نوازشریف کی قسمت بالعموم ہمیشہ ان کا ساتھ دیتی ہے۔ موجودہ صورت حال کی سنگینی اور حکومت کو لاحق خطرات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ قسمت کی دیوی پھر مہربان ہونے کو ہے جس کی شروعات صاف نظر آنے لگی ہے اور جو بھی معاملہ بنائے فساد تھا اس کے حل پر حکومت کا فوکس واضح طور پر دکھائی دینے لگا ہے اور حکومت خلاف معمول ہی سہی، سنجیدہ معاملات پر سنجیدگی سے غور کرنے لگی ہے۔
اس سنگینی کو ختم کرنے میں پہلا اور بنیادی اشارہ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے طفیل دستیاب ہوا ہے جو نہ صرف روٹھ گئے تھے بلکہ اس پر استقامت سے قائم بھی تھے کہ ان کا پہلا مسئلہ جنرل (ر) پرویز مشرف سے کی گئی ڈیل کی خلاف ورزی تھی جس میں کہا جاتا ہے کہ میاں صاحب خود بھی شامل تھے۔ کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو چودھری نثار کے پاس کوئی اور ٹھوس بنیاد نہیں تھی جس پر وہ اپنے موقف پر قائم رہتے جبکہ فوج کے ساتھ اصل اور اہم حکومتی رابطہ صاحب موصوف ہی کے ذریعے تھا۔ درمیان میں یہ اطلاعات آئی تھیں کہ میاں صاحب فوج کے ساتھ خود ڈائریکٹ ہوگئے ہیں لیکن مشرف کا معاملہ پھر ایک رخنے اور رکاوٹ کی صورت سامنے آگیا۔ اب چودھری صاحب مانے ہی اس شرط پر ہیں کہ مشرف کے ساتھ کیے گئے وعدے کی پاسداری کی جائے ، چنانچہ اب اس کے لیے کوئی باعزت راستہ تلاش کیاجارہا ہے کہ انہیں ملک سے باہر جانے کی اجازت دے دی جائے۔ اس سے فوج سے متعلق ایک پریشانی تو رفع ہوگی۔ اگرچہ میاں صاحب کے لیے یہ ایک بہت ہی کڑوی گولی ثابت ہوگی کیونکہ ایک تو وہ اپنی انا کی تسکین سے دستبردار ہوں گے اور دوسرے ایک احساس شکست سے بھی انہیں دوچار ہونا پڑے گا۔
حکومت کی دوسری بڑی سردردی عمران خان کے14 اگست کے جلسے کا اعلان بھی تھا جس کے لیے حکومت نے یہ دانشمندانہ چال چلی کہ اس روز ڈی چوک میں جشن آزادی کے سلسلے میں اپنا جلسہ رکھ لیا۔ اگرچہ عمران خان تاحال اس پر بضد ہیں اورتاریخ تبدیل کرنے پر تیار نہیں اور اس ضمن میں حکومتی مطالبات پر کوئی کان نہیں دھر رہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ موصوف کو اس سلسلے میں لچک دکھانی ہی پڑے گی کیونکہ جلسہ تو وہ بعد میں کسی وقت بھی کرسکتے ہیں۔
تیسری پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ عمران خان نے بعض اطلاعات کے مطابق حکومتی ٹیم کے ساتھ ایک فرینڈلی کرکٹ میچ کے لیے رضا مندی ظاہر کردی ہے جس کی کل آمدنی آئی ڈی پیز کے لیے وقف ہوگی اور اگر ایسا ہوجاتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس سے بھی ہر دو فریق کے درمیان کچھ برف ضرور پگھلے گی۔ تاہم اس بار میاں صاحب شاید اپنی مرضی کا امپائر مقرر نہ کرسکیں اور ممکن ہے عمران ٹیم کو خوش کرنے کے لیے یہ میچ فکس ہی ہوجائے کہ یہ فریق مخالف کے لیے خیرسگالی کا ایک اور مظاہرہ ہوگا۔
کچھ افواہوں کے مطابق ایک تیسری بڑی پیش رفت یہ بتائی جاتی ہے کہ حکومت نے پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم کو وفاقی حکومت میں شامل کرنے کا پروگرام بنالیا ہے اور اس سلسلے میں سلسلہ جنبانی کا آغاز ہوگیا ہے۔ چنانچہ یہ ایک بہت بڑی مفاہمتی ڈیل ہوگی جس کے تحت اپوزیشن نام کی کوئی خاص چیز باقی نہیں رہے گی جو حکومت کے لیے پریشانی کا باعث ہوسکتی ہو۔ جبکہ مشرف ڈیل کے معاملے پر پیپلزپارٹی کے اپنے اندر مختلف ہوائیں چلنے لگی ہیں اور اسکے معتبرین ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی میں لگے ہوئے ہیں۔ سابق وزیر اعظم گیلانی اس ڈیل کے سب سے بڑے علمبردار ہیں اور یہ ملی بھگت کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس بہانے پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ کے مزید قریب ہونے کا موقع مل سکتا ہے۔
اس سب کچھ کے پیچھے ٹھوس اور حقیقی نظریہ یہ ہے کہ ملک کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر جبکہ فوج عسکریت پسندوں کے خلاف باقاعدہ جنگ لڑنے میں مصروف ہے، قومی اتحاد وقت کا ایک اہم تقاضا ہے تاکہ افواج پاکستان یکسو ہوکر اپنا کام جاری رکھ سکیں،چنانچہ ان اقدامات اور ان کے متوقع نتائج حکومت کے لیے ایک ایسا ریلیف مہیا کرسکتے ہیں جس کی اسے اشد ضرورت بھی ہے۔جبکہ اس کا ایک قدرتی اور حتمی نتیجہ یہ بھی نکلے گا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف سے ایک کھلے چیلنج کے غبارے سے بھی ہوا کافی حد تک نکل جائے گی۔ وہ بے شک انقلاب کی تاریخ دیتے پھریں جبکہ انہیں دوسری جماعتوں کی طرف سے ماسوائے مایوسی کے اور کچھ ہاتھ نہیں آنے والا، کیونکہ خطرے کے بہت سے بادل چھٹ چکے ہوں گے اور حکومت کے لیے قادری صاحب سے نمٹنا مزید آسان ہوجائے گا یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان اقدامات کی طرح حکومت قادری صاحب کے ضمن میں بھی کوئی ایسا صدری نسخہ استعمال کرنے میں کامیاب ہوجائے جس سے کم از کم وقتی طور پر موصوف مطمئن یا مجبور ہوکر بیٹھ جائیں۔
ان کے علاوہ صرف ایک چھوٹا سا مسئلہ ضرور باقی رہ جاتا ہے جو چودھری نثار اور خواجہ آصف کے درمیان ایک کڑی سرد جنگ کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ لیکن یہ چونکہ حکومت کا اندرونی معاملہ ہے اس لیے باقی مذکورہ بالا مسائل سے فارغ ہونے کے بعد وہ اس کا بھی کوئی حل نکل آئے گا اور بالآخر دونوں اس طرح جپھیاں ڈال لیں گے جس طرح وزیراعظم کے ساتھ چودھری نثار نے ڈال لی تھی اور دونوں حضرات یہ بھی کہتے دکھائی دیں گے کہ ہمارے درمیان تو کوئی اختلاف تھا ہی نہیں، اور یہ ہوائی بعض مفاد پرستوں ہی کی اڑائی ہوئی ہے۔ اللہ اللہ خیر سلّا۔
آج کا مقطع
جہاں سے کاٹ دیا تھا شجر محبت کا
ظفر، وہاں سے نئے شاخچے نکل آئے