کہ معلوم نہ ہو کہ مزاح لکھنے کی سرتوڑ کوشش کی جا رہی ہے کیونکہ مزاح وہ ہوتا ہے جو قدرتی اور خود رو ہو‘ اوپر سے مسلط کیا گیا نہ ہو یا واقعات کو کھینچ تان کر مزاحیہ بنانے کی کوشش نہ کی گئی ہو جبکہ مزاح خود لکھنے والے کے اندر ہوتا ہے‘ اسے باہر سے نہیں لایا جا سکتا۔ 
کتاب میں جو مضامین مختصر ہیں انہیں پڑھتے ہوئے آدمی اُکتاہٹ محسوس نہیں کرتا اور وہ نسبتاً بہتر ہیں۔ کتاب پر اگر یہ نہ لکھا جاتا کہ یہ طنز و مزاح پر مشتمل ہے تو زیادہ بہتر ہوتا اور قاری کسی حد تک اس سے لطف اندوز ہو سکتا تھا کیونکہ ایسا لکھنے سے کتاب قاری کے لیے ایک چیلنج بن جاتی ہے کہ تیار ہو جائو‘ تمہیں اب ہنسایا جائے گا۔ یعنی اس طرح کتاب سے قاری کی توقعات بڑھ جاتی ہیں جو بہرحال پوری نہیں ہوتیں۔ کتاب کی ضخامت بجائے خود کوئی مثبت تاثر پیدا نہیں کرتی جو ایک عام ناول سے بھی زیادہ ہے۔ اس لیے اس کی دو بلکہ تین کتابیں بنا دی جاتیں تو کہیں بہتر ہوتا۔ پھر عرض کروں گا کہ مزاح کا مطلب ہے بھرپور مزاح۔ اس سے کم پر بات نہیں بنتی۔ لہٰذا اس موضوع پر سوچ سمجھ کر ہی قلم اٹھانا چاہیے۔ 
آج کا مقطع 
جھلک نظر نہیں آئی پھر اس زمیں کی، ظفرؔ 
وہ آسمان دوبارہ نہیں دکھائی دیا 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved