تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     13-07-2014

سانحہ ماڈل ٹائون جس سے کسی نے کچھ نہیں سیکھا… (آخری حصہ)

پنجابی کی ایک کہاوت ہے کہ ''نانی نے خصم کیا‘ برا کیا‘ کر کے چھوڑ دیا‘ اور برا کیا‘‘ ماڈل ٹائون کے ایم بلاک میں منہاج القرآن کے قرب و جوار میں بنے ہوئے بیریئر ہٹانے والا معاملہ بھی ایسا ہی تھا۔ اول تو کسی سلیقے اور طریقے سے ہٹائے جاتے اور اگر ممکن نہ نظر آتا تو مناسب موقع کا انتظار کیا جاتا لیکن ا ب جبکہ ہٹا لیے تھے تو پھر ہٹے رہتے۔ لیکن پہلے یہ کیا کہ درجن بھر لوگوں کی جان سے کھیل کر یہ رکاوٹیں ہٹائیں اور پھر دو دن بعد دوبارہ کھڑی کردیں۔ حکومتیں اور نظام اس طرح من چاہی خواہشات اور فیصلوں کے تابع ہو کر نہیں چلا کرتے۔ مگر ہمارے حکمران قاعدے‘ قانون اور ضابطے کے بجائے محض اپنی خواہشات کے اسیر ہو کر رہ گئے ہیں نتیجہ آپ سب کے سامنے ہے۔ 
ایسے معاملات میں دو صورتیں ہوتی ہیں پہلی حقیقی ذمہ داری اور دوسری اخلاقی ذمہ داری۔ میں نے اس دوران اپنے جاننے والے کچھ ذمہ داران سے اس سارے معاملے پر جانکاری لی۔ یوں کہیں کہ کسی حد تک تحقیق کی اور شرح صدر سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ یہ سب کچھ وزیراعلیٰ کے ذاتی احکامات پر ہوا ہے‘ سراسر غلط اور بے بنیاد الزام ہے۔ شہباز شریف چھوڑیں کوئی بھی شخص ایسا فیصلہ نہیں کر سکتا جس نے حکومت چلانی ہو‘ الیکشن لڑنے ہوں‘ عوام میں جانا ہو اور سیاست کرنی ہو۔ خاص طور پر ان حکمرانوں نے جنہوں نے سیاست کے ساتھ ساتھ کاروبار بھی کرنا ہو۔ اب رہ گئی بات اخلاقی ذمہ داری کی۔ تو یہ میاں شہباز شریف کی سو فیصد ذمہ داری تھی‘ ہے اور رہے گی کہ وہ دس سے زائد انسانی جانوں کے ضیاع پر اول تو مستعفی ہو جاتے ا ور اگر وہ اخلاقیات کے اس مرتبے سے محروم ہیں تو کم از کم اس معاملے کو اس ملک میں دیگر معاملات کی طرح وقت کی دھول تلے دب جانے سے ضرور بچائیں۔ یہ ان کی کم سے کم ذمہ داری ہے اور اس سلسلے میں کسی قسم کی کوتاہی یا ناکامی پر وہ خدا کے ہاں جوابدہ ہوں گے۔ مظلوموں کا ہاتھ ہوگا اور ان کا گریبان۔ 
ڈاکٹر توقیر شاہ کا حلفی بیان اور رانا ثناء اللہ کا بیان حلفی کمیشن کا حصہ بن چکا ہے اور اخبارات میں بھی آ چکا ہے۔ ڈاکٹر توقیر شاہ نے رانا ثناء اللہ کو وزیراعلیٰ کا پیغام دیتے ہوئے انہیں فوری طور پر پولیس کو Disengage کرنے کا کہا۔ رانا ثناء اللہ نے اپنے بیان حلفی میں کہا کہ ڈاکٹر توقیر شاہ نے انہیں اس سلسلے میں وزیراعلیٰ کے Concern (فکر‘ پروا‘ سروکار) سے آگاہ کیا۔ رانا ثناء اللہ نے بطور وزیر قانون اور چیئرمین لاء اینڈ آرڈر کمیٹی اپنی مکمل ناکامی کو الفاظ کے ہیر پھیر سے چھپانے یا کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وزیراعلیٰ پولیس کو Disengage کرنے کا کہہ رہا ہے۔ وزیراعلیٰ کا پرنسپل سیکرٹری یہ پیغام من و عن آگے پہنچا رہا ہے۔ وزیر قانون بھی پولیس کو معاملہ سلجھانے کا کہہ رہا ہے۔ چیف سیکرٹری وزیراعلیٰ کا پیغام موقع پر موجود پولیس افسران تک بروقت پہنچ رہا ہے اور وہ سارا معاملہ دس پندرہ منٹ میں سلجھانے کی یقین دہانی کروا رہے ہیں مگر نتیجہ اس کے بالکل الٹ نکل رہا ہے۔ یہ سب کیا تھا؟ انتظامی ڈھانچے‘ چیف آف کمانڈ اور احکامات کی تکمیل میں ناکامی۔ حکم عدولی‘ نااہلی اور خودسری کی بدترین مثال۔ 
اس واقعے کو ایک سٹیٹ کیس کے طور پر لینا ہوگا۔ بصورت دیگر یہ ملک جو انسانی حقوق اور ا داروں کی کارکردگی کے حوالے سے پہلے ہی رو بہ زوال ہے مکمل طور پر ایک ایسی ریاست بن جائے گی جو ''جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کے اصول پر چلائی جا رہی ہو۔ ویسے تو صورتحال اب بھی تقریباً ایسی ہی ہے مگر ابھی بہت سی خرابیوں پر کچھ نہ کچھ پردہ پڑا ہوا ہے اور تھوڑی سی شرم باقی ہے۔ ایسی صورت میں وہ بھی رخصت ہو جائے گی۔ اور ملک باقاعدہ سرکاری طور پر پولیس سٹیٹ بن جائے گا۔ جس صوبے میں وزیراعلیٰ کا حکم محض دو درمیانی واسطوں کے بعد ردی کی ٹوکری میں چلا جائے اور خودسر پولیس تمام تر بالائی احکامات کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے من مرضی کریں وہاں کا سارا انتظامی ڈھانچہ مرمت نہیں مکمل اوور ہالنگ کا متقاضی ہے۔ 
گورے نے جب برصغیر میں پولیس کا نظام وضع کیا تو اس نے جہاں یہ بات مدنظر رکھی کہ اس نے اس پولیس کے ذریعے اپنی حکومت اور اقتدار کو استحکام دینا ہے وہیں اس نے انسانی نفسیات کو بھی مکمل طور پر اس نظام سے ہم آہنگ رکھا۔ پولیس کو ڈنڈا اور بندوق ضرور پکڑا دی مگر اس کے استعمال کرنے کا حکم سول افسر کے ہاتھ میں دیا۔ یہ انسانی نفسیات ہے کہ اگر آپ کے نیفے میں بھرا ہوا پستول ہے اور کوئی آپ کو گالی دیتا ہے یا تھپڑ مارتا ہے تو آپ پہلے ردعمل کے طور پر یہ پستول نکال لیں گے۔ اسی انسانی کمزوری کو مدنظر رکھتے ہوئے۔ بندوق چلانے کا اختیار بندوق بردار کو دینے کے بجائے تیسرے آدمی یعنی مجسٹریٹ کے سپرد کیا۔ مجسٹریٹ معاملے کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے گفت و شنید کرتا تھا۔ مجمع کے جوش و خروش اور اشتعال کو ٹھنڈا کرنے کی غرض سے دوچار سرکردہ افراد سے مذاکرات کرتا تھا۔ معاملات میں ناکامی پر آنسو گیس پھینکنے کا‘ لاٹھی چارج کا حکم دیتا تھا۔ بدترین صورتحال میں پہلے ہوائی فائرنگ اور مجبوراً گولی چلانے کا حکم دیتا تھا۔ ترتیب یوں ہوتی تھی کہ ڈنڈا بردار پولیس آگے ہوتی تھی اور بندوق بردار فورس سب سے پیچھے ہوتی تھی حتیٰ کہ بدترین حالات میں بھی مجسٹریٹ کے عقب میں۔ آخر میں جا کر گولی چلانے کا حکم ہوتا تھا اور وہ بھی ربڑ کی گولیاں۔ سیدھی نہیں‘ نیچے کی سمت۔ ٹانگوں کی جانب۔ ماڈل ٹائون میں کیا ہوا؟ گولی چلانے کا حکم کس نے دیا؟ ایلیٹ فورس کو کس نے طلب کیا؟ سی سی پی او اور ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر کو کہا جا رہا ہے کہ پولیس کو Disengage کریں۔ وہ جواب دیتے ہیں کہ بس دس پندرہ منٹ میں معاملات ٹھیک ہو جائیں گے اور ہوتا یہ ہے کہ دس گیارہ لوگ جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ وہ کون تھا جس نے پولیس میں یہ اطلاع پہنچائی کہ طاہرالقادری کے گھر کے اندر سے ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں دو پولیس اہلکار جاں بحق ہو گئے ہیں؟ پولیس کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سے باہر ہونے کا یہ واقعہ ایک بدترین آغاز ہے اور اگر اسے ایک سٹیٹ کیس نہ بنایا گیا تو انتظامی ابتری کا متوقع نقشہ ہی بڑا ہولناک ہے۔ 
میں نے ایک سینئر افسر سے کہا کہ کیا اس واقعے کے بعد بھی تحفظ پاکستان آرڈیننس کے مطابق گریڈ پندرہ یا اس کے اوپر والے پولیس افسر کو گولی چلانے کا اختیار دینا بندر کے ہاتھ میں بندوق دینے جیسا معاملہ نہیں ہے؟ وہ افسر کہنے لگا۔ اختیار صرف دہشت گردی اور انتہائی صورتحال میں استعمال کرنے کے بارے میں ہے۔ میں نے پوچھا کہ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ یہ صورتحال کب غیر انتہائی تھی اور کب انتہائی ہو گئی ہے؟ جواب ندارد تھا۔ سانحہ ماڈل ٹائون کے بعد تحفظ پاکستان آرڈیننس کی یہ شق دس سے زائد مقتولین کی لاشوں پر کھڑی ہو کر ہمارا منہ چڑا رہی ہے۔ 
کیا ہم حادثات سے‘ سانحوں سے اور اپنی انتظامی خرابیوں سے کوئی سبق حاصل کر رہے ہیں؟ میرا ذاتی خیال ہے کہ ہمارے ہاں حادثات اور سانحات سے سبق حاصل کرنے کا نہ تو رواج ہے اور نہ ہی مزاج۔ ہمارے ہاں ہر واقعہ یا سانحہ صرف وقتی بیان بازی تک محدود رہتا ہے‘ پھر ہم بھول جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ ہم یہ تک بھول جاتے ہیں کہ اس طرح ہم مستقبل میں ایسے واقعات کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ سترہ جون کو سانحہ ماڈل ٹائون ہوا ہے اور دو جولائی کو ہم نے تحفظ پاکستان آرڈیننس میں گریڈ پندرہ کے ''پولسیے‘‘ کو گولی چلانے کا اختیار دے دیا ہے جو نہ وزیراعلیٰ کی سنتا ہے‘ نہ وزیر قانون کی سنتا ہے‘ نہ وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری کی سنتا ہے اور نہ چیف سیکرٹری کی سنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved