تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     12-07-2014

سانحہ ماڈل ٹائون جس سے کسی نے کچھ نہیں سیکھا

آٹھ جولائی کو ورلڈ کپ 2014ء کے پہلے سیمی فائنل میں برازیل کے ساتھ کیا ہوا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو برازیل کی ٹیم‘ برازیل کی عوام‘ فٹبال سے دلچسپی رکھنے والے دنیا بھر کے شائقین حتیٰ کہ خود جرمن فٹبال ٹیم کے لیے بھی ہمیشہ صرف ایک سوال ہی رہے گا۔ ایسا سوال جس کا جواب شاید کبھی نہیں مل سکے گا۔ توجیہات‘ تاویلات اور منتشر خیالات۔ لیکن یہ کوئی جواب تو نہ ہوا۔ میزبان ہونے کا دبائو۔ اپنے کپتان کی غیر موجودگی۔ اپنے بہترین کھلاڑی اور سٹار سٹرائیکر نیمار سے محرومی۔ اعصابی تنائو۔ کچھ بھی کہہ لیں۔ جرمنی سے ایک کے مقابلے میں سات گول سے تاریخ کی بدترین شکست اور پہلے ہاف کے تئیسویں سے لے کر انتیسویں تک کے چھ منٹ میں چار گول کروانے کی کوئی وجہ‘ کبھی بھی بیان نہ کی جا سکے گی۔ پانچ دفعہ کے ورلڈ چیمپئن برازیل کی فٹبال کی تاریخ میں یہ تین سو ساٹھ سیکنڈ سیاہ ترین لمحات کی حیثیت سے یاد رکھے جائیں گے۔ 
سترہ جون کو ماڈل ٹائون میں کیا ہوا؟ اس بدترین سانحے پر کمیشن بیٹھ چکا ہے۔ ایک ایس ایچ او‘ دو سب انسپکٹر اور سات اہلکاروں کو بغرض تفتیش حراست میں بھی لیا جا چکا ہے مگر اس سانحے کے حقیقی مجرم شاید کبھی سامنے نہ آ سکیں۔ انتظامی خرابی‘ چین آف کمانڈ کی بربادی‘ نابالغ الذہن اور قوت فیصلہ سے محروم پولیس افسروں کی بادشاہی‘ نامکمل انتظامی ڈھانچہ اور سب سے بڑھ کر ایسے معاملات سے نپٹنے سے قطعاً لاعلم اور غیر تربیت یافتہ پولیس اور اس سے بڑھ کر اس کے افسران۔ لیکن یہ ساری خرابیاں ایسی ہیں جو سسٹم کی خرابیاں ہیں۔ انتظامی بربادی کے بارے میں ہیں۔ اجتماعی خرابی کی نشاندہی کرتی ہیں۔ لیکن ا س مخصوص واقعے میں کسی ایک شخص یا زائد افراد کو براہ راست اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرا پائیں گی۔ یہ میرا اندازہ ہے۔ 
کوہ ہمالیہ سے بھی بڑا یہ انتظامی سانحہ ہمیں کوئی سبق دینے 
سے قاصر ہے۔ ہم وہ بدقسمت ہیں جو کسی بھی سانحے پر وقت کی مٹی ڈالنے کے تو ماہر ہیں مگر سبق حاصل کرنے کے معاملے میں صفر بٹا صفر ہیں۔ اس سانحے پر بہت کچھ کہا جا چکا ہے اور ابھی اور بہت کچھ کہا جائے گا مگر ہمارا زور اس بات پر رہے گا کہ ذمہ دار کون ہے؟ کس کو مستعفی ہونا چاہیے تھا اور کس کی کیا ذمہ داری تھی؟ کیا ہم کوئی ایسا نظام وضع کریں گے جو آئندہ اس قسم کے واقعات کا سدباب کر سکے؟ جو دوبارہ اس قسم کی صورتحال سے ہمیں محفوظ رکھ سکے؟ گزشتہ ایک عرصہ سے ایسا ہو رہا ہے کہ جب بھی لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے‘ ہماری انتظامی مشینری اسے حل کرنے میں سو فیصد ناکام رہتی ہے۔ ہم کمیشن بنا دیتے ہیں جس پر وقت کی مٹی پڑ جاتی ہے۔ عوام بات بھولنے میں ماہر ہیں۔ حکمرانوں کا دال دلیا چل جاتا ہے۔ بات آئی گئی ہو جاتی ہے اور معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔ سیالکوٹ میں دو بھائیوں کو ڈنڈوں سے مار مار کر قتل کرنے کے واقعے میں پولیس کی نااہلی کا کیا بنا؟ راولپنڈی میں راجہ بازار کے قریب محرم میں درجنوں دکانیں‘ مسجد‘ مدرسہ جلانے کا واقعہ سراسر پولیس کی نااہلی کے باعث پیش آیا‘ اس کا کیا بنا؟ اور درجنوں واقعات ہیں کس کس کا بیان کریں؟ میں خود عوام کا حصہ ہوں اور ایسے واقعات وقت کے ساتھ ساتھ بھول جاتا ہوں۔ ہم سب کا یہی حال ہے۔ ان خرابیوں پر کمیشن بٹھانا‘ تفتیش و تحقیق کرنا بجا‘ مگر ان واقعات کا پائیدار حل تلاش کرنا اور اس کا اطلاق اصل کام ہے جس میں حکمران مکمل طور پر ناکام ہیں۔ 
سترہ جون والے واقعے نے جہاں حکومت کی انتظامی ساکھ پر سوالیہ نشان اٹھائے ہیں‘ وہیں بہت سارے لکھنے اور بولنے والوں کو اپنی چرب زبانی اور تحریری لاٹھی چارج کا سنہرا موقع بھی فراہم کیا ہے اور دبائو میں آئی ہوئی حکومت کو مزید رگڑا لگانے کی سہولت بھی عطا کی ہے۔ اس میں کچھ کلام نہیں کہ تھوڑی سی سمجھداری اس معاملے کو یہاں تک پہنچانے سے روک سکتی تھی مگر حقیقت یہ ہے کہ فی الوقت سسٹم میں اس امر کی گنجائش ہی ختم کردی گئی ہے کہ ایسے معاملات کو ''سمجھداری‘‘ سے نپٹایا جا سکے۔ دو دو چار چار سال کی سروس رکھنے والے نیم تربیت یافتہ نئے آنے ولے پولیس افسران کی ایسے مواقع پر مسلسل ناکامی نے جو سنجیدہ سوالات اٹھائے ہیں ہم ان کی اصل وجوہ پر غور کرنے اور انہیں مستقل طور پر حل کرنے کی بجائے ہر واقعے کو ایک واقعہ سمجھ کر درگزر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور خرابی ہے کہ کم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی ہے۔ ماڈل ٹائون لاہور میں دس گیارہ افراد کی ہلاکت کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ کسی مہذب معاشرے میں ایسا ہوتا تو زمین آسمان ایک کردیا گیا ہوتا۔ آئندہ کے لیے ایسے کسی بھی واقعے کا امکان ہی ختم کردیا جاتا مگر ہمارے ہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ 
سولہ جون کو لاء اینڈ آرڈر کمیٹی کی میٹنگ میں‘ جس کی صدارت رانا ثناء اللہ کر رہے تھے‘ کمشنر لاہور نے ماڈل ٹائون میں ادارہ منہاج القرآن اور طاہر القادری کے گھر کے نزدیک سات بیریئرز کی نشاندہی کر کے انہیں ہٹانے کے بارے میں پوچھا۔ رانا ثناء اللہ نے اس کی اجازت دی؛ تاہم یہ بھی کہا کہ کوئی گڑبڑ نہ ہو اور اس معاملے کو آرام سے سلجھایا جائے۔ پھر کیا ہوا؟ اس بارے کسی کو بھی کچھ پتہ نہیں۔ ہر شخص کہتاہے کہ اسے تبھی پتہ چلا‘ جب خرابی عروج پر پہنچ چکی تھی۔ وزیراعلیٰ کو صبح نو بجے کے قریب ٹی وی دیکھ کر پتہ چلا کہ ماڈل ٹائون میں کیا ہو رہا ہے۔ نو بج کر انیس منٹ پر ان کا رابطہ اپنے سیکرٹری ڈاکٹر توقیر شاہ سے ہوا اور انہوں نے ہدایت کی کہ اس معاملے کو دیکھیں اور پولیس کو "Disengage" (ہٹائیں‘ علیحدہ کریں) کریں۔ ڈاکٹر توقیر شاہ نے یہی پیغام فوری طور پر چیف سیکرٹری اور وزیر قانون رانا ثناء اللہ کو پہنچا دیا۔ اس دوران چیف سیکرٹری کا فون آیا اور اس نے بتایا کہ پیغام آگے دے دیا گیا ہے۔ دس پندرہ منٹ میں معاملہ ٹھیک ہو جائے گا (یہ بات چیف سیکرٹری نے سی سی پی او اور ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر سے بات کرنے کے بعد ان کے حوالے سے کی)۔ اسی دوران وزیراعلیٰ گورنر ہائوس میں چیف جسٹس پنجاب کی تقریب حلف برداری میں چلے گئے۔ وہاں سے فارغ ہو کر دوبارہ صورتحال کی خرابی دیکھ کر ڈاکٹر توقیر شاہ سے بات کی۔ توقیر شاہ نے دوبارہ چیف سیکرٹری سے بات کی تو پھر وہی جواب ملا کہ بس دس منٹ میں حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ حالات ٹھیک خاک ہوتے۔ دس قیمتی جانیں رزق خاک ہو گئیں۔ پولیس اس معاملے کو ہینڈل کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو گئی۔ ایسے معاملات پولیس ہینڈل کر ہی نہیں سکتی۔ منہاج القرآن کے طلبہ‘ ورکرز اور طاہرالقادری کے ملازمین کی طرف سے پتھرائو‘ فائرنگ‘ مزاحمت اور ایسی سب باتیں اگر حقیقت بھی ہیں تو اسے جواز نہیں بنایا جا سکتا۔ معاملہ یہاں تک بڑھنے سے پہلے قابو کیا جا سکتا تھا۔ 
انگریز نے جب برصغیر میں پولیس کا نظام بنایا تو اس سانڈ کو کنٹرول کرنے کے لیے مجسٹریٹی نظام وضع کیا اور سیشن جج کو اس پر چیک بنا کر بٹھایا۔ ایسے مواقع پر جو ضابطہ بنایا وہ یہ تھا کہ اگر حالات قابو سے باہر ہو جائیں اور مجبوراً گولی چلانا پڑے تو اس کا حکم وہاں موجود سینئر ترین افسر دے گا۔ اگر وہاں مجسٹریٹ موجود ہو تو وہ سینئر ترین افسر تصور ہوگا (خواہ وہ وہاں موجود پولیس افسر سے کہیں جونیئر ہی کیوں نہ ہو)۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ضلعی انتظامیہ کا جو نیا تصور پیش کیا گیا اور اس "Devolution" کے نظریے پر جو انتظامی ڈھانچہ کھڑا کیا گیا وہ مجسٹریٹ کے بغیر تھا۔ لاء اینڈ آرڈر کی خرابی کی صورت میں معاملات کس نے دیکھنے ہیں‘ اس کا کوئی واضح تصور ہی ختم ہو گیا۔ معاملات ضلعی ناظم‘ ڈی سی او اور ڈی پی او کے درمیان اپنی موت آپ مر گئے۔ ضلعی ناظم سیاسی تھا لہٰذا اس سے کسی قسم کا انتظامی فیصلہ عبث تھا۔ ڈی پی او پستول بردار تھا اور اس سے کسی بھلے فیصلے کی توقع خام تھی۔ ڈی سی او جو پہلے ڈپٹی کمشنر کہلاتا تھا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بھی ہوتا تھا۔ اب اپنے مجسٹریٹی اختیارات کے بغیر ایسا انتظامی افسر بن گیا جو حقیقی طور پر بے دست و پا تھا۔ کاغذوں میں یہ اختیارات ضلعی ناظم کے پاس تھے جو عموماً وقت پر میسر ہی نہیں ہوتے تھے اور ووٹ کے چکروں میں کوئی انتظامی ایکشن لینے سے پرہیز کرتے تھے۔ اب خیر سے وہ تہمت بھی رخصت ہو چکی ہے۔ ضلعی ناظم ہیں نہیں‘ ڈی سی او کے پاس مجسٹریٹ کے اختیار نہیں۔ سارا معاملہ پولیس کے کندھوں پر ہے اور پولیس کے کندھے یہ بوجھ اٹھانے سے قاصر ہیں۔ ایسے میں وہی کچھ ہونا تھا جو ماڈل ٹائون میں ہوا۔ (جاری) 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved