فارسی کی ضرب المثل یہ ہے : ہرچہ دانا کند، کند ناداں لیک بعد از خرابی بسیار۔ کتنی لاشیں اور گریں گی ،مزید کتنے خاندان برباد ہوں گے کہ کراچی پہ فیصلہ صادر ہوگا؟ کب تک ، جنابِ وزیراعظم کب تک ؟ کب تک جنابِ زرداری ، کب تک ؟
کتنی آہوں سے کلیجہ ترا ٹھنڈا ہو گا
کتنے آنسو تیرے صحرائوں کو گلزار کریں
کراچی لاہور موٹر وے، بسوں کے ایک منصوبے اور مزید پانی کا اعلان کر کے وزیراعظم لوٹ آئے ۔دو کروڑ شہریوں کا بنیادی مسئلہ کیا ہے ؟ سب جانتے ہیں کہ امن و امان!میاں صاحب کی خوش نیّتی کے باوجود کیا پیش رفت کی امید کی جا سکتی ہے ؟ وزیرِ اعلیٰ کی بجائے، مزاحیہ اداکار جنہیں فرعون کا ہم عصر کہتے ہیں ،کیا انہیں آصف علی زرداری صاحب سے بات نہ کرنی چاہیے تھی ؟ کیا انہیں اصرار نہ کرنا چاہیے تھا کہ کراچی میں بہترین پولیس افسروں کے تقرر کی ضرورت ہے اوراس ادارے کی تطہیر لازم ہے ۔ 1995ء کے ڈاکٹر شعیب سڈل کی طرح، کراچی کو اب کوئی ذوالفقار چیمہ درکار ہے ۔ حیرت انگیز طور پر انہوں نے اس جماعت کو مرکز میں اقتدار کی پیشکش کی، جو پہلے ہی صوبائی حکومت میں شامل ہے ۔جو عدالت کے مطابق بھتہ خوری کی مرتکب پارٹیوں میں سے ایک ہے ۔ میاں محمد نواز شریف نے وزیرِ اعلیٰ قائم علی شاہ کو تاکید کی کہ دہشت گردوں کا کوڑے کرکٹ کی طرح صفایا کر دیا جائے۔ انسانی لہو پر پلنے والے درندے کوڑا کرکٹ نہیں ہوتے ۔ طاقت کے سوا وہ کوئی زبان نہیں سمجھتے ۔ آدم خور چیتا، چڑیا گھر کے شیر سے مختلف ہوتاہے ۔
وزیرستان پر مذاکرات کا نتیجہ کیا نکلا؟ سامنے کا اصول یہ ہے کہ مجرم کو خوف زدہ کرنا ہوتاہے ۔ جب تک وہ ہراساں نہ کر دیا جائے، ہتھیار نہیں ڈالتا۔ اندیشہ تھا کہ وزیرستان کا ردّعمل بڑے شہروں میں ہو گا۔ اب تک ایسا کیوں نہ ہو سکا ؟ اس لیے کہ وہ بکھر گئے اور خوف میں مبتلا ہیں۔ جون 1995ء کے کراچی میں ، محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت میں ،کراچی میں ایسا ہی ہواتھا۔ سات ہفتوں کے بعد ڈبل سواری پر پابندی ہٹا لی گئی تھی ۔ سات ماہ میں شہر مکمل طور پہ پرامن تھا۔ اس کے بعد جناب نواز شریف آئے ۔ ریاست نے مرنے والوں کے ورثا کو ''تاوان‘‘ ادا کیااور پولیس افسر قتل کیے جانے لگے ۔ خاک نشینوں کا لہو رزقِ خاک ہوا۔آج تک کسی حکومت نے جاننے کی کوشش نہیں کی کہ قاتل کون تھے ۔ امن اس طرح قائم نہیں ہوتا۔
تیسری بار وزیراعظم بننے اور پانچ بار پنجاب پر حکومت کرنے والے میاں محمد نواز شریف یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں ۔ قوّتِ فیصلہ مگر بازار میں نہیں بکتی ۔ پنجابی محاورے کے مطابق سونے والے کو جگایا جا سکتاہے مگر جاگتے کو نہیں ۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران کراچی پولیس کے 91اہلکار شہید ہوئے۔ صرف اس لیے نہیں کہ مجرم منہ زور ہیں ۔ یا للعجب، بلکہ اس لیے کہ بلٹ پروف جیکٹس مہیا نہیں ۔ کیوں نہیں ؟ بار بار یہ سوال اٹھایا گیا۔ وزیراعظم کی صدارت میں گزشتہ روز کراچی کے اجلاسوں میں بھی ۔ کوئی جواب نہیں دیتا۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت المناک حد تک غیر ذمہ دار ہی نہیں بلکہ پرلے درجے کی بے حس ہے ۔ ایک برس بیت چکا اور یہ معاملہ سرخ فیتے میں بندھا ہے ۔ معلوم نہیں اور کتنے ماہ لگیں گے... تو کیا دہشت گردوں سے درخواست کی جائے کہ فی الحال وہ پولیس کو ہدف نہ بنائیں تا آنکہ جیکٹس خرید لی جائیں ؟
ایک آدھ نہیں ، رینجرز اور پولیس کے کئی افسروں نے اس اخبار نویس سے کہا کہ سندھ حکومت حل نہیں بلکہ مسئلے کا حصہ ہے۔ کراچی میں ڈھنگ کے پولیس افسر وہ مقرر نہیں ہونے دیتے ۔ ضروری سامان کی خریداری میں بھی کرپشن کا ارتکاب۔ عدلیہ ؟ اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا، جب ایک افسر نے بتایا کہ دہشت گردی کے دس ہزار سے زیادہ مقدمات عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں۔ ''دس ہزار؟‘‘ مجھے یقین نہ آیا۔ اس نے کہا ''تقریباً بارہ ہزار جنابِ والا‘‘ اوّل تو پولیس ڈھنگ سے تفتیش ہی نہیں کرتی۔ پھر عدالت ان کی مانتی ہی نہیں ۔ میرے اس جملے پر وہ آزردہ تھا کہ رینجرز ناکام رہے ۔ دردمند آدمی نے کہا : پچھلے سال اوسطاً نو افراد روزانہ ٹارگٹ کلنگ کاشکار ہو اکرتے ، اب تقریباً ایک تہائی ۔ صوبائی حکومت کے عدم تعاون کے باوجود۔ پھر اس نے سوال کیا: لیاری میں گینگ وار کیا ختم نہیں ہوگئی ؟ کیا وہاں بھتہ خوری میں اسّی فیصد کمی نہیں آئی ؟ کیا یہ سب کچھ خود بخود ہوا ؟ انہوں نے اعتراف کیا کہ اغوا برائے تاوان کا سلسلہ پھر سے چل نکلا ہے مگر یہ کہا : سالِ گزشتہ کے اوائل میں قابو پا لیا گیا تھا۔ جب شاہد حیات ایسے پولیس افسر کو ہٹا دیا جائے گا تو اس کے سوا کیا ہوگا؟ عالم اب یہ ہے کہ حال ہی میں اغوا کی ایک واردات میں مبیّنہ طور پر ایک سینئر پولیس افسر ملوّث ہوا۔
سب جانتے ہیں کہ شہری پولیس رابطہ کمیٹی (سی پی ایل سی ) کا دفتر گورنر ہائوس میں قائم ہے ۔ اس لیے کہ اس کے سربراہ احمد چنائے کا تعلق ایک سیاسی جماعت سے ہے ۔ یہ سوال سپریم کورٹ میں اٹھایا گیا اور اب تک ہوا میں معلق ہے ۔ کیا دنیا کے کسی دوسرے ملک میں یہ تماشا ممکن ہے ؟ مورخ لکھتاہے : امیر المومنین ہارون الرشید کے سامنے ایک کنیز لائی گئی کہ اس کی قیمت ایک لاکھ دینار ہے۔ پوچھا گیا: اس کے ہاتھ میں کون سا ہنر ہے ۔ جواب ملا: ہاتھ میںنہیں، امیر المومنین، اس کے پائوں میں ہنر ہے ۔ گورنر سندھ کے ہاتھ یا پائوں میں کون سا ہنر ہے ؟
میں نے سوال دہرایا :مجرموں کو سزا کیوں نہیں ملتی ؟ سرکاری افسر ہنسا: کراچی کو چھوڑیے، جی ایچ کیو پر حملے کے ملزم کیا انجام کو پہنچے ؟ کیاچار گھنٹے تک اسلام آباد کو یرغمال رکھنے والا سکندر کیفرِ کردار تک پہنچایا گیا؟ پھر اس نے سالِ گزشتہ میں لندن کے فسادات کا حوالہ دیا ، عدالتوں نے جہاں دن رات ایک کردیا، حتیٰ کہ آخری مجرم سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا۔ پھر رنج کے ساتھ انہوں نے کہا : اکیسویں صدی کی دہشت گردی ، سولہویں صدی کی پولیس اور انیسویں صدی کی عدالتیں۔ اس پر خوف زدہ اور ذہنی طور پر الجھے ہوئے بعض اخبار نویس ، جو طاقتوروں سے ڈرتے اور ان پہ دھاڑتے ہیں ، جو اپنا موقف بھی کھلے عام پیش نہیں کر سکتے... جنرل ظہیر الاسلام کا چہرہ پسِ منظر سے ابھرنے لگا۔
آزادی ء صحافت زندہ باد! ''سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل سے پوچھیے‘‘ ایک دوسرے افسر نے کہا ''کیا مقدمات کی سست رفتاری پر کبھی انہوں نے سندھ کے چیف جسٹس سے ملاقات کی ہے؟‘‘ بہار کے سابق وزیرِ اعلیٰ نتیش کمار یاد آئے، اقتدار سنبھالنے ہی جنہوں نے یقینی بنایا کہ عدالتیںتیز رفتاری سے سماعت کریں ۔ پولیس افسر بہرحال سماعت پر پیش ہوں ۔ 20کروڑ آبادی کے صوبے میں عشروں کی غنڈہ گردی ختم ہو گئی ۔ سات برس میں ریاست کا بجٹ 4000کروڑ سے28000 کروڑ ہو گیا۔ امن و امان کی بہتری سے معیشت میں نمو اور خوشحالی کی تاریخ ساز مثال۔
فارسی کی ضرب المثل یہ ہے : ہر چہ دانا کند، کند ناداں‘ لیک بعد از خرابیِ بسیار۔ کتنی لاشیں اور گریں گی ،مزید کتنے خاندان برباد ہوں گے کہ کراچی پہ فیصلہ صادر ہوگا؟ کب تک ، جنابِ وزیراعظم کب تک ؟ کب تک جنابِ زرداری ، کب تک ؟
کتنی آہوں سے کلیجہ ترا ٹھنڈا ہو گا
کتنے آنسو تیرے صحرائوں کو گلزار کریں