جو لوگ پاکستان کو بہت سے معاملات میں پس ماندہ قرار دینے پر تُلے رہتے ہیں وہ کبھی اِس نکتے پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ ہم بہت سے دوسرے معاملات میں دُنیا کے لیے قابلِ رشک ہیں۔ مثلاً دنیا بھر میں لوگ اچھا اور زیادہ کھانے کے محض شوقین ہوتے ہیں جبکہ ہم نے اِس شوق کو عادت میں تبدیل کیا ہے! دُنیا بھر میں لوگ اِس خیال کے حامل ہیں کہ زندہ رہنے کے لیے کھانا چاہیے۔ ہم نے طے کر رکھا ہے کہ کھانے کے لیے زندہ رہنا ہے۔ اور زندہ بھی اِس طرح رہنا ہے کہ دُنیا دیکھے اور اپنا نظریہ تبدیل کرلے۔
اِس وقت ہم ماہِ صیام کی برکات سے بہرہ مند ہیں۔ اللہ نے روزے فرض کئے ہیں۔ اِس فرض کو ہم نے بھلایا ہے نہ نظر انداز کیا ہے۔ دِن بھر کی بُھوک پیاس کو ہم بخوشی برداشت کرتے ہیں۔ مگر معاملہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔ دن بھر کی بھوک پیاس کو ہم افطار کے اَستھان پر جس بھرپور جذبے سے ذبح کرتے ہیں وہ بھی تو قابلِ دید اور قابلِ داد ہے!
مرزا تنقید بیگ ماہِ صیام کے دوران حیرت میں مبتلا اور صدمے سے دوچار ہوتے ہوئے خُون اور صبر کے گھونٹ پیتے رہتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ روزہ جسم کو متوازن رکھنے کا طریقہ ہے جو اللہ نے ہمارے لیے فرض کردیا ہے۔ دن بھر کچھ کھانے اور پینے سے مجتنب رہ کر ہم اپنے جسم کو متوازن رکھتے ہیں۔ مگر افطار کے دسترخوان پر ہم اپنے ہی کئے دھرے پر پانی پھیر دیتے ہیں۔
ہم نے مرزا کو بارہا سمجھایا ہے کہ آپ اچھے خاصے رونق میلے پر کیوں معترض ہوتے ہیں۔ رمضان المبارک کے دوران دن بھر بھوک پیاس برداشت کرتے کرتے اُکتا جانے والوں کو افطار کے وقت کچھ دل بستگی کا سامان میسر ہوتا ہے۔ مرزا اُس پر بھی قدغن لگانا چاہتے ہیں۔ اہلِ پاکستان جس انداز سے افطار کی تیاری کرتے ہیں اور پھر جس بے مثال جوش و جذبے کے ساتھ روزے کو ''منطقی انجام‘‘ تک پہنچاتے ہیں وہ بجائے خود دیکھنے کی بات ہے۔ روزے میں خشوع و خضوع ہو نہ ہو، افطار میں تو ہو!
مرزا کو تو خیر اِس بات پر بھی اعتراض ہے کہ جگہ جگہ افطاری کے پیکٹ بٹ رہے ہوں تو لوگ بٹورتے چلے جاتے ہیں اور پھر کھا کھا کر اَدھ مُوئے ہو جاتے ہیں۔ جب بھی اُنہوں نے اِس قسم کا شِکوہ کیا ہے، ہم نے مرزا کو یاد دلایا ہے کہ انسان کے پاس پیٹ ہے تو وہ کھائے گا بھی۔ وہ کہتے ہیں کہ کھانے کی کوئی حد بھی ہونی چاہیے۔ ہمارا استدلال یہ ہوتا ہے کہ جب اللہ نے رزق دینے کی کوئی حد نہیں رکھی تو ہم رزق سے مستفید ہونے کی کوئی حد کیوں مَقرّر کریں؟ ایسی ہر دلیل پر مرزا نے ہمیشہ ہمیں کھا جانے والی نظروں سے دیکھا ہے۔ یہ کیسا انصاف ہے؟ دوسروں کے کھانے پینے پر اعتراض ہے اور خود جو ہمیں کھا جانے والی نظروں سے دیکھا کرتے ہیں اُس کا کچھ محاسبہ نہیں!
وہ زمانے ہوا ہوئے جب کھانے پینے کے حوالے سے شادی کی تقریب یا مزارات کے لنگر کا ذکر ہوا کرتا تھا۔ آج کل ع
مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں
یعنی کھانے کی تقسیم پر ہڑبونگ کے مناظر اور بھی بہت سے مقامات پر دکھائی دیتے ہیں۔ سیاسی جلسوں ہی کو لیجیے۔ جلسوں کے آخر میں کھانے کے اہتمام کی روایت ڈال کر سیاست کے رونقیں دوبالا کرنے کی بھرپور سعی فرمائی گئی ہے۔ اگر جلسے میں تقاریر مزیدار نہ ہوں تو کچھ غم نہیں، کھانا تو بہرحال مزیدار ہی ہوتا ہے۔ یارانِ وطن اِس مزے سے ہمکنار ہونے کے لیے سیاسی تقاریر سُننے کی ذِلّت بھی بخوشی برداشت کرلیتے ہیں! بہت سے لوگ سیاسی قائدین کی تقاریر سُننے سے زیادہ جلسے کے آخر میں کھانا کُھلنے کے منتظر رہتے ہیں۔ آپ نِیّت پر شک مت کیجیے۔ یہ لوگ کھانے کے بُھوکے نہیں ہوتے۔ یہ تو دوسروں کو کھانے پر ٹوٹتے ہوئے دیکھنے کا لُطف لیتے ہیں! ضمیرؔ جعفری مرحوم نے کہا تھا ؎
شہر میں بَٹنا ٹی وی کی تقریب کے دعوت ناموں کا
منظر تھا راشن ڈیپو پر پبلک کے ہنگاموں کا!
اگر ضمیرؔ جعفری آج ہوتے تو اپنے کہے میں ترمیم پر مجبور ہوتے! سیاسی جلسوں میں کھانے کی بندر بانٹ، بلکہ لوٹ مار نے بعض ایسے مناظر کو جنم دیا ہے کہ کامیڈی ڈرامے اُن کے سامنے پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔ دیگوں کا مُنہ کب کھلتا ہے اور کب اُن میں موجود کھانا ختم ہوجاتا ہے، کچھ پتا ہی نہیں چلتا۔ چند افراد کا ڈِش سے بُوٹیاں چُن کر ایک طرف جا بیٹھنا یا دیگ پر قابض ہوکر اپنوں کو نوازنا گئے وقتوں کی بات ہوئی۔ ہم نے بہت سے منچلوں کو بریانی کی ڈِش یا تَسلا لے کر درخت کی کسی اونچی شاخ پر براجمان پایا ہے۔ اگر آپ بھی یہ منظر دیکھیں تو محض ہنس کر مت ٹال جائیے گا۔ یہ معاملہ کامیڈی سے کچھ آگے کا یعنی سرکس کا ہے! سُنا ہے بعض سرکس اِس کرتب کو اپنے بہترین آئٹمز میں شامل کرنا چاہتے ہیں! پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اِس کے لیے اُنہیں سیاسی کارکنوں ہی کی خدمات حاصل کرنی پڑیں گی کیونکہ سرکس کے کسی فنکار میں ایسا ٹیلنٹ پیدا ہو نہیں سکتا!
مرزا ہماری بات سے متفق نہیں۔ اُن کی سوچ اب تک دقیانوسی ہے کہ کھانے پینے کے اُول جَلول مناظر سے ملک بدنام ہوتا ہے۔ مرزا کو صرف اعتراض کرنا آتا ہے۔ اُنہیں شاید یاد نہیں کہ ہم انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں جی رہے ہیں۔ اب ہمیں صرف یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کسی چیز کو انٹر نیٹ پر کتنے ''ہِٹ‘‘ مل رہے ہیں!
ہم جب بھی شادی کی تقریب میں، کسی مزار کے لنگر کی تقسیم کے دوران یا افطار کے موقع پر لوگوں کو اشیائے خور و نوش سے دو دو ہاتھ کرتے دیکھتے ہیں تو رشک آتا ہے۔ رشک کا ذکر ہم کھانے سے متعلق نہیں بلکہ جوش و جذبے کے حوالے سے کر رہے ہیں! لوگ دعوتِ عام میں جس بھرپور جوش و جذبے سے کھاتے ہیں اگر کچھ کچھ ویسا ہی جوش و جذبہ قومی تعمیر و ترقی میں بھی دکھایا کریں تو مُلک کہیں سے کہیں پہنچ جائے! توبہ ہے صاحب، ہم بھی کھانے پینے کے تذکرے میں کہاں مُلک کو سنوارنے کی بات لے بیٹھے!
کھانے پینے کے معاملے میں مرزا اب تک 1950ء یا اُس سے بھی پہلے کے پاکستان میں جی رہے ہیں۔ وہ ایک ایسے محکمے سے ریٹائر ہوئے ہیں جس کا تعلق ہی کھانے پینے سے ہے۔ مگر مرزا نے اپنے اُصولوں کو گلے لگاکے ملازمت کی مُدّت پوری کی اور اُس سے محکمے سے بھوکے پیاسے ہی نکل آئے۔ اور اب اُن کی خواہش یہ ہے کہ لوگ بھی اُن جیسے ہوجائیں۔ گویا وہ پورے سسٹم کو تلپٹ کرنا چاہتے ہیں! اب مرزا کو یہ بات کون سمجھائے کہ اگر لوگ اچانک کھانا پینا چھوڑ دیں گے تو یہ سب کچھ کہاں کھپے گا؟ ہم سمجھا سمجھاکر تھک چکے ہیں کہ ؎
اچھا ہے دِل کے پاس رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اِسے تنہا بھی چھوڑ دے!
مگر وہ کب ماننے والے ہیں جو مانیں گے؟ وہ اُن لوگوں میں سے ہیں جو کہتے ہیں کہ کھانے پینے کی اشیاء سامنے دھری ہوں تو آدمی کو پاگل نہیں ہوجانا چاہیے۔ اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ جانور بھی سامنے چارا دیکھ کر بے حواس نہیں ہوتے! اب اِنہیں کون سمجھائے کہ کھانا دیکھ کر پاگل نہ ہونا جانوروں کا وصف ہے، اِنسانوں کا نہیں! اگر ہم بھی کھانے پینے کی اشیاء دیکھ کر حواس قابو میں رکھیں تو، خدا ناخواستہ، ہمارا شمار بھی جانوروں میں ہونے لگے گا!