یہ1958ء یا59ء کی بات ہے کہ بھارتی فلم سٹارز‘ پاکستانی فنکاروں کے ساتھ کرکٹ میچ کھیلنے‘ کراچی آئے۔ یہ سب لوگ ہوٹل میٹروپول میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ یہ اس دور میں سب سے معیاری اور بڑا ہوٹل تھا۔ پیلس اور تاج موجود تو تھے لیکن ان کے پاس‘ میٹروپول جتنی فراخی نہیں تھی۔ بھارتی مہمان چھ سات دن وہیں مقیم رہے۔ ہر شام ہوٹل میں یا کسی مقامی فنکار کے گھر محفلیں جما کرتیں۔ تب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان‘ فلموں کے تبادلے ہوا کرتے۔ ایک پاکستانی فلم کے بدلے میں‘ ایک بھارتی فلم پاکستان میں آتی۔ بھارتی تقسیم کار پاکستانی فلمیں درآمد تو کر لیتے مگر ریلیز نہیں کرتے تھے۔ ایک پاکستانی فلم اسی ہزار سے ایک لاکھ روپے کے عوض بھارت بھیجی جاتی۔بھارتی فلم ساز اسے سودے کا حصہ سمجھ کر خرید لیتے اور ڈبوں میں بند کر کے پھینک دیتے۔ اس زمانے میں بھارتی فلم چار پانچ لاکھ روپے میں آیا کرتی تھی۔ بھارتیوں کو پاکستان کی مارکیٹ صرف اس صورت میں دستیاب تھی کہ وہ اپنی کوئی فلم پاکستان بھیجنے کے بدلے میں‘ ایک پاکستانی فلم خریدنے کے پابند تھے۔ دوسری طرف پاکستانی تقسیم کار ‘بھارت کی فلاپ اور سستی سی فلمیں اٹھالیا کرتے اور یہاں وہ جوبلیوں پہ جوبلیاں پھڑکایا کرتیں۔ مجھے یاد ہے پنجابی کی ایک فلم'' پوستی‘‘ بری طرح فلاپ ہوئی تھی۔ پاکستانی ڈسٹری بیوٹر نے‘ اسے ایک ڈیڑھ لاکھ روپے میں خریدا۔وہ یہاں ریلیز کی گئی تو ہر چھوٹے بڑے شہر میں ‘سلور یا گولڈ ن جوبلی کی۔ ایسی ہی ایک فلم ''تاج‘‘ تھی جو بھارت میں فلاپ ہوئی اور یہاں کے بڑے شہروں میں جوبلیاں کر گئی۔ بھارتی فلم سٹار آج کی طرح‘ پاکستان میں بے حد مقبول تھے۔ بھارتی فلموں پر1965ء کے بعد پابندی لگی اور پچیس تیس سال‘ یہاں کے لوگوں کو بھارتی فلمیں دیکھنے کا موقع نہیں ملا۔ اس عرصے میں بھارت کی فلم انڈسٹری‘ بہت آگے بڑھ گئی لیکن وہاں کے فنکار پاکستانیوں کے لئے اجنبی ہو گئے۔ جنگ سے پہلے یہ صورت حال نہیں تھی۔ بھارت کے فلمی ستارے ‘جب بھی کوئی امدادی میچ کھیلنے پاکستان آتے تو خاصی بڑی بڑی رقوم‘ فلاحی کاموں کے لئے جمع ہو جاتی تھیں۔
ایک شام کا ذکر ہے کہ میٹروپو ل میں پاکستانی اور بھارتی ستاروں کی محفل جمی تھی۔ میں ان دنوں بیک وقت کراچی کے د و ہفت روزوں میں کام کیا کرتا تھا۔ ایک سیاسی ہفت روزہ کا نام ''تعمیر نو‘‘تھا جو محمود مبصر نکالا کرتے اور فلمی ہفت روزہ''نور جہاں ‘‘ تھا‘ جس کے مالک ایس اے چاولہ تھے۔ میں اس فلمی جریدے کی طرف سے ان محفلوں میں شریک ہوتا۔ جس شام کا ذکر ہے‘ پاکستانی اداکار طالش‘ سنتوش کمار‘ ہمالیہ والا اور بہت سے نامور اداکار موجود تھے‘بھارتی اداکاروں میں صرف دو نام یاد ہیں ایک ‘کرن دیوان تھے اور دوسرے آئی ایس جوہر۔ ان میں شاید اب کوئی بھی زندہ نہیں۔ آئی ایس جوہر نہ صرف مشہور کامیڈین تھے بلکہ فلموں کے لئے سکرپٹ بھی لکھا کرتے اور اپنے دور کے مشہور فلمی جریدے'' فلم فیئر‘‘ میں سوال وجواب پر مشتمل ایک کالم بھی لکھتے‘ جو بے حد مقبول تھا۔ آئی ایس جوہر کی فطری ظرافت‘ اس کے جوابات میں خوب نمایاں ہوتی۔ایک سے ایک اچھا جملہ پڑھنے کوملتا۔ وہ فلموں اور جریدے میں ہی کامیڈین نہیں تھے ‘ عملی زندگی میں بھی‘ بات بات پر شگوفے چھوڑتے۔ مزاحیہ اداکاری کرنے اور طنز و مزاح پر مبنی تحریریں لکھنے کے علاوہ جوہر ‘محفل باز بھی کمال کے تھے۔ ایسے لوگ گپ باز بہت ہوتے ہیں۔ لوگ جانتے ہوئے بھی انہیں بے حد توجہ سے سنتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کی باتوں کو سنجیدگی سے کوئی نہیں لیتا ۔ جوہر نے کوئی گپ لگا دی۔ محفل میں شریک ایک صاحب ‘اس پر سنجیدہ ہو گئے اور انہوں نے جوہر کو چیلنج کر دیا کہ آپ نے یہ بات غلط کی ہے۔ جوہر‘ ڈٹ گئے کہ اگر تم غلط ثابت کرو تو دو سو روپے تم کو دونگا۔ اس
شخص نے کہا کہ میں آپ سے پیسہ نہیں لوںگا لیکن اگر آپ غلط ثابت ہوئے تو آپ کو مونچھیں صاف کروانا پڑیں گی۔ جو ہر نے فوراً ہاتھ ملا کے شرط پکی کر لی۔ صبح انہوں نے حجام کو بلایا۔ مونچھ صاف کروا کے ایک لفافے میں رکھ لی۔ دوپہر کے قریب وہ صاحب ثبوت کے ساتھ جوہر کے کمرے میں آئے۔ جوہر نے اسے دیکھتے ہی لفافہ اٹھایا اور پیش کرتے ہوئے بولے '' میں شرط ہار گیا۔یہ رہا آپ کی جیت کا سامان‘‘۔شرط جیتنے والے نے حیرت سے کہا '' ہم لوگ تو مونچھ کو اونچا رکھنے کے لئے جان کی بازی لگا دیتے ہیں اور آپ نے پوری مونچھ ہی منڈوا دی‘‘۔ آئی ایس جو ہر نے زور کا قہقہہ لگایا '' لفافے میں پڑے ہوئے یہ چار بال کیا اس قابل ہوتے ہیں کہ ان کو اونچا یا نیچا رکھنے کے لئے جان پر کھیلا جائے؟‘‘ اس کامیڈین نے مونچھ کو آن بان اور شان سمجھ کر جان پر کھیل جانے والوں کا مضحکہ اڑایا اورسمجھایا کہ وقعت ان چار بالوں کی نہیں ہوتی‘ یہ آپ کا موقف اور دعویٰ ہوتا ہے جو آپ لفظوں میں کرتے ہیں‘ مونچھ کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا‘ میں نے صبح ہی مونچھ منڈوا کر لفافے میں رکھ دی تھی‘ اگلے چند روز میں مونچھیں پھر آجائیں گی‘ مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ جو مسئلہ ہمارے ضدی لوگوں کے لئے‘ زندگی موت کا کھیل بن جاتا ہے‘ ایک کامیڈین نے ہنسی میں اڑا کے رکھ دیا۔
قومی اسمبلی کی چار نشستوں پر‘ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا جو مطالبہ ہو رہا ہے‘ وزیراعظم نے اسے خواہ مخواہ مونچھ کا سوال بنا لیا۔ ان انتخابات میں کئی نشستوں پر
دوبارہ گنتی ہوئی۔ کہیں جیتا ہوا امیدوار ہار گیا اور کہیں ہارے ہوئے کو کامیاب قرار دیا گیا۔ انہی دنوںمیں مزید چار متنازعہ نشستوں پر دوبارہ گنتی کر دی جاتی تو یہ مطالبہ اتنا بڑا مسئلہ نہ بنتا ‘ جتنا اب حکومت بنا کر بیٹھ گئی ہے۔عمران خان ایک سال سے انہی چار نشستوں کا معاملہ لے کر‘ٹربیونل اور عدالتوں میں جا رہے ہیں۔ شہر شہر جلسہ کر کے‘ طرح طرح کی دھمکیاں دیتے ہیں اور ہر جلسے کے ساتھ حکومت کی ضد میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے اور اب حالات یہ ہیں کہ حکومت اگر مطالبہ مان لیتی ہے تو اسے مونچھ نیچی کرنا پڑے گی اور نہیں مانتی تو اپوزیشن اسی مسئلے پر ڈھول بجا بجا کر‘ حکومت کا سکھ چین حرام کرتی رہے گی۔ اب تو حکومتی وزراء چار حلقوں کا نام سن کر‘ ہوش و حواس سے بیگانہ ہو جاتے ہیں۔ کوئی عمران خان کے ماضی کو کرید کرید کر‘ طعنے ڈھونڈتا ہے ۔کوئی جوابی دھمکیاں دیتا ہے۔ وزیرداخلہ نے تو ایک بار قومی اسمبلی کے ایوان میں کھڑے ہو کر‘ چیلنج کر دیا تھا کہ اپوزیشن چاہے تو ہم ستر کی ستر نشستوں پر‘ دوبارہ گنتی کرا دیتے ہیں۔ یہ دعویٰ کرنے کے بعد‘ ان کی طبیعت بوجھل ہو گئی۔ سر میں درد رہنے لگا۔ دل بیٹھتا ہوا محسوس ہوا تو ہسپتال میں جا کر‘ا نجیو پلاسٹی کروائی اور اب بھولے سے بھی وہ پیش کش نہیں دہراتے۔ چار نشستوں کے سوال کو ‘ حکومت نے بلاوجہ اپنی دکھتی رگ بنا لیا ہے۔ اپوزیشن ‘ایک ماہر باکسر کی طرح‘ بار بار اسی جگہ پنچ مارتی ہے جہاں پہلے سے درد جاری ہے۔آپ کو یاد ہو گا کہ میں نے اسی کالم میں لکھا تھا کہ پیپلز پارٹی کی مفاہمانہ بلکہ حلیفانہ پالیسی پر نہ جائیں‘ پیپلز پارٹی پر نظر رکھیں۔ وہ موقعے کی تاک میں ہے۔ کسی روز اچانک پلٹا کھاکر‘ سب کو حیرت زدہ کر دے گی۔ یہ واقعہ ہو گیا۔ کل جناب آصف زرداری نے واضح طور سے اعلان کر دیا کہ وہ چار نشستوں پر‘ دوبارہ گنتی کے مطالبے کی حمایت کرتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کو چاہئے کہ وہ چار نشستوں پر دوبارہ گنتی کے چھوٹے سے معاملے کو پیچیدہ بنا کر‘ اپنی مشکلات میں مزید اضافہ نہ کرے۔ ان چار نشستوں پر دوبارہ گنتی سے کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن حکومتی وزرا مونچھ کے چار بالوں پر اپنی عزت دائو پر لگا کر بیٹھ گئے۔ جس بات کی سمجھ ایک فلمی کامیڈین کو تھی‘ ہمارے ملک کی سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی کو اس کی سمجھ نہیں آرہی۔آصف زرداری کا مشورہ بالکل صائب ہے۔ اب بھی حکومت حوصلہ کرے تو مونچھوں کے چار بال کٹوا کے لفافے میں بند کرے اور عمران خان کو اس پیش کش کے ساتھ بھیج دے کہ آپ ان چارحلقوں میں دوبارہ گنتی کروا لیں۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ حکومت کی پارلیمانی اکثریت میں فرق نہیں آئے گا۔ اپوزیشن نے سال بھر کی محنت کے بعد‘ مونچھ کا ایشو بنایا ہے اور اسی کے گرد اپوزیشن کی ساری طاقت جمع ہو رہی ہے۔ آج بھی چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کی پیش کش دیکھ کر‘ مونچھ کے چار بال عمران خان کے حوالے کر دئیے جائیں تو اپوزیشن کو نیا مسئلہ پیدا کرنے کے لئے ایک سال مزید درکار ہو گا۔