تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     16-07-2014

اِن دی لائن آف فائر

جب عام آدمی، عورتیں اور بچے ہلاک ہوتے ہیں تو عام طور پر ان کی ہلاکتوں کی درست تعداد نہیں بتائی جاتی کیونکہ بموں، راکٹوں اور گولوں کا نشانہ بن کر زندگی کی بازی ہار جانے والے یہ عام شہری طاقتور حلقوںکے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے ۔ اس لیے ہم پورے وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ اسرائیل کی بہیمانہ بمباری سے غزہ میں ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد کیا ہے؟ہاں ،اعداد وشمار کا کھیل جاری ہے۔ مثال کے طور پر کہا گیا کہ غزہ میں ہونے والی ستر فیصد ہلاکتیں عام شہریوں کی تھیںاور ان ستر فیصد میں تیس فیصد بچے تھے۔
حماس، جو اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنے والوں میں سب سے بڑا گروپ ہے، اسرائیل پر راکٹ برسارہا ہے ، لیکن اس جنگ کی ''خوبصورتی ‘‘ یہ ہے کہ یہ خوفناک حد تک یک طرفہ ہے۔ اس میں اسرائیل کو یقینی بالا دستی حاصل ہے اور تل ابیب پر سینکڑوں راکٹ فائرکیے جانے کے باوجود ابھی تک کسی اسرائیلی کی ہلاکت کی اطلاع نہیں ۔ حماس اور دیگر تنظیموں کی راکٹ باری سے بچنے کے لیے اسرائیل نے آئرن ڈوم ڈیفنس سسٹم قائم کررکھا ہے۔ یہ اس کی فضا میں داخل ہونے والے ہر راکٹ کو غیر موثر بنا دیتا ہے۔اسرائیلی فوج کے مطابق اس نے غزہ میں 1,320 ''دہشت گردی‘‘ کے ٹھکانوں ، بشمول 735 راکٹ لانچروں، 64 ٹریننگ کیمپوں اور حماس کی قیادت کے 32 اڈوں کو نشانہ بنایا۔ اس نے تما م غزہ میں حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ ان حملوں میںہلاک ہونے والے عام شہری اور ایسے بچے بھی شامل ہیں جنہیں نہ کسی ہتھیار کا علم ہے ، نہ وہ اسرائیل یا عالمی سیاست کے ہتھکنڈوںسے واقف ہیں۔ وہ صرف اپنی زندگی کے مصائب اور اپنی آنکھوںکے سامنے ہونے والی ہلاکتوں کو جانتے ہیں۔ 
یہ مسلمانوں کے لیے رمضان کا مقدس مہینہ ہے اورگرم اور مرطوب غزہ میں رہنے والے روزہ داروں پر خوفناک فضائی بمباری ہو رہی ہے۔ یہ عبادت ، ریاضت اور مغفرت طلب کرنے کا مہینہ ہے اور تمام مسلمان رحمت کے امیدوار ہوتے ہیں لیکن اس مہینے میں غزہ پر فضا سے آتش و آہن کی برسات جاری ہے جبکہ زمین پر پھول سے جسموںکے چیتھڑے اُڑ رہے ہیں۔ یہ کس قسم کی جنگ ہے؟ کیا اسے جنگ کہا جاسکتا ہے؟ہر گز نہیں، یہ قتل ِ عام ہے۔ 
اس دوران کچھ اور افسوس ناک واقعات بھی رونما ہورہے ہیں۔جس دوران اسرائیلی افواج غزہ میں مسلمانوں کا خون بہارہی ہیں، کچھ مسلمان گروہ مسلح ہو کر اپنے مسلمان حریفوں کو ہلاک کررہے ہیں۔ شام اور عراق میںخون میں ڈوبی ہوئی خلافت قائم ہورہی ہے جبکہ پاکستان بھی سفاک د شمنوں، جو مسلمان ہی کہلاتے ہیں، سے نمٹنے کے لیے آپریشن کررہا ہے۔ اس دوران لاکھوں آئی ڈی پیز، جو مسلمان اور روزہ دار ہیں، گرم موسم میں زندگی کی مشکلات سے نبردآزما ہیں۔ حکام کا کہناہے کہ فی الحال اس آپریشن ضربِ عضب کا کوئی حتمی ٹائم فریم نہیں دیا جاسکتا۔ جب فوج نے شمالی وزیرستان میںیہ آپریشن شروع کیا تو اس سے پہلے دہشت گردہزاروں پاکستانیوں کو ہلاک کر چکے تھے۔ آئی ایس آئی ایس بغداد پر قبضہ کرنے کی تیاری میں ہے اوروہاں کی حکومت بے بسی سے سب کچھ دیکھ رہی ہے۔ العربیہ نیوز چینل کے جی ایم 
عبدالرحمن الرشید کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی ایس القاعدہ سے بھی زیادہ بنیاد پرست ہے لیکن اس میں اچھائی کا ایک پہلو ہے۔۔۔ یہ مسلمانوںکو ان حکمرانوںسے نجات دلانا چاہتی ہے جو سیاسی مفاد پرست ہیں اور انہوں نے عام لوگوں کے لیے کچھ نہیں کیا ۔ مسٹر رشید لندن سے شائع ہونے والے ایک اہم عرب اخبار '' اشرق الاست‘‘ (Asharq al-Awsat)میں لکھتے ہیںــ۔۔۔''آئی ایس آئی ایس کے جنگجووں کی شام اور عراق میں پیش قدمی اور یمن ، ترکی، اردن اور سعودی عرب کی سرحدوں کے قریب کارروائیاں نائن الیون کے بعد دنیا کے لیے سب سے چونکا دینے والی خبر ہے۔ آئی ایس آئی ایس کی طاقت میں اضافے کی زیادہ تر وجہ عرب حکمرانوں کی غفلت ہے۔ اُن کا خیال تھا کہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی جاچکی ہے۔ آئی ایس آئی ایس کے رہنما ابو بکر البغدادی کا کہنا ہے کہ دنیا دیکھ لے کہ انہوں نے کس طرح چندگھنٹوںکے اندر موصل شہر کو فتح کر لیا۔اس نے وارننگ دی ہے کہ دنیا بھر کے ارب سے زائدمسلمان اُسے اپنا خلیفہ تسلیم کرلیں۔ اس پیش رفت سے علاقے کی دیگر ریاستیں خائف دکھائی دیتی ہیں۔‘‘
مسٹر رشید کے تجزیے کے مطابق مصر میں اخوان کی حکومت کا تختہ الٹنا اورجنرل سیسی کا اقتدار سنبھالنااور دوسری طرف آئی ایس آئی ایس کا آگے بڑھنا بہت اہم واقعات ہیں۔ ان کی وجہ سے عرب دنیا میں موجود دانشور حلقوں کی رائے تبدیل ہورہی ہے۔ اب اس خطے میں مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت ایک سوالیہ نشان بن کر سامنے آگئی ہے کیونکہ ان کو جواز بنا کر عام افراد کو اندھا دھند قتل کیا جارہا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں بھی آج انتہا پسندی کی حمایت میںکوئی آواز نہیں اور دہشت گردوںکو اسلام کے مجاہد قرار دینے والوں کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ اب دینی جماعتیں اور دیگر تنظیمیں بھی آپریشن کی خاموش حامی دکھائی دیتی ہیں۔ اسی طرح بہت سے ٹی وی اینکرز اور صحافی ، جو طالبان کی کامیابیوںپر عالم ِ اسلام کو مبارک باد دیا کرتے تھے، اب پوچھوتو منہ میں زباں نہیں۔ 
بہت سی ریاستوں میں حکومتیں بھی انتہا پسندوں کا تعاون حاصل کرتی تھیں۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب یہ طالبان ہمارے ''اثاثے‘‘ تھے اور ان کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو بھارتی اور امریکی ایجنٹ کہا جاتا تھا۔ پاکستان کی کچھ بڑی سیاسی جماعتوںپر بھی الزام ہے کہ ان کو کچھ حلقوں میں انتہا پسند تنظیموں کی حمایت حاصل تھی۔تاہم آج سب کچھ تبدیل ہورہا ہے۔ اگر کچھ نہیں بدلا تو وہ غزہ کا مقدر ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اسرائیل کے خلاف جنگ آزما مختلف مسلمان گروہ آپس میں بھی دشمنی رکھتے ہیں۔ 
چاہے انتہا پسندہو، اسرائیل یا کسی اور ملک کی بمباری ہو، خود کش حملے ہوںیا ان کے خلاف کیا جانے والا آپریشن، یہ عام شہری ہیں جو ان تمام معاملات میںسب سے زیادہ تکلیف اٹھاتے ہیں۔ دی اکانومسٹ لکھتا ہے۔۔۔'' ایک ہزار برس پہلے، بغداد، دمشق اور قاہرہ ترقی میں مغربی دنیا سے بہت آگے تھے۔ اُس وقت اسلام ترقی پسند نظریات کا نام تھا۔ اس کا پیغام علم کا پھیلائو، برداشت اور عالمی تجارت تھی۔ لیکن آج تمام عالم ِ اسلام پسماندگی میں ڈوباہوا ہے۔ مشرق ِوسطیٰ کی حالت سب سے خراب ہے۔ اسے آمریت اور اب انتہا پسندی نے اپنی لپیٹ میںلے رکھا ہے۔عرب دنیا میں ابھرنے والی بیداری کی لہر کے نتیجے میں کچھ آمرحکمرانوں کاخاتمہ ہوگیا لیکن پیدا ہونے والے خلامیں انتہا پسندی کے فروغ نے تمام معاملہ بگاڑ کررکھ دیا۔‘‘مصر ہو شام، عراق ہو یا غزہ، ہر جگہ مسلمانوں کا ہی خون بہہ رہا ہے۔ کیا اس کی وجہ صرف عالمی سازشیں ہیں یا ہماری داخلی خامی اور غلطی بھی اس میں کارفرما ہے؟ کیا یہ وقت نہیں آگیا کہ روایتی سوچ اور سازش کی تھیوریوں کو ایک طرف رکھ کر معاملات کی تفہیم کی جائے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ کیا خود کش حملہ آور تیار کرنے کی تحریک مغربی ممالک کی طرف سے آتی ہے ؟ کیا شیعہ سنی کی تفریق مغربی کتابوں اور میڈیا نے پیدا کی تھی؟ایک بات یادر کھنے کی ہے کہ اسرائیل کو فوجی طاقت سے نہیں ڈرایا جاسکتا۔ سابق ایرانی صدر دھمکیاں داغنے کی لاحاصل مشق کرتے رہے ہیں۔ اس پر سیاسی دبائوبڑھایا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ دبائو ڈالنے والے صفر جمع صفر جمع صفر جمع صفر نہ ہوں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved