تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     13-07-2014

زندگی بھی لوڈشیڈنگ ہو گئی

وہ زمانے تو ماضی بعید ہوگئے‘ جب ہمارے گھروں میں بجلی آیا کرتی تھی۔ ہم دس بارہ سال کے بچوں کو بتاتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں بجلی دن رات آیا کرتی تھی‘ تو انہیں یقین نہیں آتا۔ وہ مختلف طریقوں سے پوچھتے ہیں ''کیا دن رات ہی آتی رہتی تھی؟ کچھ دیر تو بند ہوتی ہو گی۔ ‘‘ ہم بتاتے ہیں کہ تیز آندھی یا بارش کے دوران کبھی کبھار‘ کہیں کہیں بند ہوا کرتی لیکن اسے جلد ہی ٹھیک کر دیا جاتا تھا۔سولہ ستر برس کے نوجوانوںکی پرانی یادیں ‘ لوڈشیڈنگ سے وابستہ ہیں۔ چار پانچ سال کی عمر تک تو‘ان باتوں کا پتہ ہی نہیں چلتا اور جب وہ آٹھ دس سال کے ہوئے ‘ تو لوڈشیڈنگ شروع ہو گئی۔ اب انہیں بجلی کا نظام صرف لوڈشیڈنگ کے ذریعے ہی سمجھایا جا سکتا ہے۔ یہ ماننا ان کے لئے مشکل ہے کہ کبھی بجلی ہر وقت آیا کرتی تھی۔ جب لوڈشیڈنگ شروع ہوئی‘ تو اس کے اوقات معین ہوتے تھے۔ پہلے ہر 3 گھنٹوں میں 2 گھنٹے بجلی رہتی اور ایک گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہوا کرتی۔ ہوتے ہوتے ''ایک گھنٹہ بجلی‘ ایک گھنٹہ لوڈشیڈنگ‘‘ کا نظام قائم ہوا‘ جو برسوں چلا۔ صدر زرداری کے زمانے میں ''گھنٹہ بجلی‘ گھنٹہ اندھیرے‘‘کا سسٹم باقاعدگی سے چلتا رہا۔ ہمیں بھی اس کی عادت ہو گئی۔ سب نے اپنے اپنے کام کے شیڈول اسی نسبت سے بنا لئے۔ طالب علموں نے اپنے لئے‘ ملازمت پیشہ لوگوں نے اپنے لئے اور دکانداروں نے اپنے لئے۔ اس کا مطلب 12 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ تھا‘ جو اس زمانے میں بہت برا لگتا۔ لیکن وہ عادت کا حصہ بننے لگا۔ لوگوں نے ہر گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کے بعد‘ ایک گھنٹے کی بجلی میں کام کاج کو تقسیم کر لیا تھا۔ لیکن موجودہ حکومت نے تو سارے ریکارڈ ہی توڑ دیئے۔ 
انتخابات سے پہلے ہر گھنٹے بجلی آ جایا کرتی تھی۔ نئی حکومت بنتے ہی یہ سسٹم ختم ہو گیا۔ اب بجلی خیرات کی طرح ملتی ہے۔ حکومت کا جی چاہے‘ تو 4 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کے بعد بجلی آتی ہے۔ نہ چاہے‘ تو چھ سات گھنٹے بلکہ دس گھنٹے مسلسل لوڈشیڈنگ رہتی ہے۔ وہ زمانہ بھی پرانی یادوں کا حصہ بن گیا‘ جب لوڈشیڈنگ کے شیڈول ہوا کرتے تھے۔ اب کسی کو پتہ نہیں ہوتا کہ کب بجلی جائے گی اور کب آئے گی؟ ہم سب تقسیم کار کمپنیوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ کئی کئی گھنٹوں کے بعد بجلی آتی بھی ہے‘ تو یوں کہ ''ہرچند کہیں کہ ہے نہیں ہے۔‘‘مجھے علم نہیں کہ وولٹیج کم کرنے سے حکومت کو بچت ہوتی ہے یا نہیں؟ لیکن لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ آدھی بجلی بھیج کر‘ آدھی بچائی جا رہی ہے۔ لیکن جو آدھی بجلی آتی ہے‘ اس کا کوئی کیا کرے؟ اس میں تو پنکھا بھی پوری طرح نہیں چلتا۔ ٹیلیویژن پر آدھی تصویر آتی ہے۔ بلب کی روشنی بھی آدھی رہ جاتی ہے۔ شاید ہی کوئی مشین ہو‘ جو آدھی بجلی میں چلائی جا سکتی ہو۔ لیکن کھاتے میں آ جاتا ہے کہ اتنا وقت بجلی فراہم کی گئی۔ حقیقت میں یہ لوڈشیڈنگ سے بھی بدتر ہوتی ہے۔ عملاً لوگوں کو کئی کئی دن لوڈشیڈنگ بھگتنا پڑتی ہے۔ کسی دوسری پارٹی کی حکومت ہوتی‘ تو ن لیگ کے لیڈر‘ عوام کی قیادت کرتے ہوئے جلوس نکالتے۔ واپڈا کے دفتر جلاتے۔ تقسیم کار کمپنیوں کے عہدیداروں اور افسروں کی پٹائی کرتے۔ لیکن عوام کی قسمت کہ آج وہی ن لیگ حکمران ہے۔ مظاہروں کی قیادت کے لئے لیڈر نہیں مل رہے۔ جو باضابطہ اپوزیشن ہے‘ وہ بے ضابطہ شریک اقتدار ہے۔ خورشید شاہ قائد حزب اختلاف ضرور بنا دیئے گئے ہیں۔ مگر انہیں سمجھ نہیں آتی کہ اپوزیشن کیسے کریں؟ ہر معاملے میں اوپر سے ہدایت آ جاتی ہے کہ حکومت کی مدد کرو۔ شاہ جی مشکل سے کوئی لاوارث اور غریب سا مسئلہ تلاش کر کے‘ مخالفانہ بیان جاری کر دیتے ہیں۔ تا کہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ 
میاں برادران کی کوشش سے‘ دو نئے لیڈروں کو سر اٹھانے کے بہت اچھے مواقع ہاتھ آئے۔ انہیں افرادی قوت بھی دستیاب ہونے لگی۔ اس قوت کا استعمال ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا۔ ڈاکٹرطاہرالقادری کی خوش قسمتی ہے کہ انہیںہزاروں کی تعداد میں‘ روبوٹ تیار کرنے کے مواقع اور وسائل دستیاب ہو گئے۔ وہ جہاں چاہیں‘ جلوس نکال سکتے ہیں۔ جلسہ کر سکتے ہیں۔ دھرنا دلوا سکتے ہیں۔ ان کے سامنے گھنٹوں تقاریر کر سکتے ہیں۔ مگر ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ اس طاقت کا استعمال کب‘ کیسے اور کہاں کریں؟ ان کے راستے میں پہلی رکاوٹ تو وقت ہے۔ وہ پاکستان میں صرف گرمی کا موسم گزار سکتے ہیں۔ سردی شروع ہوتے ہی انہیں واپس جانا پڑتا ہے۔ وہ پورے سال کے لئے کوئی سیاسی پروگرام نہیں بنا سکتے۔ حکومت ان کی مجبوری سمجھ چکی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے لئے وہ بھی 6مہینے کابندوبست کر لیتی ہے۔ اس مختصر سے عرصے میں‘ وہ زیادہ سے زیادہ دو تحریکیں چلا سکتے ہیں۔ ان کی تحریکیں ہومیوپیتھک ہوتی ہیں۔ گزشتہ ایک سال سے انقلاب کا نعرہ لگا رہے ہیں‘ جو درفنطنی کی طرح ہمہ معنی لفظ ہے۔ عباس اطہر جب ''مساوات‘‘ کے نیوزایڈیٹر تھے‘ تو میاں محمد طفیل اور ان کی طرز کے دوسرے لیڈروں کے محیرالعقول بیانات پر سرخی لگاتے ہوئے‘ اس لفظ کا استعمال ضرور کرتے۔ مثلاً فلاں کی درفنطنی۔ آج کی درفنطنی۔ سیاسی درفنطنی۔ غیرسیاسی درفنطنی۔ میں بھی ان دنوں ''مساوات‘‘ میں لکھتا تھا۔ جب درفنطنی کے بارے میں سوالات شروع ہوئے‘ تو میں نے ایک شعر میں جواب دیا تھا۔
پوچھتے ہیں لوگ یہ درفنطنی کیا چیز ہے؟
یہ سوال اپنی جگہ پر بھی ہے ایک درفنطنی
ڈاکٹر صاحب کا انقلاب بھی ایک درفنطنی ہے۔ جس کا جو دل چاہے‘ سمجھ لے۔ اس طرح کے نعروں میں نقصان تو کچھ نہیں ہوتا۔ فائدہ بھی نہیں ہوتا۔ یہی درفنطنی ہے۔ دردناک درفنطنی یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے 14شیدائی‘ پولیس کی گولیوں سے شہید ہو گئے اور 80 کے قریب گولیاں لگنے سے زخمی۔ ایوب خان کی حکومت میں راولپنڈی کا ایک طالب علم‘ پولیس کی گولی سے ہلاک ہو گیا‘ بھٹو صاحب نے اسی پر احتجاجی تحریک کو اتنا تیز کر دیا کہ ایوب خان کو استعفیٰ دیتے ہی بنی۔ ڈاکٹر صاحب کو 14شہیدوں کی لاشیں دے دی گئیں اور ان کی سمجھ میں اب تک نہیں آ رہا کہ وہ ان کے زور پہ تحریک کیسے چلائیں؟ نوازشریف نے پرانے زمانے کے شریر سیاسی لڑکے‘ کابینہ میں لے رکھے ہیں۔ وہ روزانہ‘ ڈاکٹر صاحب پر کوئی نہ کوئی درفنطنی پھینک دیتے ہیں۔ اپوزیشن کو ڈاکٹر صاحب نے لارے لپے میں لگا رکھا ہے۔ اس کے بیشتر لیڈر‘ ڈاکٹر صاحب سے اللہ جانے کیا کیا امیدیں لگا کر بیٹھے ہیں؟ مگر ڈاکٹر صاحب ہر ملاقات میں‘ انہیں نئی درفنطنی دے کر‘ واپس بھیج دیتے ہیں۔ پلہ نہیں پکڑاتے۔ پلہ رکھتے بھی نہیں۔ پلے سے وہی کام لیتے ہیں‘ جیسے ''پلہ مار کے بجھا گئی دیوا۔‘‘ نظریاتی طور پر‘ ان کے پلے کچھ ہے بھی نہیں۔ انقلاب انقلاب کا ورد کرتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے‘ درفنطنی۔
نوازشریف کے موجودہ ایک سالہ دوراقتدار میں‘ بھرپور عوامی مقبولیت کا مظاہرہ کرنے والے لیڈر‘ عمران خان ہیں۔ وہ اپنی طاقت کابرمحل استعمال نہیںکرتے۔ جب احتجاج کا موقع آتا ہے‘ تو گنوا بیٹھتے ہیں۔ موقع مڑ مڑ کے انہیں دیکھتا ہوا آگے نکل جاتا ہے اور جب ایکشن میں آنے کا فیصلہ کرتے ہیں‘ تو موقع غلط نکل آتا ہے۔ جیسے انتخابات میں ان کے ساتھ دھاندلی ہوئی‘ تو انہوں نے کہا کہ میں نتائج تسلیم کرتا ہوں‘ دھاندلی تسلیم نہیں کروں گا۔جب احتجاج کا موقع تھا‘ تو وہ الیکشن ٹریبونل اور عدالتوں میں جدوجہد کرتے رہے۔ ایک سال حکومت چل جانے کے‘ بعدانہوں نے احتجاج کا فیصلہ کیا‘ تو تاریخ 14 اگست چن لی۔ یہ پاکستان کا یوم آزادی ہے۔ حکومت نے اسی دن‘ اسی جگہ پر یوم آزادی کی تقریبات کا اعلان کر دیا۔ اب انہیںمسئلہ یہ درپیش ہے کہ یوم آزادی کی تقریبات کے مقابلے میں‘ احتجاجی دھرنا یا جلسہ کیسے کریں؟ اندھیروں میں ڈوبے ہوئے بے بس عوام‘ روشنی کے لئے دیکھیں‘ تو کس کی طرف دیکھیں؟ اپوزیشن ہے تو وہ قومی اسمبلی میں ملی ہوئی پوزیشن پر مطمئن ہے۔ڈاکٹر طاہرالقادری کو بڑی تعداد میں‘ اپنے پیروکاروں کی طاقت نصیب ہوئی‘ تو ان کے پاس درفنطنی کے سوا کچھ نہیں اور عمران خان ہیں ‘تو وہ ہمیشہ موقعے کی تلاش میں نکل جاتے ہیں اور موقع آتا ہے‘ تو اسے عمران خان نہیں ملتے۔ عوام اندھیرے دور کرنے کے لئے‘ کس کی طرف دیکھیں؟لوڈشیڈنگ ختم ہونے کی امید دوردور تک نظر نہیں آ رہی۔ بجلی کا کاروبار اتنا نفع بخش ہو چکا ہے کہ لوگوں کو حکومت بھی اس کے مقابلے میں ہیچ نظر آتی ہے۔ ساری حکومت سے ہونے والی کمائی ایک طرف اور بجلی کی کمائی ایک طرف۔ دنیا میں کسی ملک کے عوام کو اتنی مہنگی بجلی نہیں خریدنا پڑتی‘ جتنی مہنگی ہم لوڈشیڈنگ خریدنے پر مجبور ہیں۔ امید کا چراغ تو کیا؟ زیرو کا بلب تک روشن نہیں ہو سکتا۔ بجلی ہی نہیں‘ تو بلب کہاں سے جلے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved