گیارہ جولائی کو ملک کے بڑے اخبارات میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ایک رپورٹ ''معیشت پانچ سال بعد راستے پر‘‘ کی سرخی کے ساتھ شائع کی گئی۔ اس رپورٹ میں اسٹیٹ بینک کی افسر شاہی نے موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کے قصیدے پڑھتے ہوئے بتایا ہے کہ 2013-14ء میں معیشت کی شرح نمو پچھلے پانچ سال کی بلند ترین سطح یعنی 4.1 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ رپورٹ کا سرسری سا جائزہ بھی اس میں پیش کئے گئے یک طرفہ اور ادھورے تجزیے کو واضح کر دیتا ہے۔ سرمایہ دارانہ معیاروں کے مطابق معیشت کی اس ''ترقی‘‘ کی حیثیت مجموعی معاشی زوال میں ایک عارضی بریک سے زیادہ نہیں ہے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق معاشی شرح نمو میں اضافے کی وجوہ حکومت کی کاروبار دوست پالیسیاں اور بیرونی ذرائع سے حاصل ہونے والی ہارڈ کرنسی ہے۔ ان بیرونی ذرائع میں 3Gاور 4G لائسنس کی نیلامی، یورو بانڈز کے اجرا سے حاصل ہونے والی آمدن اور عالمی مالیاتی اداروں سے ملنے والے قرضے شامل ہیں۔ آمدن کے یہ ذرائع، جن کی بنیاد پر معاشی ترقی کے ڈھول بجائے جارہے ہیں، دراصل ''معیشت کے سٹیرائیڈز‘‘ ہیں۔ میڈیکل سائنس سے معمولی سی واقفیت رکھنے والے افراد بخوبی جانتے ہیں کہ مصنوعی طاقت اور فوری علاج کے لئے استعمال کئے جانے والے سٹیرائیڈز کے دوررس اثرات کتنے مہلک ہوتے ہیں۔ ہر دیانتدار اور سمجھدار ڈاکٹر کی کوشش ہوتی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اس طریقہ کار سے پرہیز کیا جائے۔ سٹیرائیڈز عام طور پر لاعلاج بیماریوں میں مبتلا قریب المرگ افراد کو ایسے حالات میں دیے جاتے ہیں جب دوسرا کوئی راستہ باقی نہ بچے۔ پاکستان کی معیشت بھی ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہے۔
سرمایہ دارانہ سماج میں کسی بھی ملک میں ایک نہیں دو معیشتیں ہوتی ہیں۔ ایک حکمران طبقے کی معیشت ہوتی ہے جس کے اعداد و شمار اور اشاریے(Indicators) دن رات ذرائع ابلاغ پر پیش کئے جاتے ہیں۔ دوسری معیشت کا تعلق محنت کش عوام سے ہوتا ہے ۔۔۔۔ آبادی کی وسیع اکثریت کو دو وقت کی روٹی بھی میسر ہے یا نہیں؟ حکمرانوں کی معیشت اس قسم کے سوالات سے بالکل لاتعلق نظر آتی ہے۔ حکمران طبقے کے معیشت دانوں اور دانشوروں کے لئے سٹاک ایکسچینج کے جوئے اور سٹے بازی کا اتار چڑھائو کروڑوں محنت کشوں کی زندگیوں سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی ترقی اور صحت مندی کے ادوار میں ان دونوں معیشتوں کی تفریق بڑی حد تک ماند پڑ جاتی ہے ، لیکن پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک کی سرمایہ داری 2008ء کے بعد سے فالج کی جس کیفیت میں مبتلا ہے اس میں نہ صرف حاکم اور محکوم طبقات کی معیشتوں کی خلیج بڑھتی جارہی ہے بلکہ بعض اوقات تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے باہمی رابطے بالکل ہی ٹوٹ چکے ہیں۔
''جی ڈی پی کی شرح نمو‘‘ جدید دور کی سب سے بڑی معاشی شعبدہ بازی ہے۔عوام کے سامنے جی ڈی پی کے اتار چڑھائو کو زندگی موت کا مسئلہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ معاشی نمو کے اس اشاریے کی گردان صبح، دوپہر ، شام دہرائی تو جاتی ہے لیکن اس کا مطلب عام فہم انداز میں کبھی واضح نہیں کیا جاتا۔ جی ڈی پی یا ''مجموعی داخلی پیداوار‘‘ کسی بھی ملک میں پیدا ہونے والی تمام اجناس اور خدمات کی مارکیٹ ''ویلیو‘‘ یا قیمتوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ جی ڈی پی میں اضافے کو عام طور پر ملکی پیداوار، معاشی سرگرمی اور معیار زندگی میں اضافے کے طور پر پیش کیاجاتا ہے، لیکن ذرا سا غورکرنے پر معلوم ہوجاتا ہے کہ افراط زر اور مہنگائی کے نتیجے میں قیمتوں میں اضافے سے جی ڈی پی کی مقدار میں بھی اضافہ نظر آئے گا۔ عام طور پر ریاستیں ''نومینل جی ڈی پی‘‘ کے اعداد و شمار شائع کرتی ہیں جن کے ذریعے بڑھتی ہوئی مہنگائی کو معاشی ''ترقی‘‘ بنا کر پیش کیا جارہا ہوتا ہے۔ جی ڈی پی میںحقیقی اضافے کا تعین ''نومینل جی ڈی پی‘‘ کو افراط زر کے مطابق 'ایڈجسٹ‘ کر کے کیا جاسکتا ہے لیکن پاکستان جیسے ممالک کی حکومتوں کا پاس اس ''مشکل‘‘ کا حل بھی موجود ہے۔ معیشت کی حقیقی صورت حال کو چھپانے کے لئے ''کنزیومر پرائس انڈیکس‘‘(CPI)میں ہیر پھیر کے ذریعے افراط زر کی شرح سرکاری طور پر کم ظاہر کی جاتی ہے۔ لہٰذا نومینل جی ڈی پی کے اضافے میں سے افراط زر کو حذف کیا جائے تو بھی جی ڈی پی میں اضافہ ہی نظر آتا ہے۔ پاکستان کی معیشت گزشتہ کئی سالوں سے اسی نسخے کے تحت ''ترقی‘‘ کر رہی ہے!
اگر حکومتی اعداد و شمارکو درست فرض کرکے 4.1 فیصد کی شرح نموکا جائزہ لیا جائے تو بھی صورت حال کچھ کم خوفناک نہیں ہے۔ ہندوستان کی شرح نمو کے 4.4 فیصد تک پہنچنے پر ہندوستانی معیشت دانوں کے ساتھ ساتھ سرمایہ دارانہ معیشت کے عالمی ماہرین نے کہرام مچا رکھا ہے۔ صورت حال کو ہنگامی قرار دیا جارہا ہے۔ آبادی میں اضافے کو مد نظر رکھا جائے تو 6سے 7فیصد کی معاشی شرح نمو بھی پاکستان جیسے ممالک میں عوام کے معیار زندگی کی گراوٹ کو روک نہیں سکتی۔ عالمی سطح پر معاشی بُوم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مشرف دور میں شوکت عزیز (جن کا شمار سنجیدہ اور قابل سرمایہ دارانہ معیشت دانوں میں کیا جاسکتا ہے) ملکی معیشت کی شرح نمو کو 7فیصد تک لے گئے تھے لیکن ڈاکٹر فرخ سلیم کی تحقیق کے مطابق اس وقت بھی اوسطاً دس ہزار افراد روزانہ غربت کی لکیر سے نیچے گر رہے تھے۔ آج 4.1 فیصد کی جعلی شرح نمو میں بڑھتی ہوئی غربت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ شرح نمو میں معمولی اضافہ کر کے حکمرانوں نے اپنے تئیں شاید بڑا تیر مار لیا ہو لیکن عوام کی زندگیوں میں اس سے کوئی بہتری آنے والی نہیں ہے۔ 2005ء سے 2012ء تک چین، ہندوستان، روس اور جنوبی افریقہ کی بلند شرح نمو کے باوجود عوام کے معیار زندگی میں گراوٹ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں ''معاشی استحکام‘‘ کی پہلی وجہ حکومت کی ''بزنس فرینڈلی‘‘ پالیسیوں کو قرار دیا گیا ہے۔ ''ری سٹرکچرنگ‘‘ کی طرح ''بزنس فرینڈلی‘‘ کی اصطلاح بھی منافقت کا نچوڑ ہے۔ بزنس فرینڈلی کا اصل مطلب سرمایہ داروں کو لوٹ مار کی کھلی آزادی، ٹیکسوں میں چھوٹ اور محنت کشوں کا ہر ممکن حد تک استحصال کرنے کی ریاستی اجازت ہے۔ سرمایہ دار کا مالیاتی فائدہ ناگزیر طور پر محنت کشوں کی محرومی سے جنم لیتا ہے۔ یہ اس طبقاتی نظام کی معیشت کا بنیادی قانون ہے اور جتنی بھی کوشش کر لی جائے، اس سائنسی حقیقت کو مذہب یا اصلاح پسندی کے لبادوں میں چھپایا نہیں جاسکتا۔ ہر طبقاتی سماج میں سب سے بڑی سماجی، معاشی اور سیاسی کشمکش حکمران اور محروم طبقات کے درمیان ہوتی ہے۔ اس بنیادی تضاد پر جتنے بھی جعلی تضادات، توہمات اور تعصبات تھونپ دئیے جائیں، یہ ختم نہیں ہوسکتا، مٹ نہیں سکتا۔
3Gاور 4Gکے لائسنس فروخت کر کے حاصل ہونے والی آمدن مارفین کے ٹیکے کی طرح زیادہ دیر پا ثابت نہیں ہوگی۔ کرپشن اس ملک میں افسر شاہی کی رگ رگ میں رچی بسی ہوئی ہے۔ لائسنس خریدنے والے اس ملک کی محبت میں مرے جارہے تھے نہ ہی انہیں معیشت کو سہارا دینے کا کوئی شوق ہے۔ سرمایہ کاری کا پہلا اور آخری مقصد منافع ہوتا ہے۔ ایک ارب ڈالر سے کئی گنا زیادہ سرمایہ اسی معیشت سے نچوڑکر باہر منتقل کیا جائے گا۔
پس تحریر: ابھی یہ سطور تحریرکی جارہی تھیں کہ 19جون کو حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کو بھیجا گیا میمورنڈم منظر عام پر آنے سے تمام حکومتی دعووں کا پول کھل گیا۔ میمورنڈم میں حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ2013-14ء میں معیشت کی شرح نمو گزشتہ پانچ سال کی سب سے کم سطح یعنی 3.3فیصد پر رہی۔آئی ایم ایف کے سامنے ''اعتراف جرم‘‘ کرنے والے جمہوری حکمرانوں نے اس کھلے جھوٹ کی کوئی وضاحت عوام کے سامنے تا حال پیش نہیں کی ہے۔ (جاری)