اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے فرزند ارسلان افتخار عمران خان پہ کتنا کیچڑ اچھالتے ہیں۔ 2013ء کی انتخابی مہم کے دوران ا ور اس سے قبل بھی ،کپتان کے حریف اپنی اپنی حیثیت اور توفیق کے مطابق یہ فریضہ انجام دے چکے ہیں...اور یہ طرزِ سیاست قوم مسترد کر چکی۔ ایسے ہتھکنڈے اور مہمات عمران خان کی حمایت اور ہمدردی میں اضافہ تو کر سکتی ہیں ، کمی نہیں ۔ارسلان افتخار کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ بندے اور خدا کا معاملہ ہے ۔ پختون خوا میں تحریکِ انصاف کی حکومت کا ایک پورا سال گزر چکا۔ اس نوعیت کا کوئی الزام اگر ثابت کیا جاتا کہ اپنی صوبائی حکومت کے بل پر عمران خان دولت کما رہے ہیں تو یہ قابلِ مذمّت اور قابلِ سزا ہوتا لیکن آزاد میڈیا کے اس دور میں ایسی کوئی افواہ تک تو سنی نہیں گئی ۔
زیادہ اہم معاملہ وہ ہے ، روزنامہ دنیا میں جس پر پے درپے کئی کالم شائع ہوئے ۔ارسلان افتخار کا تقرر اور اس کے مضمرات۔ نیشنل پارٹی کے سینئر نائب صدر میر حاصل بزنجو نے ایک ٹی وی پروگرام میں یہ انکشاف کیا کہ افتخار محمد چوہدری نے اس ضمن میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا۔ یہ بات اس لیے بھی قابلِ فہم ہے کہ ایف آئی اے سمیت، مختلف اداروں میںارسلان کی تعیّناتی کے لیے وہ پہلے بھی کردار ادا کرتے رہے ہیں ۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ سابق چیف جسٹس دنیا کے پانچویں بڑے سونے کے ذخائر ریکوڈک سے متعلق از خود نوٹس لیتے اور فیصلے صادر کرتے رہے ۔ اس معاملے کو اگر کھنگالا جائے تو عین ممکن ہے کہ ایک طلسمِ ہوشربا ہمارا منتظر ہو۔
تحریکِ انصاف یہ سمجھتی ہے کہ لانگ مارچ کے ہنگام، ارسلان افتخار کو نون لیگ کی آشیر باد حاصل ہے ۔ ایسا عین ممکن ہے لیکن میری نظر میں پی ٹی آئی کا ردّعمل درست نہیں ۔ وزیراعظم نواز شریف کے خلاف یہ ریفرنس دائر کرنے کی بجائے کہ سزایافتہ ہونے کی بنا پر وہ نا اہل ہو چکے ، اسے مالی معاملات پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے ۔ مثلاً وہ معاملہ، پندرہ سال پہلے جس پر بینکوں کے ایک کنسورشیم سے قرض لیا گیا ۔ رقم لوٹانے میں وہ ناکام رہے ۔تحریکِ انصاف کومعاملہ یہ اٹھانا چاہیے کہ ارسلان کے معاملے پر شعیب سڈل کمیشن کو اپنی پہلی پراگریس رپورٹ پیش کرنے کے فوراً بعد تحلیل کیوں کر دیا گیا۔ یہ کیسا نظامِ انصاف ہے ،
طاقتور اور بارسوخ افراد صاف جس میں بچ نکلتے ہیں ۔
قارئین سیاست پہ بس اتنا ہی ۔ آج رمضان کے حوالے سے میں ایک بہت بڑے موضوع پر لکھنا چاہتا ہوں ۔ ایک بڑے استاد کی رہنمائی بعض اوقات چند لمحات میں اتنا کچھ سکھا دیتی ہے ، تمام عمر کتابیں کھنگال کے بھی جو حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ چند ہفتے قبل پروفیسر احمد رفیق اختر کے سامنے یہ سوال پیش کیا گیا : کیا وجہ ہے کہ خود ترحمی (Self Pitiness)میں انسان لذّت محسوس کرتا ہے ۔ جواب ملا : اس لیے کہ ہر آدمی میں خدا نے خود سے محبت کا جذبہ پیدا کیا ہے ۔
قارئین یہ ایک بہت بڑا راز ہے ۔ خود اپنے آپ سے محبت ہم میں سے ہر شخص کی زندگی کو بری طرح متاثر کرتی ہے ۔ یہ بہت سی جبلتّوں کو تحرک بخشتی ہے ۔ کوئی ہم پہ فقرہ کسے اور سب ہنس پڑیں تو ہم غصے میں آجاتے ہیں ۔ خود سے محبت ہی اس کی اصل وجہ ہے ۔ ہم میں سے بعض اپنی قدّو قامت یا شکل و صورت کے حوالے سے احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ انسان اپنے آپ سے محبت کرتا ہے اور خود میں کوئی کمی یا نقص وہ برداشت کرنے کو تیار نہیں ۔ بعض اوقات ہم اپنی پوری زندگی کسی شخص یا ادارے کے خلاف جذبۂ انتقام اور اسے نقصان پہنچانے کی کوشش میں بسر کر ڈالتے ہیں ۔ بظاہر اس کی وجہ جو بھی ہو، پسِ منظر میں اپنی محبت چھپی ہوتی ہے۔
حبّ جاہ یعنی دوسروں کی نظر میں عزت و عظمت یا ہیرو بننے کا شوق ہر انسان میں کارفرما ہے ۔ کسی میں کم ، کسی میں زیادہ ۔ بعض تو ساری زندگی اسی کوشش میں بسر کر تے ہیں۔کسی کی تحسین بھری نگاہیں چند لمحات میں ہمارے دماغ کو نشے میں مبتلا کر ڈالتی ہیں ۔ اس دوران انسان اعتدال کھودیتا اور ایسے اقدامات اٹھاتا ہے ، جو بالاخر اس کے لیے تباہ کن ثابت ہوتے ہیں ۔ مشہورِ زمانہ گلو بٹ کی وضع قطع اور حرکات و سکنات میں یہ جذبہ بخوبی دیکھا جا سکتاہے ۔ دوسروں کی نگاہ میں مرتبہ حاصل کرنے کی یہ خواہش اس قدر طاقتور ہوتی ہے کہ ہمارا فہم و ادراک اس کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ ایک بہت بڑے استاد کا قول یہ ہے کہ حبّ ِ جاہ وہ آخری بیماری ہے ، جو راہِ سلوک کے مسافر کے دل سے رخصت ہوتی ہے ۔ غور کیجیے تو خود سے محبت ہی اس کا سبب ہے ۔
اپنی بقا کی خواہش (Survival)وہ خوفناک ترین جبلّت ہے ، جو ہر جاندار میں کارفرما ہے ۔ قرآن مجید میں لکھا ہے کہ ہر نفس کو خدا نے نخلِ جان پر پیدا فرمایا ۔ یہی وہ جذبہ ہے ، جو بدترین حالات میں انسان کوخود کشی سے باز رکھتا اور جدوجہد پہ مجبور کرتا ہے ۔ بقا کی یہ یہی جنگ ٹی وی اینکرز کو ریٹنگ کے لیے ہر قسم کے پاپڑ بیلنے پر مجبور کرتی ہے ۔یہی وہ شے ہے ، بجلی اور گیس سے محروم پاکستانیوں کو سخت گرمی میں جو پسینہ بہانے اور اپنا رزق کمانے کا حوصلہ بخشتی ہے ۔ بقا کی خواہش اس قدر طاقتور ہے کہ انسان کجا، عقل سے محروم جانور بھی کروڑوں برس سے اپنی زندگی کی حفاظت کر رہے ہیں ۔ ایک بار پھر غور کیجیے ۔ خود سے محبت ہی بقا کی خواہش کے پسِ منظر میں چھپی ہوئی ہے ۔