کیا خیال ہے‘ آج سیاست اور حالات حاضرہ سے ہٹ کر زندگی کے کچھ لطیف پہلوئوں پر گفتگو کی جائے‘احساس کو چھو جانے والی نظموں اور دل میں اتر جانے والے اشعار کا تذکرہ کیا جائے‘دو سچے تخلیق کاروں کو یاد کیا جائے جو جولائی کے مہینے میں ہم سے بچھڑے مگر شعرو سخن کی صورت ان کا ورثہ آج بھی ان کے ہونے کی گواہی دے رہا ہے۔اردو ادب کے دو بڑے نام احمد ندیم قاسمی اور قتیل شفائی‘ میں کچھ جگہوں پر عجیب طرح کی مماثلت ہے۔احمد ندیم قاسمی 20نومبر 1916ء کو پیدا ہوئے اور 89سال کی عمر میں 10جولائی 2006ء کو وفات پائی‘جبکہ قتیل شفائی24دسمبر 1919ء کو ہری پور میں پیدا ہوئے اور 11جولائی 2001ء کو اکیاسی برس کی عمر میں وفات پائی۔احمد ندیم قاسمی کا گھر سمن آباد کی جس گلی میں ہے اس کا نام قتیل شفائی سٹریٹ ہے یعنی قتیل شفائی بھی تمام عمر قاسمی صاحب کے ہمسائے ہی میں رہائش پذیر رہے۔قاسمی صاحب کا ایک شعر ان کی پہچان بن گیا ؎
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جائوں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جائوں گا
قتیل شفائی کی بیاض کھنگا لیں تو اسی موضوع کو بالکل مختلف انداز میں بیان کرتا ہوا ایک شعر ملتا ہے ۔ایسا لگتا ہے جیسے شفائی صاحب نے قاسمی صاحب کے شعر کے جواب میں یہ کہا ہو ؎
گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا
خیر یہ تو ایک قاری کی حیثیت سے دونوں بڑے شاعروں کی زندگی کے حوالے سے دلچسپ سا موازنہ تھا۔دونوں بڑی شخصیات ہیں اور اپنے اپنے دائرے میں انہوں نے بہت کام کیا ہے۔ قاسمی صاحب نے تو ایک نسل کو شعر و سخن کے میدان میں رہنمائی دی۔اور فنون کے ذریعے دور دراز بسنے والے اور سچے اور خالص ادیبوں کے فن کو شائع کر کے ان کی حوصلہ افزائی کی۔ آج بڑے بڑے نام یہ کہتے ہیں کہ قاسمی صاحب کے زیر ادارت فنون میں ان کی تحریروں کا چھپنا ان کے لیے اعزاز تھا اور یہی بہت سے تخلیق کاروں کے لیے پہچان اور نام بنانے کا بہترین پلیٹ فارم بھی ثابت ہوا۔قاسمی صاحب نے صحافت بھی کی‘اخبار کے مدیر بھی رہے‘کالم نگاری بھی کی اورمجلس ترقی ادب کے چیئرمین بھی رہے۔قاسمی صاحب کو جو پذیرائی ‘ جو عزت افزائی‘ اور احترام ادیبوں اور شاعروں سے ملا اس کی مثال نہیں ملتی۔انہوں نے اپنا سارا ادبی سفر جہاں بے پناہ محبتوں کے جلو میں گزارا‘ وہیں کچھ ادبی گروہ بندیوں اور ان کی ذات پر کی جانے والی تنقید اور ذاتی حملوں نے ان کے دل کو ٹھیس ضرورپہنچائی۔ان سب کے جواب میں اس سچے تخلیق کار نے محبتوں اور کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا اور اس کا اظہار اپنے اس شعر میں یوں کیا ؎
دشمن بھی جو چاہے تو مری چھائوں میں بیٹھے
میں ایک گھنا پیڑ سرراہ گزر ہوں
میری قاسمی صاحب سے پہلی ملاقات مجلس ترقی ادب کے خستہ حال دفتر میں ہوئی تھی۔مال روڈ کے پہلو میں‘جی او آر ون کے شاندار علاقے کے قریب‘ایک کچی گلی مجلس کے دفتر کی طرف جاتی تھی۔ اوراس دفتر کے پرانے فرنیچر ‘بوسیدہ پردوں کے درمیان رکھی ہوئی میز کرسی پربیٹھی شخصیت کی تمکنت کسی طرح بھی دفتر کے ماحول سے میل نہیں کھاتی تھی۔مجھے حیرت کا جھٹکا لگا کہ آخر‘ملک کی اتنی بڑی ادبی شخصیت برصغیر پاک و ہند میں افسانے کا ایک ممتاز اور محترم نام‘جس سرکار ی دفتر میں بیٹھا ادب کی خدمت پر مامور ہے کم از کم اس دفتر کو جانے والا راستہ تو معقول ہوتا۔مری ڈائری پر قاسمی صاحب نے آٹو گراف میں یہ شعر تحریر کیا ؎
کچھ نہیں مانگتے ہم لوگ بجز اذن کلام
ہم تو انسان کا بے ساختہ پن مانگتے ہیں
قاسمی صاحب‘10جولائی کو رخصت ہوئے۔ اِن دنوں ان کی آٹھویں برسی منائی جا رہی ہے۔لوگوں کے دل ان کی محبت سے معمور ہیں۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں بہت سی تقاریب منعقد ہو رہی ہیں۔ایسے میں قتیل شفائی جو 11جولائی کو رخصت ہوئے تھے۔ ان کی پذیرائی اور یاد آوری کے لیے کوئی تقریب منعقد نہیں ہوئی۔قتیل شفائی نے فلم کے بے شمار گیت لکھے۔اور ایسے معیاری ‘ کہ آج ان کے اشعار ضرب المثل کی طرح زبان زد عام ہیں ۔شعر سے دلچسپی رکھنے والا کوئی شخص ایسا نہیں ہو گا جسے قتیل شفائی کے چند اشعار یاد نہ ہوں۔ ان کے مشہور ترین اشعار میں سے چند آپ بھی پڑھیے اورداد دیجیے‘کہ کیا کمال تخلیق کار تھے وہ:
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سرعام رکھ دیا
اور
تم پوچھو اور میں نہ بتائوں ‘ایسے بھی حالات نہیں
ایک ذرا سا دل ٹوٹا ہے اور تو کوئی بات نہیں
قتیل کے شعرو سخن کے اثاثے میں بے شمار اشعار‘اور ان گنت فلمی گیت اور غزلیں ایسی ہیںجنہیں عوامی پذیرائی اورمقبولیت نصیب ہوئی۔ایک کالم دو بڑے تخلیق کاروں پر بات کرنے کے لیے یقیناکم ہوتا ہے۔یہ تو بس یاد کرنے کا اک بہانہ تھا اور خواہش تھی کہ قارئین بھی میرے ساتھ ان دو شخصیات کو یاد کریں جنہوں نے اپنی تخلیقات سے زندگی کے حسن اور لطافت میں اضافہ کیا۔ہاں کالم کا اختتام کرتے ہوئے احمد ندیم قاسمی کی وہ شہرہ آفاق نظم ضرور کوٹ کروں گی جو انہوں نے وطن کی محبت میں ڈوب کرلکھی:
خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
خدا کرے کہ وقار اس کا غیر فانی ہو
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ وسال نہ ہو
وطن کے ساتھ ساتھ ہم وطنوںکے لیے جو دعا مانگی وہ شعر اس نظم کا حاصل ہیں:
ہر ایک فرد ہو تہذیب و فن کا اوج کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو
خدا کرے کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو!
ان دو اشعار کے آئینے میں دیکھیے کہ ہمارے لوگ کیسے حیات کو جرم کی طرح اور زندگی کو وبال کی طرح گزارتے ہوئے سی این جی کی لائنوں میں لگے عزت نفس کھو رہے ہیں۔ جانے شاعر کی دعا قبول ہونے میں کتنی صدیاں اورلگیں گی۔