ستر کی دہائی کے آغاز میں جب ذوالفقار علی بھٹو برسراقتدار آئے تو ان محکموں میں ٹریڈ یونینیں بنانے کی اجازت ہوگئی جہاں پہلے ایسوسی ایشن بنانے کی اجازت بھی نہ تھی۔ اسی دور میں ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن جیسے محکموں میں نہ صرف ٹریڈ یونینیں بن گئیں بلکہ آرٹسٹوں نے بھی Artists Equityکے نام سے اپنی ایک تنظیم بنالی جس میں ریڈیو ، ٹی وی کے علاوہ فائن آرٹس اور پرفارمنگ آرٹس کے دیگر شعبوں کے فنکار بھی رکنیت حاصل کرکے اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے تھے۔ اس زمانے میں ریڈیو پاکستان پر ایک انائونسر ہوتے تھے جن کو بکنگ تو بہت کم ملتی تھی مگر ان کی انا بہت بڑی تھی۔ ایک مرتبہ جب Re-auditionمیں یہ خطرہ پیدا ہوا کہ موصوف کو چھانٹی کردیاجائے گا تو انہوں نے سٹیشن ڈائریکٹر تک انتہائی سنجیدگی سے یہ دھمکی پہنچا دی کہ اگر ان کو چھانٹی کردیاگیا تو وہ ریڈیو سٹیشن کے سامنے اپنے آپ کو آگ لگالیں گے۔ اس کے بعد وہ چھانٹی ہونے سے بچ گئے اور پھر اس دھمکی کی وجہ سے دیگر ایسے آرٹسٹوں میں‘ جو بیچارے کام کی تلاش میں دن بھر ریڈیو کی کینٹین میں بیٹھے رہتے تھے‘ یہ انائونسر بہت مقبول ہوگئے۔ چونکہ ایسے بے آسرا فنکاروں کی تعداد بہت زیادہ تھی لہٰذا ہمارے اس انائونسر نے Artists Equityکے ایک عہدے کے لیے الیکشن لڑنے کااعلان کردیا اور اپنی مہم چلانے کے لیے علامہ اقبال کے اس شعر کا انتخاب کیا ؎
جمہوریت اِک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
ہمارے اس انائونسر کی علمی قابلیت کیونکہ کچھ زیادہ نہ تھی لہٰذا وہ بہت سنجیدگی سے سمجھتے تھے کہ علامہ اقبال کے اس شعر میں ان کے دشمنوں کے لیے یہ پیغام پنہاں ہے کہ بھلے بڑے بڑے زور دار اور بھاری بھرکم فنکار ایک طرف ہوں مگر جمہوریت میں تو بس گنتی ہوگی اور چونکہ چھوٹے چھوٹے فنکاروں کی کثیر تعداد ان کے ساتھ ہے لہٰذا جمہوریت کے طرز حکومت میں جیت انہی کی ہوگی۔
جب میں اپنے لیڈران کرام کی یہ گفتگو سنتا ہوں کہ ہمیں ڈیڑھ کروڑ ووٹ ملے ہیں مگر اصل میں ہمیں اس سے کہیں زیادہ ووٹ ڈالے گئے تھے لیکن دھاندلی ہوگئی تو مجھے بھٹو دور کا وہ ریڈیو کا انائونسر بہت یاد آتا ہے جس نے علامہ اقبال کے جمہوریت کی خدمت میں کہے گئے شعر کو ایک مثبت پیغام کے طورپر استعمال کیا تھا۔
پوری دنیا میں جن ممالک میں جمہوریت ایک طرز حکومت کے طور پر کامیابی سے چل رہی ہے وہاں اس طرز حکومت کی بنیاد میں شہری آزادیاں ہیں اور ان آزادیوں کے لیے بنائے گئے مضبوط ادارے ہیں۔ مغربی دنیا میں جمہوری طرز حکومت کے کامیاب نمونے آج اگر موجود ہیں تو وہاں شہری آزادیوں کے لیے جدوجہد کی تاریخ پس منظر میں ہے۔ہمارے ہاں شہری آزادیاں محض ملک کے آئین میں تو درج ہیں لیکن ایسے موثر ادارے ناپید ہیں جو ان آزادیوں کی ضمانت فراہم کرتے ہوں۔جب ہم شہری آزادیوں کی بات کرتے ہیں تو سب سے پہلے غلامی اور جبری مشقت سے آزادی کی بات ہوتی ہے پھر یہ کہ ہر قسم کی اذیت رسانی سے شہریوں کو آزاد ہونا چاہیے۔ اظہار کی آزادی، مذہب، ضمیر، انجمن سازی کی آزادی کے ساتھ ساتھ شہریوں کی قانون کے آگے برابری ہو۔ اسی طرح آگے ایک طویل فہرست ہے لیکن اگر ہم ان بڑی بڑی آزادیوں ہی کا جائزہ لیں تو بہت گمبھیر صورتحال سامنے آتی ہے۔ ٹھیک ہے قرون اولیٰ والی غلامی تو ہمارے ہاں نہیں لیکن آپ اپنے ارد گرد دیکھیں جو آسودہ حال لوگ ہیں انہوں نے کتنے انسانوں کو غلام بناکر رکھا ہوا ہے۔ کیا ہمارے ہاں جبری مشقت نہیں ہے؟ اپنے تھانوں کی طرف دیکھیں اور جائزہ لیں کہ کیا ہمارے شہری اذیت رسانی سے آزاد ہیں؟ ہمارے آئین میں تو یہ سب آزادیاں موجود ہیں مگر کیا کوئی ادارے ہیں جو ان آزادیوں کی ضمانت فراہم کرتے ہوں؟ کیا کوئی ادارہ ہے جوجاگیردار کو اپنے مزارعین کو غلام بنانے سے موثر انداز میں روک سکے یا کوئی ایسا ادارہ ہے جو اذیت رسانی کرنے والے تھانیدار یا سپاہیوں کے خلاف ایسا ایکشن لے کہ دوبارہ کوئی پولیس والا کسی کی چھترول کرنے کی جرأت نہ کرے اور پولیس مقابلے میں ختم کرنے کا سوچے تو اس کو اپنی موت نظر آئے۔
جہاں تک اظہار کی آزادی کا تعلق ہے تو وہ سب جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں کس قدر محدود ہے۔ یعنی بدتمیزی کرنے کی تو ہمیں آزادی ہے مگر طاقتور لوگوں یا حلقوں کے خلاف اظہار رائے کی آزادی بالکل مفقود ہے۔ جو کوئی سمجھتا ہے کہ اس کو اظہار کی آزادی ہے اس کو یا تو درست کردیا جاتا ہے یا پھر ٹھکانے لگادیا جاتا ہے۔ مذہب کی آزادی کا مطلب ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کے عقائد کا دل سے احترام کرنا۔ معروف مبلغ مولانا طارق جمیل دنیا گھومے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جتنا کم ایک دوسرے کے عقائد کا احترام ہمارے ملک میں ہے‘ دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں ہے۔
اس صورتحال میں مذہبی لوگ بھی کوئی ایسا ادارہ نہیں بنا سکے جس کا کہا مختلف عقائد رکھنے والوں کے لیے سند ہو۔ ضمیر کی آزادی کا احوال یہ ہے کہ میں کئی لوگوں کو جانتا ہوں جو رشوت کو واقعتاً حرام سمجھتے ہیں مگر چھوٹے موٹے کام کروانے کے لیے بھی اس ملک میں رشوت دینے پر مجبور ہیں۔ حکومت نے انسداد رشوت ستانی کا جو محکمہ بنایا ہے‘ اُسے مذاق ہی سمجھا جاتا ہے۔
شہری آزادیوں میں سب شہریوں کا قانون کے سامنے برابر ہونا انتہائی اہم ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں صاحب ثروت اور اثرو رسوخ والا شخص قانون کو خرید لیتا ہے اور غریب آدمی کو انصاف حاصل کرنے کے لیے انتہائی کوشش کے باوجود کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ انصاف کے حصول کے جو ادارے ہمارے ہاں قائم ہیں وہ کتنا انصاف دے رہے ہیں اس سے کون واقف نہیں ۔ ہمارے ہاں تحریک بھی چلی تو وہ اعلیٰ عدلیہ کی بحالی کے لیے لیکن نچلی سطح پر جو ظلم و ستم چھوٹی عدالتوں میں ہورہا ہے‘ اس کو ختم کرنے کے لیے کچھ دیکھنے میں نہیں آیا۔
اگر آپ مغربی دنیا کے طرز حکمرانی کا مطالعہ کریں تو مغربی ملکوں میں آپ کو شہری آزادیوں کے لیے ایسے مضبوط ادارے دکھائی دیں گے جن کے پیچھے برسوں کی جدوجہد ہے۔ اوپر میں نے جن آزادیوں کا ذکر کیا ہے وہ کافی موثر طور پر مغربی ملکوں میں موجود ہیں اور ان شہری آزادیوں پر ان کی جمہوریت کی عمارت کھڑی ہے۔
شہری آزادیاں اوران کے لیے موثر ادارے ہی وہ ستون ہیں جن پر جمہوریت کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں شہری آزادیوں کے موثر ادارے تو موجود نہیں‘ جو ہیں وہ برائے نام ہیں جبکہ ہماری جمہوریت بغیر ستونوں کے کھڑی ہے یا کھڑی ہونے کی کوشش کررہی ہے۔ یہ جمہوریت، فوجی حکومت کے بعد اچانک وارد ہوتی ہے اور اس کو سہارا دینے کے لیے چونکہ شہری آزادیوں کے اداروں کے ستون نہیں ہوتے لہٰذا یہ جمہوریت ہمیں ایسے دکھائی دیتی ہے ۔ ع
ہرچند کہیں کہ ہے، نہیں ہے