سرگودھا سے قومی اسمبلی کے ایک حلقے میں کسی نا اہل کی ''ٹائپنگ غلطی‘‘ کا قصہ تمام ہوا لیکن لاہور کااین اے 118 نقب لگا کر یا راہزنی کے ذریعے عوامی حق چھین کر اس ملک کی قسمت سے کھیلنے والوں کیلئے پیاز کا ایسا چھلکا بنتا جا رہا ہے کہ وہ اپنی انتخابی چکر بازیوں کی سامنے آنے والی کسی ایک سچائی کو چھپاتے ہیں تو اگلے لمحے دوسری بال کھول کر ناچنے لگ جاتی ہے۔ لودھراں میں جہانگیر ترین کے ووٹوں سے بھرے ہوئے تھیلے دیمک کی نذر ہو جاتے ہیں تو لاہور کے حلقہ118 کے تھیلوں سے ووٹوں کی بجائے آپا زبیدہ کے ٹوٹکے نکل آتے ہیں۔ بات پانچ دس یا پچاس ساٹھ تھیلوں کی نہیں بلکہ اس حلقے کے کل325 میں سے259 تھیلوں کی ہے جو ووٹوں کی بجائے اب ردی سے بھر دیئے گئے ہیں او ر جب ان کی جمہوریت کا یہ سنہری کارنامہ سامنے آ تا ہے تو رات کے اندھیرے میں مجرمانہ طریقے سے جمہوریت پر شب خون مار کر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کو اپنے قدموں تلے روندتے ہوئے ردی نکال کر 259 تھیلوں کو نئے ووٹوں سے بھر دیا جاتا ہے اور جب یہ خبر میڈیا کے کچھ حلقوں کی جانب سے پوری ذمہ داری کے ساتھ عوام کے سامنے لائی جاتی ہے تو بجائے شرمندگی کے، سچائی باہر لانے کے شک کی بنا پر ایک افسرکو وہاں سے تبدیل کر دیا جاتا ہے۔انہیں اس شبہ پر سزا دی جاتی ہے کہ تھیلوں میں ردی کی جگہ نئے ووٹ بھرتے ہوئے ایک قومی ادارے کے مرکزی دفتر کے اس حصے کے سی سی ٹی وی کیمرے بند کرنے کی خبر انہوں نے ہی باہر نکالی ہو گی ۔ اب اگر ان جرائم کے خلاف کوئی آواز بلند کرتا ہے تو اسے شر پسند اور جمہوریت دشمن کہنا منا سب ہو گا؟ اگر کوئی اس بدترین انتخابی عمل کو درست کرنے کی بات کرے تو کیا آپ اس پر ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹیںڈالنے کا الزام لگائیں گے؟۔ اگر آج جمہوری حقوق پر ڈاکے ڈالنے والے ایک ایک کردارکو کیفر کردار تک پہنچا دیا جائے تو کل کو یہ آج کے حکمرانوں کیلئے فائدہ مند ثابت ہو گا جب وہ اقتدار سے محروم ہونے کے بعد انتخابی عمل کا حصہ بنیں گے؟۔ کیا آپ کچے گھڑے پر جمہوریت کا طویل سفر طے کر سکتے ہیں؟ جب اس قوم کی نئی نسل کو یقین ہو جائے گا کہ ان کا حق رائے دہی کشمیریوں کی طرح چھینا نہیں جائے گا تو جمہوریت مضبوط ہو گی۔ آج آپ تحریک چلانے کے اعلان پر عمران خان پر اپنے بیانوں کے تیر برسا رہے ہیں لیکن کیا آپ بھول گئے ہیں کہ یہ سب کچھ تو آپ نے خود کیا ہے؟۔
انتخابی دھاندلی کے ایشو پرمسلم لیگ نواز،مولانا فضل الرحمن اور عوامی نیشنل پارٹی کے عمران خان پر حملے اس شدت سے جاری ہیں جیسے انہیں اپنی متاع عزیز چھن جانے کا ڈر ہو او ر ان سب کی تان اسی ایک بات پر ٹوٹ رہی ہے کہ ان کے جلسے اور تحریک چلانے کا اعلان قبل از وقت ہے۔ مولانا کو وفاقی وزیر کا درجہ قبل از وقت نہیں اور ان کے مالی مفادات کے نگران اکرم درانی اور مولانا غفور حیدری کو وفاقی وزیر مقرر کرنے کا فیصلہ قبل از وقت نہیں۔ کیا ان کی یہی قیمت تھی کہ مولانا کا گروپ تحریک انصاف کے خلاف اپنے لٹھ گھمانے میں جتا رہے ۔مولانا فضل الرحمن کو یاد دلائوں کہ جناب والا، گیارہ مئی کے انتخابات کے بعد سب سے پہلے انہوں نے ہی کے پی کے میں ہونے والی دھاندلی پر احتجاجی تحریک چلانے کی دھمکیاں دی تھیں ۔۔۔۔اور مسلم لیگ نواز کے لیڈران کرام کو یاد ہو گا کہ 6 اکتوبر1993ء کو ملک میں عام انتخابات کے نتیجے میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے کامیاب ہونے اور بطور وزیراعظم حلف اٹھانے کے صرف دوماہ بعد آپ نے ان کی حکومت کے خلاف تحریک نجات کا اعلان کر دیاتھا۔ اور پھر ایک سال تک مسلسل کی جانے والی ہڑتالوں اور جلسے جلوسوں سے ملک بھر کی سڑکوں ، ٹریفک اورمعیشت کو اپاہج بنائے رکھا اور8 قیمتی انسانی جانیں الگ ضائع ہوئیں۔۔ آج اگر،آپ کی طرح دوماہ بعد نہیں بلکہ ، ایک سال تک قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ایوانوں اور ملک بھر کی ایک ایک عدالت اور الیکشن کمیشن کے دفاتر میں دھکے کھانے کے بعد عمران خان بدنام زمانہ انتخابی نتائج کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کر رہے ہیں تو اس پر آپ کا اس قدر غصہ کیوں؟کیا جمہوریت کا اصلی حسن اور شفاف انتخابی عمل آپ کو قبول نہیں ؟۔ کیا آپ نہیں چاہتے کہ اس ملک میں اصلی جمہوریت کا فروغ ہو تاکہ کسی کو مستقبل میں اس قسم کی نا انصافیوں پر مبنی حکومتوں پر شب خون مارنے کی ہمت ہی نہ ہو؟ کیا آپ نہیں چاہتے کہ انصاف کے ترازو میں ڈنڈی مارے بغیر ہر کسی کو اس کا حق ملے؟ کیا آپ نہیں چاہتے کہ67 سال بعد ہی سہی، یہ ملک اقوام عالم میں ایک مہذب اور جمہوریت پسند ملک کے طور پر جا نا جائے ؟
عمران خان پر تبرے بھیجتے ہوئے فرمایا جاتا ہے کہ اسے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ یہ تحریک ناکام ہو جائے گی۔ یہ کہتے ہوئے ایک لمحے کیلئے سوچیے کہ اگرپہاڑ وں کے اندر چھپی ہوئی سچائی کو باہر نکالنے کیلئے ایک انسان اپنی پوری زندگی صرف کر نے کے بعد بھی مکمل کامیابی حاصل نہ کر سکے تو پھر بھی اس کے جنون کو تیشۂ فرہاد کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے ۔ پہاڑ کا غرور اور ہٹ دھرمی تاریخ کی کسی کتاب میں نہیں اور تیشۂ فرہاد کا ہر جگہ ذکر ہو گا۔ ایک سابق چیف جسٹس جنہوں نے فرمایا ہے کہ انہیں عمران خان کی فضول باتوں کا جواب دینے کی فرصت نہیں، لیکن شاید وہ بھول رہے ہیں کہ ایک دن ہم سب کو اپنے کئے جانے اعمال پر خدا کے حضور اپنے اعمال کا جواب دینا ہی پڑے گا۔
سابق صدرآصف علی زرداری انتخابات کے بعد جب پہلی دفعہ لاہور بلاول ہائوس تشریف لائے تو ا نہوں نے سینئر صحافیوں سے گیارہ مئی کے انتخابات کے بارے بہت سی باتیں کیں۔ ایک صحافی نے ان انتخابات کی شفافیت بارے ان سے سوال کیا تو انہوںنے جو بات چہرے پر سنجیدہ مسکراہٹ لاتے ہوئے کہی وہ سب کو حیران کر گئی کہ ''اس طرح کے ریٹرننگ افسران اگر مجھے مل جائیں تو میں اگلا صدارتی الیکشن آسانی سے جیت سکتا ہوں‘‘ ۔ اور پھر چند منٹوںبعد ٹی وی کی سکرینوں اور اگلے دن ملک بھر کے اخبارات کی شہ سرخیاںپوری قوم کو حیران کر رہی تھیں۔چاروں طرف چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں کہ نگران حکومتوں کا '' گاڈ فادر ‘‘ کیا کہہ رہا ہے۔زرداری صاحب کی زبان سے نکلے ہوئے ان الفاظ پر اپنے اپنے انداز میں رائے زنی شروع ہو ئی ہی تھی کہ دو دن بعد کالا شاہ کاکو انٹر چینج کے قریب پنجاب جوڈیشل اکیڈیمی کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب کے دوران چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کا وہ خطاب سامنے آ گیا جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ ''مذموم عزائم رکھنے والے عنا صر کی ریٹرننگ افسران پر تنقید بلا جواز ہے ــ‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی طرف سے انتخابات کرانے کے لیے عدلیہ سے بہترین افراد کا چنا ئو کیا گیا اور ان ریٹرننگ افسران کی ذمہ داری چونکہ مجھ پر عائد ہوتی ہے اور میں یہ ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ ریٹرننگ افسران نے محنت، لگن اور ذمہ داری سے اپنا کام کیا ہے اور اس میں تو کوئی شک نہیں کہ پنجاب کے ان ریٹرننگ افسران نے اپنا '' کام‘‘ بڑی ہی محنت، لگن اور ذمہ داری سے نبھایا ہے جس کا اجر انہیں اس دنیا میں بھی اور آخرت والے دن بھی ملنا ہے کیونکہ یہ اﷲ کا ہم سب سے وعدہ ہے ۔‘‘