تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     16-07-2014

عرب بہار میں کھلنے والے سرخ پھول‘ گل لالہ کے

ارشد محمود سے شناسائی کی ابتدا فون پر ہوئی۔ ایک دن ایک نئے نمبر کی باہر سے کال آئی۔ میں نے حسب معمول اٹھا لی۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی اجنبی نمبر سے فون آیا ہو اور میں نے نہ اٹھایا ہو۔ ہاں گاڑی چلا رہا ہوں تو اور بات ہے مگر لمبے سفر میں میرا بیٹا ٹیلی فون آپریٹر کے فرائض دیتا ہے اور اپنی اس ڈیوٹی سے بڑا تنگ رہتا ہے۔ میں نے فون اٹھایا تو دوسری طرف سے مخاطب نے اپنا نام ارشد محمود بتایا۔ ارشد کینیڈا سے بات کر رہا تھا۔ یہ کئی برس پرانی بات ہے۔ پھر ارشد سے فون پر مسلسل رابطہ رہنے لگا۔ وہ مجھے میرے کالموں اور شاعری کے حوالے سے جانتا تھا؛ تاہم ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو شاعری کے بجائے کالموں کے حوالے سے ہوتی تھی۔ ہر حساس اور پاکستان سے محبت کرنے والے دیار غیر میں مقیم دیگر پاکستانیوں کی طرح اس کا دل بھی پاکستان میں اٹکا ہوا ہے۔ پاکستان کی محبت میں سرشار دل۔ 
ارشد پنجاب یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہے۔ یہاں اس نے نفسیات میں ماسٹر کیا ہوا ہے۔ آگے پی ایچ ڈی کرنا چاہتا تھا مگر اپنے غیر منافقانہ رویے کی بدولت راندۂ درگاہ ٹھہرا اور خود کو اس سارے سیٹ اپ میں رائج طریقہ کار پر پورا نہ اترنے کے باعث کینیڈا منتقل ہو گیا۔ وہ وہاں ماہر نفسیات ہے اور بڑا کامیاب ہے۔ وہ ہر سال مجھے کینیڈا کے ویزے کے لیے ایک دعوت نامہ‘ ایک نوٹری پبلک کا تصدیق شدہ سپانسر شپ لیٹر اور اپنی بینک سٹیٹمنٹ بھجواتا ہے۔ یہ سارے کاغذات ہر سال ضائع ہو جاتے ہیں۔ میں ان کاغذات کو اپنے دراز میں رکھ کر بھول جاتا ہوں۔ وہ اللہ کا بندہ بھی عجب مستقل مزاج ہے ہر سال دوبارہ سارے کاغذات بنواتا ہے اور بذریعہ ڈاک بھجوا دیتا ہے۔ پھر ٹکٹ بھجوانے کی آفر کرتا ہے۔ کسی مشاعرے کا بندوبست کرنے کا کہتا ہے۔ کبھی میرے ساتھ کسی پروگرام کا منصوبہ بناتا ہے مگر سب کچھ میری ازلی سستی اور مسلسل سفر کے باعث چوپٹ ہو جاتا ہے۔ کئی سال تک میری اور اس کی دوستی ایسی رہی کہ میں نے اسے دیکھا تک نہیں تھا۔ 
دو سال پہلے میں امریکہ میں اپنی تایازاد بہن سعدیہ طارق کے پاس پٹس برگ پہنچا تو ارشد کینیڈا سے اپنی گاڑی پر مجھے ملنے آ گیا۔ سعدیہ کے ڈرائنگ روم میں ہم رات گئے تک گپیں مارتے رہے۔ موضوع وہی پاکستان تھا۔ آدھی رات کو وہ واپس روانہ ہو گیا۔ اسے بڑا روکا مگر وہ رات کے دوسرے پہر واپس ہوٹل چلا گیا اور صبح کینیڈا روانہ ہو گیا۔ گزشتہ سال اس نے پھر سارے کاغذات بنوائے اور بھجوا دیے۔ وہ کاغذ میرے دراز میں پڑے ہیں۔ میں ہر سال اس سے کینیڈا آنے کا وعدہ کرتا ہوں اور ایمانداری کی بات ہے کہ میں یہ وعدہ نبھانے کی غرض سے کرتا ہوں مگر وہی بات کہ جناب علیؓ کا قول صادق آتا ہے کہ ''میں نے اپنے ارادے کے ٹوٹنے سے‘ اللہ کی ذات کو پہچانا‘‘۔ ہر سال وعدہ ہوتا ہے اور ایفا نہیں ہوتا۔ 
گزشتہ رات اس کا فون آیا تو اس کی آواز کی وہ شوخی ندارد تھی جو اس کی پہچان ہے۔ کہنے لگا ہر بار آپ سے پاکستان پر بات ہوتی ہے اور آپ لوگ بھی مسلسل پاکستان ہی کے بارے میں لکھتے ہیں اور فکر مند رہتے ہیں مگر آج میں آپ سے پاکستان کی بات نہیں کروں گا۔ یہ تو روز ہی ہوتی رہتی ہے۔ مجھے گزشتہ کئی روز سے نہ دن کا سکون ہے نہ رات کا چین ہے۔ میں غزہ میں ہونے والی بربریت کو دیکھتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ معصوم بچوں کی خون میں لت پت لاشیں دیکھتا ہوں تو مسلمان کی حیثیت سے ہٹ کر انسان ہونے کے ناتے اس ظلم اور بہیمیت پر بے چین ہو جاتا ہوں۔ آپ کالم نویس کیا کر رہے ہیں؟ انسانی حقوق کے علمبردار کہاں ہیں؟ ہمہ وقت انسانیت کی نام لیوا اور اس بنیاد پر شورو غوغا مچا کر دنیا بھر سے پیسے بٹورنے والی این جی اوز کہاں ہیں؟ کسی بھی داڑھی والے سے ہونے والی غلطی پر آسمان سر پر اٹھانے والی ترقی پسند خواتین اس انسانی المیے پر کیوں خاموش ہیں؟ کیا ان کے اپنے بچے نہیں ہیں؟ ہمہ وقت مذہب کے لتے لینے والے‘ دس کوڑوں پر خواہ وہ جعلی ہی کیوں نہ ہوں‘ جلوس نکالنے والے روشن خیال کہاں مر گئے ہیں؟ میں نے کہا ان کے مسائل دوسرے ہیں۔ انہوں نے وہ کرنا ہے جس سے ان کے 
ڈونر خوش ہوں۔ انہوں نے مغرب کی خوشنودی کو مدنظر رکھنا ہے۔ یورپ اور امریکہ کی مرضی و منشا کا خیال رکھنا ہے۔ انسانیت کو شک کی آنکھ سے اور اپنی روشن خیالی کو تعصب کی آنکھ سے دیکھنا ہے۔ وہ کہنے لگا مگر آپ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ آپ کیوں خاموش ہیں؟ میں نے کہا ہمیں ہمارے حاکموں نے نان ایشوز میں پھنسا رکھا ہے۔ ہمارے حاکموں کی ڈور ہلانے والوں نے ہمیں ہمارے مسائل میں گردن گردن پھنسا دیا ہے۔ ہمارے اپنے گھر میں آگ لگا رکھی ہے۔ دہشت گردی‘ سیاسی بے یقینی‘ ملک کے دائیں بائیں بتدریج بڑھتا ہوا دبائو‘ عبداللہ عبداللہ سے لے کر نریندر مودی اور شاہد اللہ شاہد سے لے کر فضل اللہ تک۔ وہ کہنے لگا اور عالم اسلام؟ میں نے کہا اس کے تین حصے ہیں۔ ایک حصہ اب اقتصادی ترقی کو ہی اپنی کامیابی سمجھتا ہے۔ اسے اب مذہب اور دین کے نام پر وقت کا ضیاع منظور نہیں۔ دوسرا حصہ ان بادشاہوں اور آمروں پر مشتمل ہے جن کا انجام دور نہیں اور تیسرا حصہ ''عرب بہار‘‘ کی خزاں کا شکار ہے۔ 
ہم کچھ کرنے کے قابل تھے اور اب کچھ کرنے کے قابل نہیں چھوڑے گئے۔ اسرائیل کو محفوظ کرنے کی غرض سے اسرائیل کے اردگرد ہر اس عرب ملک کا بیڑہ غرق کردیا گیا ہے جس سے اسرائیل کو رتی برابر بھی خطرہ تھا اور یہ سب کچھ ان کے ہاتھوں سے ہو رہا ہے جو اسرائیل دشمنی کے نعرے لگاتے تھے۔ عرب بہار‘ لیبیا کا قذافی گیا اور اب لیبیا کا وہ حال ہے کہ کچھ پتہ نہیں کس کی حکومت ہے اور کہاں کی حکومت ہے۔ عربوں میں متوقع ایٹم بم کا قصہ ماضی ہوا۔ تونس میں زین العابدین بن علی رخصت ہوا اور ابھی تک بدامنی کا سلسلہ چل رہا ہے جو ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ یمن میں علی عبداللہ صالح کی چھٹی ہوئی اور وہی شورش۔ حسنی مبارک گیا اور مرسی آیا۔ پھر اسرائیل کے متوقع مخالف اخوان کے محمد مرسی کا تختہ الٹا اور جنرل سیسی آ گیا۔ عراق اور شام میں داعش نے سارا نظام تلپٹ کردیا ہے۔ کرد علیحدہ وطن کی طرف گامزن ہیں۔ عراق اور شام حصے بخرے ہو رہا ہے۔ وہاں ''عرب اور عجم‘‘ کی جنگ سارا جغرافیہ تبدیل کرنے کے در پے ہے۔ اسرائیل میں فلسطینیوں کی نسل کشی زوروں پر ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے سے غزہ پر حملے ہو رہے ہیں۔ معصوم اور بے گناہ فلسطینیوں کے خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے اور عرب دنیا خاموش تماشائی ہے۔ کہیں عرب بہار اپنی بہار دکھا رہی ہے اور کہیں اس بہار سے خوفزدہ آمر اور بادشاہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے اس کے گزرنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ 
ادھر ہم ہیں کہ ہمیں خوشی اس بات کی ہے کہ چودھری نثار صاحب راضی ہوگئے ہیں اور فکر اس بات کی ہے کہ چودہ اگست کو ڈی چوک پر کیا ہوگا۔ عرب بہار میں انسانی خون سے رنگے ہوئے پھول کھلے ہیں۔ سرخ پھول‘ گل لالہ کے۔ ہمیں سیتا وائٹ کے سکینڈل کو اچھالنے اور ٹیریان کی ولدیت کی فکر ہے۔ ادھر غزہ میں معصوموں اور بے گناہوں کے خون سے رنگیں پھول کھل رہے ہیں۔ سرخ پھول‘ گل لالہ کے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved