کچھ لوگوں کے مطابق یہ تاریخی افطار پارٹی تھی‘ کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ تاریخی اجتماع تھا۔ ایسا کہنے اور لکھنے والے بے شک اپنی جگہ درست ہیں لیکن اگر یہ کہا جائے کہ وطن کی سرحدوں کے ایک ایک انچ کی حفاظت کرنے والی لا الہ الا اﷲ کے نام پر معرض وجود میں آنے والے ملک کی نظریاتی سرحدوں پر نقب لگانے والوں کے خلاف اپنی جانوں کے نذرانے دینے والی فوج کی خدمات اور قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے یہ ایک'' تاریخی سلیوٹ ‘‘تھا تو یہ غلط نہ ہو گا۔ یہ قومی سلیوٹ جسے متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے پاکستان کی مسلح افواج کی ناقابل فراموش خدمات کے اعتراف میں کراچی کے جناح پارک میں قائد اعظم کے مزار مبارک کے سائے میں کھڑے ہو کر دنیا کے سامنے پیش کیا‘ تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے درج ہو کر رہے گا۔ یہ دنیا کی عظیم ترین افطاری اور ایک تاریخی اجتماع تھا جو وطن عزیز کے جوانوں کو مدتوں گرماتا رہے گا۔ وہ وطن عزیز کی افواج کے احترام میں بطور نذرانہ پیش کئے جانے والے ''تاریخی سلیوٹ کے نام سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے یاد رکھا جائے گا۔ الطاف حسین کی سیا ست سے آپ لاکھ اختلاف کریں‘ لیکن ان پر تنقید کرنے والے اگر بھول گئے ہیں تو انہیں یاد کرائے دیتا ہوں کہ چار سال قبل جب بلوچستان میں حالات اس نہج پر پہنچ چکے تھے کہ سکولوں‘ کالجوںاور سرکاری دفاتر میں پاکستان کا قومی ترانہ اور قومی پرچم شجر ممنوعہ بن چکا تھا‘ اس وقت 15 اگست کو لیاری میں پاکستان کے قومی پرچم کی بجائے آزاد بلوچستان کا پرچم ایک تین
منزلہ عمارت کی چھت پر بڑے دھڑلے سے لہرا گیا تھا تو اس وقت جب ہر طرف سیا سی جما عتوں کے پرچموں کو قومی پرچم پر فوقیت دی جا رہی تھی اور پاکستان کی قومیتوں میں پاکستان کے قومی پرچم کا احترام آہستہ آہستہ ختم ہوتا جا رہا تھا تو اس وقت بھی پاکستان کے قومی پرچم کو اس کی حیثیت دلانے کیلئے قوم کے بچوں بوڑھوں کے دلوں میں قومی پرچم کی عظمت بحال کرنے کیلئے‘ قوم میں وطن کے پرچم اور نظریئے کی محبت ثبت کرنے کیلئے اسی شہر قائد میں 30 جنوری کو متحدہ قومی موومنٹ کے پرچم کو پس پشت ڈال کر پاکستان کے قومی پرچم کی محبت اور عقیدت کو عوام کے ذہنوں میں نقش کس نے کیا تھا؟۔ کیا یہ انقلاب نہیں تھاکہ جب بلوچستان اور سندھ کے کچھ علا قوں میں قومی پرچم کے وقار کو نشانہ بنا یا جا رہا تھا‘ الطاف حسین نے لندن میں بیٹھ کر پنجاب، خیبر پختون خوا، سندھ ، بلوچستان ، اورفاٹاکے نوجوانوں کے ہاتھوں میں قومی پرچم تھما دیئے تھے‘ یہ انقلاب نہیں تو اور کیا تھا؟ یہ نظریہ پاکستان کی تجدید نہیں تو اور کیا تھی؟ ۔ قومی پرچم کا احترام کسی بھی قوم کا اپنے وطن سے محبت کا پہلا نام ہے۔ وہ لوگ جو وطن کو چمکتا دمکتا دیکھنا چاہتے ہیں‘ وہ لوگ جو اقوام عالم میں ایک با وقار قوم کی شناخت چاہتے ہوں‘ وہی لوگ انقلاب کیلئے اپنی جانیں دیتے ہیں۔ وطن سے محبت اور عقیدت ہی کسی انقلاب کا پیش خیمہ ہوتی
ہے‘ جسے وطن سے محبت نہیں ہو گی‘ جس دل میں وطن کی عظمت کیلئے مر مٹنے کا جذبہ نہیں ہو گا وہ جیتا جاگتا انسان نہیں بلکہ ایک زندہ لاش کی مانند ہوتا ہے اور لاشیں دفنانے کیلئے ہوتی ہیں حرکت کرنے کیلئے نہیں۔ کراچی کی جناح گرائونڈ میں ہر رنگ و نسل کے افراد کو ایک ساتھ بٹھا کر قوموں اور فرقوں میں بٹی ہوئی قوم کو ایک لڑی میں پرو کر الطاف حسین نے'' ضرب عضب ‘‘ کا علم اٹھانے والوں کو پیغام دے دیا ہے کہ اس مقدس جنگ میں تم اکیلے نہیں ہو‘ خیبر سے لے کر کراچی تک پوری قوم تمہارے ساتھ ہے۔ جس طرح لاکھوں ہاتھوں میں قومی پرچم تھما کر انہیں شہر قائد کی فضائوں میں لہرا کر قومی پرچم کے احترام کا سلیقہ دیتے ہوئے قومی یکجہتی کی مہم کا آغاز کیا تھا‘ اسی طرح سخت گرمی اور روزے کی حالت میں جناح گرائونڈ میں موجود پاکستان کے لاکھوں افراد کا ایک کونے سے دوسرے کونے میں ٹی وی سکرینوں کے سامنے بیٹھے ہوئے دنیا بھر کے کروڑوں افراد کا اپنے پاک وطن کے مجاہدوں کو کھڑے ہو کر پیش کیا جانے والا سلیوٹ مکمل انقلاب کی نشان راہ اور منزل کا تعین کر چکا ہے اور یہ منزل اب دور نہیں ہے۔ آپ اگر الطاف حسین سے اختلاف رکھتے ہیں تو یہ آپ کا حق ہے لیکن اتنا ضرور پوچھنا چاہوں گاکہ جناب والا پاکستان میں بسنے والی تمام قوموں کو تمام سیا سی جماعتوں کو پاک فوج کے احترام کا سبق دے کر فوج اور عوام کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر تے ہوئے ایک قومی پرچم کا احترام دے کر اس ملک کے سوئے ہوئے انسانوں کو جگا کر الطاف حسین نے کون سا سنگین جرم کر دیا ہے؟
6 جولائی کی سخت گرمی کی شام کا وہ منظر کیسے بھلایا جا سکتا ہے جب متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کراچی کی جناح گرائونڈ اور اس سے ملحقہ ارد گرد کی سڑکوں پر قومی یکجہتی کے نام پر سیلاب کی طرح امڈنے والی پاکستان کی تمام قومیتوں اور تمام سیا سی جماعتوں سے مخاطب تھے اور ان کے اس خطاب کو پاکستان کے ٹی وی چینلز براہ راست عوام تک پہنچا رہے تھے۔ ٹی وی چینلزکی سکرینوں پر قومی یکجہتی کے وہ یادگار مناظر بڑی مدتوں کے بعد دیکھنے نصیب ہو رہے تھے‘ جب حد نگاہ تک جلسہ گاہ کے چاروں طرف قومی پرچموں کی بھر مار تھی۔ چاروں طرف گونجتے ہوئے پاک فوج زندہ باد کے نعروں کی گونج اور ہزار ہا ہاتھوں میں لہراتے ہوئے سبز ہلالی پرچم دیکھ کر تحریک پاکستان کی یاد
آگئی۔ ٹی وی کی سکرین پر جہاں ایک طرف بلوچ نوجوانوں کا ہجوم قومی پرچموں کو ہوا میں لہراتا ہو ا پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگاتا ہوا دکھائی دے رہا تھا تو دوسری طرف ہزاروں کی تعداد میں سندھی اور پختون نوجوان بھی قومی پرچموں کو مضبوطی سے تھامے افواج پاکستان سے یک جہتی کے پر جوش نعرے لگا رہے تھے اور وہ زندہ جاوید لمحات کیسے بھلائے جا سکتے ہیں جب جلسہ کے اختتام سے قبل ٹی وی کی سکرینوں کے گرد بیٹھے ہوئے اس ملک کے کروڑوں عوام نے وہ حیران کن منظر دیکھا جب الطاف حسین ایم کیو ایم لندن سیکرٹریٹ میںاپنی نشست سے کھڑے ہو کر اپنے ہاتھ کو بلند کرتے ہوئے پاک فوج کے ایک ایک جوان اور ایک ایک افسر کی حب الوطنی کی اٹھائی ہوئی قسم کو سلیوٹ کر رہے تھے۔ اس وقت جلسہ گاہ میں موجود لاکھوں عوام قومی پرچموں کو لہراتے ہوئے ایک ساتھ بلند آواز سے '' پاک فوج زندہ باد‘ کا ورد کر رہے تھے۔ چشم فلک نے کراچی کی سڑکوں پر قومی پرچموں کی بھر مار اور افواج پاکستان سے یک جہتی کے نعروں پر مبنی یہ مناظر نہ جانے کتنے سالوں بعد د یکھے ہیں اور یقینا جلسہ گاہ سے کچھ دور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی روح بھی خوشی اور مسرت سے سرشار جناح گرائونڈ سے اٹھنے والی پاکستان کی تمام قومیتوں کے ساتھ ہم آواز ہو کر پاک فوج زندہ باد کے ترانے یہ کہتے ہوئے گا رہی ہو گی۔۔۔
٭آئو محبت سے سلام کر لیں انہیں جن کے حصے میں یہ مقام آتا ہے۔ بہت خوش نصیب ہوتے ہیں وہ جن کا لہو وطن کے کام آتا ہے۔