کافی عرصہ پہلے مخدوم سجاد حسین قریشی پنجاب کے گورنر تھے۔ عوام کو اس سے غرض نہیں ہوتی کہ کونسا عہدہ آئینی ہے اور کونسا انتظامی؟ وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے حلقے یا شہر سے تعلق رکھنے والاسیاستدان بڑے عہدے پر فائز ہوتا ہے‘ تو اس کے اختیارات بھی اتنے ہی ہوں گے۔ جبکہ آئینی طور سے گورنر کے پاس انتظامی اختیارات نہیں ہوتے۔ ضرورت مندوں کے لئے کسی سرکاری ملازم کا تبادلہ یا اس کی پوسٹنگ کراناکوئی بڑا کام نہیں ہوتا۔ لوگ ایسی ہی سفارش کے لئے گورنر صاحب کے ہاں حاضری دے کر مدعا بیان کرتے‘ تو گورنر صاحب‘ سائل کی بات سنے بغیرواعظ کرتے رہتے اور ملاقات کے اختتام پر فرماتے ''اچھا! اب دعا ہو جائے۔‘‘ سائل دعا بھی کر لیتا۔ اس کے بعد وہ اپنے کام کی بات پھر چھیڑتا۔ اس پر گورنرصاحب جواب دیا کرتے ''میں نے دعا تو کر دی ہے۔ اللہ سائیں کی طرف دھیان لگائو۔ اللہ ٹھیک کریسی۔‘‘ سائل بیچارا مایوس ہو کر لوٹ جاتا۔ اس وقت میں نے لکھا تھا کہ کچھ تو ویسے ہی گورنر کے پاس اختیارات نہیں ہوتے اور کچھ مخدوم صاحب کا مزاج ۔ لوگ اپنے کام لے کر جاتے اور دعائیں لے کے واپس آ جاتے۔ ہمیں اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ آخر گورنر صاحب‘ لاٹ صاحب والے گھر میں کیوں رہتے ہیں؟اتنا بڑا محل۔ پولیس کے پہرے۔ باوردی بیرے۔ ملٹری سیکرٹری۔ ان گنت دوسرے سیکرٹری۔ یہ سب کس لئے ہے؟ اگر ہم نے پیر سائیں سے دعائیں ہی لینی ہیں‘ تو یہ کام وہ گورنر بنے بغیر بھی کر سکتے ہیں۔
ایک عرصے کے بعد بجلی اور پانی کے وزیر‘ پیر خواجہ محمد آصف نے پیر سجاد حسین کی روایت دہرائی۔ عوام ‘ بے لگام لوڈشیڈنگ پرشدید احتجاج کر رہے ہیں اور خواجہ صاحب نے عوام کو مشورہ دیا ہے کہ وہ بارش کی دعا مانگیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کرم فرما دیں گے اور آپ لوگوں کو بجلی فراہم کرنے کی گارنٹی تو حکومت نہیں دے سکتی۔ البتہ بل آپ کو باقاعدگی سے بھجوائے جائیں گے۔ بل ادا کرتے رہیے۔ بارش کی دعا مانگیے اور اگر اللہ نے آپ کی سن لی‘ توبارش ہو جائے گی۔ موسم اچھا ہو جائے گا۔ پانی بھی مل جائے گا اور گرمی سے بھی جان بچ جائے گی۔ ہم تو خواجہ صاحب کو سیاستدان سمجھ رہے تھے۔ مگر وہ تو اللہ والے پیرسائیں نکلے۔ پیر صاحبان نذرنیاز لے کرگزارہ کرتے ہیں۔ خواجہ صاحب کی دعا تو ان سے بھی مہنگی پڑتی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ روز20 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کے باوجود‘ بجلی کا بل معمول کے مطابق آتا ہے۔اس میں کمی بیشی نہیں ہوتی۔ بجلی کبھی کبھار آتی ہے‘ بل باقاعدگی سے۔ لائن مین ایک ہوتا ہے‘ وزیر دو دو رکھ چھوڑے ہیں۔ خواجہ صاحب تو پھر بھی بھرم رکھ لیتے ہیں۔ لیکن نکِّاوزیر تو
بلوں کی رقم بھی وصول کرتا ہے اور لوگوں کو چور بھی کہتاہے۔ جتنی ڈانٹ ڈپٹ انہوں نے صوبہ خیبرپختونخوا اور کراچی کے عوام سے کی ہے‘ اس کے بعد تو انہیں بجلی کے میٹرکٹوا دینا چاہئیں۔ جب بجلی ایجاد نہیں ہوئی تھی‘ اس وقت بھی لوگ گزارا کر لیتے تھے۔ بڑے بڑے بادشاہوں کو بجلی کے بغیر رہنا پڑتا تھا۔ لیکن آج تک کسی تاریخ یا بادشاہ کی خودنوشت میں بجلی نہ ہونے کی شکایت نہیں کی گئی۔ کیسے صابر و شاکر لوگ تھے۔ ایک ہم ہیں کہ 24گھنٹوں میں تین چار گھنٹے بجلی مل جاتی ہے اور پھر بھی خوش نہیں ہوتے۔ شور ہی مچاتے رہتے ہیں۔ حکومت اگر چاہے‘ تو عوام کی ضروریات کے مطابق پوری بجلی پیدا کر سکتی ہے۔ مگر ایسے کام حکومتیں کرتی ہیں۔ جو لوگ وزارتی مفادات کی وجہ سے ذمہ داریاں سنبھالتے ہیں‘ وہ اقتدار سے لطف اندوز ہوں یا لوگوں کو بجلی مہیا کرنے پر وقت ضائع کریں؟
اسی کالم میں بارہا لکھا جا چکا ہے کہ پاکستان ایسے خوش نصیب ملکوں میں شامل ہے‘ جو اپنی ضرورت سے دس پندرہ گنا زیادہ بجلی پیدا کر سکتا ہے۔ وہ بھی مفت۔ ہمارے پہاڑی علاقوں میں جتنے جھرنے اور آبشار ہیں‘ قدرت کی طرف سے عطا کردہ بجلی گھر ہیں۔ پانی کے دھارے میں جتنا زور ہو‘ اسی کی مطابقت سے نیچے ٹربائن رکھ کر بجلی کی پیداوار شروع کی جا سکتی ہے۔ اس پر کیا خرچ آئے گا؟ کچھ بھی نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے‘ جو 24 گھنٹے دستیاب رہتی ہے۔ ہمیں صرف بجلی گھر کی دیکھ بھال کے لئے چوکیدار کی تنخواہ دینا پڑے گی یا ایک بار ٹرانسمشن لائن بچھا کر عشروں تک بجلی صارفین کو پہنچائی جا سکتی ہے۔ حکومتی اخراجات کو پورا کرنے یا تھوڑے بہت منافع کے ساتھ بھی بجلی کا نرخ ڈیڑھ دو روپے سے زیادہ نہیں بنے گا۔ لیکن حکومتیں‘ قدرت کے اس تحفے سے بجلی پیدا کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتیں؟ اس سوال کا جواب سوچنے کے لئے کسی تکلیف کی ضرورت نہیں۔ آپ صرف حقیقت شناس نظر سے دیکھنا شروع کر دیں‘ توسارا معما سمجھ میں آ جاتا ہے۔ فطرت کے ساتھ آپ لین دین نہیں کر سکتے۔ لین دین صرف سرمایہ کاری یا کاروبار میں ہوتا ہے۔ سرمایہ کاری کے لئے ڈیم بنائے جاتے ہیں اور نجی بجلی گھروں کے مالکان سے لین دین نہایت آسان رہتا ہے۔ ڈیم بنانے کے لئے بھی بڑے جوکھم کی ضرورت ہے۔ پہلے بھاری سرمایہ فراہم کرو۔ چھ سات سال تک تعمیراتی اخراجات برداشت کرو۔ اس میں سے کروڑوں بلکہ اربوں بچت تو ضرور ہو جاتی ہے۔ لیکن یقینی نہیں ہوتی۔ اگر تعمیر میں زیادہ عرصہ لگ گیا‘ تو مدت اقتدار ختم بھی ہو سکتی ہے اور ڈیم کا اصل فائدہ پورے بل کی ادائی پر ہوتا ہے۔ رقم بے شک بھاری ہوتی ہے لیکن کیا پتہ؟ ڈیم مکمل ہونے میں تاخیر کی بنا پر حکومت ہی نئی آ جائے۔ سب سے یقینی اور بہترین نفع بخش کاروبار ایندھن سے بجلی حاصل کرنا ہے۔ ان بجلی گھروں کے مالکان عام سرمایہ دار ہوتے ہیں۔ جن کے ساتھ ہر طرح کا لین دین کیا جا سکتا ہے۔ آپ کو یقینا علم ہو گا کہ بجلی گھروں کے مالکان
سے بجلی کس طرح خریدی جاتی ہے؟ اور لوڈشیڈنگ سے ہونے والی آمدنی کتنی ہوتی ہے؟ بجلی گھروں کے مالکان سے موجودہ معاہدوں کے مطابق حکومت پابند ہے کہ وہ بجلی گھر کی پوری پیداوار ی اہلیت کے مطابق بجلی کی قیمت ادا کرے گی۔ یعنی اگر کوئی بجلی گھر 200میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے‘ تو حکومت اسے حسب ضرورت ایندھن فراہم کرے گی اور اگر حکومت ضرورت کے مطابق ایندھن فراہم نہیں کرتی‘ تو یہ اس کا قصور ہو گا۔ بجلی پیدا کرنے والے ادارے کا نہیں۔ لہٰذا بجلی گھر کے مالک کو یہ حق ہوتا ہے کہ اپنی پوری پیداواری گنجائش کے مطابق بل وصول کرے۔ سارا کیچ اسی میں ہے۔ و اپڈا کے افسر‘ ایندھن کی فراہمی کم کریں گے‘ تویہ ان کا قصور ہو گا۔ بجلی کمپنی کی سیدھی دلیل یہ ہوتی ہے کہ اگر ایندھن کی عدم فراہمی کی بنا پر ہم بجلی پیدا نہیں کر سکے‘ تو یہ ہمارا قصور نہیں۔ حکومت ہمیں کل پیداواری گنجائش کے مطابق بجلی کی قیمت ادا کرے۔ ظاہر ہے کہ اس لین دین میں ملی بھگت سے کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔ ملک میں 21ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ لیکن ہر سال پیداوارتین چار ہزار میگاواٹ کم کر دی جاتی ہے۔ اس بار تو 7ہزار میگاواٹ کی کمی ''لائی‘‘ گئی ہے۔ جتنی بجلی پیدا نہیں ہوتی‘ بجلی گھر کا مالک اس کی قیمت بھی وصول کرتا ہے۔ جبکہ ایندھن ذرا بھی استعمال نہیں ہوتا۔ یہ اربوں کھربوں روپے جو بجلی پیدا کئے بغیر‘ قیمت کی صورت میں ادا کئے جاتے ہیں‘ اسی میں بجلی گھر کے مالکان کا نفع ہے اور اسی میں متعلقہ افسران کا فائدہ۔ عجیب بات یہ ہے کہ حکومت اپنے زیرانتظام ہر دوسرے تیسرے سال بجلی کی پیداوار میں تھوڑا بہت اضافہ کر دیتی ہے۔ پچھلے 6 سال میں کچھ اضافے ہوئے ہیں۔ لیکن لوڈشیڈنگ پھر بھی بڑھ گئی۔ موجودہ حکومت اسی سال 4سو میگاواٹ بجلی کی پیداوار شروع کر رہی ہے۔ دریائوں میں پانی میں اضافہ ہونے پر بھی 3سے 5 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہونے لگتی ہے۔ لیکن کیا کبھی لوڈشیڈنگ میں کمی آئی؟ یہ اضافی بجلی جاتی کہاں ہے؟ پیداوار بھی بڑھتی ہے۔ لوڈشیڈنگ بھی بڑھتی ہے اور حکومت ‘ بجلی گھروں کے مالکان کو پوری قیمت بھی نہیں دے پاتی۔ موجودہ حکومت نے آتے ہی 500 ارب روپے کا گردشی قرضہ اتارا اور ایک سال سے بھی کم عرصے میں یہ پھر 500 ارب روپے کے قریب ہو چکا ہے۔ یہ وہ اندھیر کھاتہ ہے‘ جس میں کمی ہی رہے کافی عرصہ پہلے مخدوم سجاد حسین قریشی پنجاب کے گورنر تھے۔ عوام کو اس سے غرض نہیں ہوتی کہ کونسا عہدہ آئینی ہے اور کونسا انتظامی؟ وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے حلقے یا شہر سے تعلق رکھنے والاسیاستدان بڑے عہدے پر فائز ہوتا ہے‘ تو اس کے اختیارات بھی اتنے ہی ہوں گے۔ جبکہ آئینی طور سے گورنر کے پاس انتظامی اختیارات نہیں ہوتے۔ ضرورت مندوں کے لئے کسی سرکاری ملازم کا تبادلہ یا اس کی پوسٹنگ کراناکوئی بڑا کام نہیں ہوتا۔ لوگ ایسی ہی سفارش کے لئے گورنر صاحب کے ہاں حاضری دے کر مدعا بیان کرتے‘ تو گورنر صاحب‘ سائل کی بات سنے بغیرواعظ کرتے رہتے اور ملاقات کے اختتام پر فرماتے ''اچھا! اب دعا ہو جائے۔‘‘ سائل دعا بھی کر لیتا۔ اس کے بعد وہ اپنے کام کی بات پھر چھیڑتا۔ اس پر گورنرصاحب جواب دیا کرتے ''میں نے دعا تو کر دی ہے۔ اللہ سائیں کی طرف دھیان لگائو۔ اللہ ٹھیک کریسی۔‘‘ سائل بیچارا مایوس ہو کر لوٹ جاتا۔ اس وقت میں نے لکھا تھا کہ کچھ تو ویسے ہی گورنر کے پاس اختیارات نہیں ہوتے اور کچھ مخدوم صاحب کا مزاج ۔ لوگ اپنے کام لے کر جاتے اور دعائیں لے کے واپس آ جاتے۔ ہمیں اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ آخر گورنر صاحب‘ لاٹ صاحب والے گھر میں کیوں رہتے ہیں؟اتنا بڑا محل۔ پولیس کے پہرے۔ باوردی بیرے۔ ملٹری سیکرٹری۔ ان گنت دوسرے سیکرٹری۔ یہ سب کس لئے ہے؟ اگر ہم نے پیر سائیں سے دعائیں ہی لینی ہیں‘ تو یہ کام وہ گورنر بنے بغیر بھی کر سکتے ہیں۔
ایک عرصے کے بعد بجلی اور پانی کے وزیر‘ پیر خواجہ محمد آصف نے پیر سجاد حسین کی روایت دہرائی۔ عوام ‘ بے لگام لوڈشیڈنگ پرشدید احتجاج کر رہے ہیں اور خواجہ صاحب نے عوام کو مشورہ دیا ہے کہ وہ بارش کی دعا مانگیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کرم فرما دیں گے اور آپ لوگوں کو بجلی فراہم کرنے کی گارنٹی تو حکومت نہیں دے سکتی۔ البتہ بل آپ کو باقاعدگی سے بھجوائے جائیں گے۔ بل ادا کرتے رہیے۔ بارش کی دعا مانگیے اور اگر اللہ نے آپ کی سن لی‘ توبارش ہو جائے گی۔ موسم اچھا ہو جائے گا۔ پانی بھی مل جائے گا اور گرمی سے بھی جان بچ جائے گی۔ ہم تو خواجہ صاحب کو سیاستدان سمجھ رہے تھے۔ مگر وہ تو اللہ والے پیرسائیں نکلے۔ پیر صاحبان نذرنیاز لے کرگزارہ کرتے ہیں۔ خواجہ صاحب کی دعا تو ان سے بھی مہنگی پڑتی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ روز20 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کے باوجود‘ بجلی کا بل معمول کے مطابق آتا ہے۔اس میں کمی بیشی نہیں ہوتی۔ بجلی کبھی کبھار آتی ہے‘ بل باقاعدگی سے۔ لائن مین ایک ہوتا ہے‘ وزیر دو دو رکھ چھوڑے ہیں۔ خواجہ صاحب تو پھر بھی بھرم رکھ لیتے ہیں۔ لیکن نکِّاوزیر تو
بلوں کی رقم بھی وصول کرتا ہے اور لوگوں کو چور بھی کہتاہے۔ جتنی ڈانٹ ڈپٹ انہوں نے صوبہ خیبرپختونخوا اور کراچی کے عوام سے کی ہے‘ اس کے بعد تو انہیں بجلی کے میٹرکٹوا دینا چاہئیں۔ جب بجلی ایجاد نہیں ہوئی تھی‘ اس وقت بھی لوگ گزارا کر لیتے تھے۔ بڑے بڑے بادشاہوں کو بجلی کے بغیر رہنا پڑتا تھا۔ لیکن آج تک کسی تاریخ یا بادشاہ کی خودنوشت میں بجلی نہ ہونے کی شکایت نہیں کی گئی۔ کیسے صابر و شاکر لوگ تھے۔ ایک ہم ہیں کہ 24گھنٹوں میں تین چار گھنٹے بجلی مل جاتی ہے اور پھر بھی خوش نہیں ہوتے۔ شور ہی مچاتے رہتے ہیں۔ حکومت اگر چاہے‘ تو عوام کی ضروریات کے مطابق پوری بجلی پیدا کر سکتی ہے۔ مگر ایسے کام حکومتیں کرتی ہیں۔ جو لوگ وزارتی مفادات کی وجہ سے ذمہ داریاں سنبھالتے ہیں‘ وہ اقتدار سے لطف اندوز ہوں یا لوگوں کو بجلی مہیا کرنے پر وقت ضائع کریں؟
اسی کالم میں بارہا لکھا جا چکا ہے کہ پاکستان ایسے خوش نصیب ملکوں میں شامل ہے‘ جو اپنی ضرورت سے دس پندرہ گنا زیادہ بجلی پیدا کر سکتا ہے۔ وہ بھی مفت۔ ہمارے پہاڑی علاقوں میں جتنے جھرنے اور آبشار ہیں‘ قدرت کی طرف سے عطا کردہ بجلی گھر ہیں۔ پانی کے دھارے میں جتنا زور ہو‘ اسی کی مطابقت سے نیچے ٹربائن رکھ کر بجلی کی پیداوار شروع کی جا سکتی ہے۔ اس پر کیا خرچ آئے گا؟ کچھ بھی نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے‘ جو 24 گھنٹے دستیاب رہتی ہے۔ ہمیں صرف بجلی گھر کی دیکھ بھال کے لئے چوکیدار کی تنخواہ دینا پڑے گی یا ایک بار ٹرانسمشن لائن بچھا کر عشروں تک بجلی صارفین کو پہنچائی جا سکتی ہے۔ حکومتی اخراجات کو پورا کرنے یا تھوڑے بہت منافع کے ساتھ بھی بجلی کا نرخ ڈیڑھ دو روپے سے زیادہ نہیں بنے گا۔ لیکن حکومتیں‘ قدرت کے اس تحفے سے بجلی پیدا کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتیں؟ اس سوال کا جواب سوچنے کے لئے کسی تکلیف کی ضرورت نہیں۔ آپ صرف حقیقت شناس نظر سے دیکھنا شروع کر دیں‘ توسارا معما سمجھ میں آ جاتا ہے۔ فطرت کے ساتھ آپ لین دین نہیں کر سکتے۔ لین دین صرف سرمایہ کاری یا کاروبار میں ہوتا ہے۔ سرمایہ کاری کے لئے ڈیم بنائے جاتے ہیں اور نجی بجلی گھروں کے مالکان سے لین دین نہایت آسان رہتا ہے۔ ڈیم بنانے کے لئے بھی بڑے جوکھم کی ضرورت ہے۔ پہلے بھاری سرمایہ فراہم کرو۔ چھ سات سال تک تعمیراتی اخراجات برداشت کرو۔ اس میں سے کروڑوں بلکہ اربوں بچت تو ضرور ہو جاتی ہے۔ لیکن یقینی نہیں ہوتی۔ اگر تعمیر میں زیادہ عرصہ لگ گیا‘ تو مدت اقتدار ختم بھی ہو سکتی ہے اور ڈیم کا اصل فائدہ پورے بل کی ادائی پر ہوتا ہے۔ رقم بے شک بھاری ہوتی ہے لیکن کیا پتہ؟ ڈیم مکمل ہونے میں تاخیر کی بنا پر حکومت ہی نئی آ جائے۔ سب سے یقینی اور بہترین نفع بخش کاروبار ایندھن سے بجلی حاصل کرنا ہے۔ ان بجلی گھروں کے مالکان عام سرمایہ دار ہوتے ہیں۔ جن کے ساتھ ہر طرح کا لین دین کیا جا سکتا ہے۔ آپ کو یقینا علم ہو گا کہ بجلی گھروں کے مالکان
سے بجلی کس طرح خریدی جاتی ہے؟ اور لوڈشیڈنگ سے ہونے والی آمدنی کتنی ہوتی ہے؟ بجلی گھروں کے مالکان سے موجودہ معاہدوں کے مطابق حکومت پابند ہے کہ وہ بجلی گھر کی پوری پیداوار ی اہلیت کے مطابق بجلی کی قیمت ادا کرے گی۔ یعنی اگر کوئی بجلی گھر 200میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے‘ تو حکومت اسے حسب ضرورت ایندھن فراہم کرے گی اور اگر حکومت ضرورت کے مطابق ایندھن فراہم نہیں کرتی‘ تو یہ اس کا قصور ہو گا۔ بجلی پیدا کرنے والے ادارے کا نہیں۔ لہٰذا بجلی گھر کے مالک کو یہ حق ہوتا ہے کہ اپنی پوری پیداواری گنجائش کے مطابق بل وصول کرے۔ سارا کیچ اسی میں ہے۔ و اپڈا کے افسر‘ ایندھن کی فراہمی کم کریں گے‘ تویہ ان کا قصور ہو گا۔ بجلی کمپنی کی سیدھی دلیل یہ ہوتی ہے کہ اگر ایندھن کی عدم فراہمی کی بنا پر ہم بجلی پیدا نہیں کر سکے‘ تو یہ ہمارا قصور نہیں۔ حکومت ہمیں کل پیداواری گنجائش کے مطابق بجلی کی قیمت ادا کرے۔ ظاہر ہے کہ اس لین دین میں ملی بھگت سے کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔ ملک میں 21ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ لیکن ہر سال پیداوارتین چار ہزار میگاواٹ کم کر دی جاتی ہے۔ اس بار تو 7ہزار میگاواٹ کی کمی ''لائی‘‘ گئی ہے۔ جتنی بجلی پیدا نہیں ہوتی‘ بجلی گھر کا مالک اس کی قیمت بھی وصول کرتا ہے۔ جبکہ ایندھن ذرا بھی استعمال نہیں ہوتا۔ یہ اربوں کھربوں روپے جو بجلی پیدا کئے بغیر‘ قیمت کی صورت میں ادا کئے جاتے ہیں‘ اسی میں بجلی گھر کے مالکان کا نفع ہے اور اسی میں متعلقہ افسران کا فائدہ۔ عجیب بات یہ ہے کہ حکومت اپنے زیرانتظام ہر دوسرے تیسرے سال بجلی کی پیداوار میں تھوڑا بہت اضافہ کر دیتی ہے۔ پچھلے 6 سال میں کچھ اضافے ہوئے ہیں۔ لیکن لوڈشیڈنگ پھر بھی بڑھ گئی۔ موجودہ حکومت اسی سال 4سو میگاواٹ بجلی کی پیداوار شروع کر رہی ہے۔ دریائوں میں پانی میں اضافہ ہونے پر بھی 3سے 5 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہونے لگتی ہے۔ لیکن کیا کبھی لوڈشیڈنگ میں کمی آئی؟ یہ اضافی بجلی جاتی کہاں ہے؟ پیداوار بھی بڑھتی ہے۔ لوڈشیڈنگ بھی بڑھتی ہے اور حکومت ‘ بجلی گھروں کے مالکان کو پوری قیمت بھی نہیں دے پاتی۔ موجودہ حکومت نے آتے ہی 500 ارب روپے کا گردشی قرضہ اتارا اور ایک سال سے بھی کم عرصے میں یہ پھر 500 ارب روپے کے قریب ہو چکا ہے۔ یہ وہ اندھیر کھاتہ ہے‘ جس میں کمی ہی رہے گی۔ آج تک کسی نے قومی اسمبلی اور سینٹ میں یہ سوال نہیں پوچھا کہ حکومت جو ہر سال 500ارب روپے کی بھاری رقم اپنے خزانے سے ادا کرتی ہے‘ اس کی وجہ کیا ہے؟ ان 500 ارب روپووں کی بجلی کہاں گئی؟ اب تو لوٹ مار کا انتظام مزید پختہ کر دیا گیا ہے۔ ہمیں خبر دی گئی ہے کہ واپڈا اوربجلی کمپنیوں کی سپلائی لائنز میں 15ہزارمیگاواٹ سے زیادہ بجلی کا بوجھ اٹھانے کی گنجائش نہیں۔ اللہ اللہ خیرسلا۔چور تو یہاں بھی پکڑا جا سکتا ہے کہ جب آپ 15ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی فراہم ہی نہیں کر سکتے‘ تو خریدتے کیوں ہیں؟یاد رہے! جب 15ہزار میگاواٹ یا اس سے زیادہ بجلی خریدی جائے‘ تولوڈشیڈنگ پھر بھی رہے گی۔ چوروں کا بھی حق ہوتا ہے۔جبکہ موجودہ پاکستان میں سارے حقوق چوروں ہی کو حاصل ہیں۔ کنڈیاں ڈال کر بھی بجلی مفت میں نہیں ملتی۔ اس کی قیمت ملازمین کی جیبوں میں جاتی ہے۔
گی۔ آج تک کسی نے قومی اسمبلی اور سینٹ میں یہ سوال نہیں پوچھا کہ حکومت جو ہر سال 500ارب روپے کی بھاری رقم اپنے خزانے سے ادا کرتی ہے‘ اس کی وجہ کیا ہے؟ ان 500 ارب روپووں کی بجلی کہاں گئی؟ اب تو لوٹ مار کا انتظام مزید پختہ کر دیا گیا ہے۔ ہمیں خبر دی گئی ہے کہ واپڈا اوربجلی کمپنیوں کی سپلائی لائنز میں 15ہزارمیگاواٹ سے زیادہ بجلی کا بوجھ اٹھانے کی گنجائش نہیں۔ اللہ اللہ خیرسلا۔چور تو یہاں بھی پکڑا جا سکتا ہے کہ جب آپ 15ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی فراہم ہی نہیں کر سکتے‘ تو خریدتے کیوں ہیں؟یاد رہے! جب 15ہزار میگاواٹ یا اس سے زیادہ بجلی خریدی جائے‘ تولوڈشیڈنگ پھر بھی رہے گی۔ چوروں کا بھی حق ہوتا ہے۔جبکہ موجودہ پاکستان میں سارے حقوق چوروں ہی کو حاصل ہیں۔ کنڈیاں ڈال کر بھی بجلی مفت میں نہیں ملتی۔ اس کی قیمت ملازمین کی جیبوں میں جاتی ہے۔