کامیابی کی کلید محض عقلِ عام نہیں بلکہ پختہ شعورہے۔ قوانینِ قدرت کا ادراک ۔ پیہم غور وفکر اور طالبِ علمانہ طرزِ احساس جس کو صیقل کر دیا گیا ہو ۔ عزّتِ نفس کے شعور سے مزاج میں ٹھہرائو جنم لیتاہے ، آدمی کے لیے جو خالق کی منشا ہے ۔ تب وہ شخصیت ظہور کرتی ہے ، سوچ سمجھ کر جو فیصلہ کرے اور یہ فیصلہ اسے تبدیل نہ کرنا پڑے۔ مستقل مزاجی کا جوہر فقط بلند ہمّتی اور مصائب برداشت کرنے کا نام نہیں بلکہ حیات کے فہم کا۔ آدمی جب جان لیتاہے کہ زندگی کیا ہے اور اس کے تقاضے کیاہیں۔ جب خود کو وہ اصولوں کے سانچے میں ڈھالنے کی سعی کرتاہے ۔ ذہانت خواہ کتنی ہی چمک دار کیوں نہ ہو ، فوری کامیابی کا سامان تو کر سکتی ہے مگر دیر پا ظفر مندی کا نہیں ۔ غیر معمولی ریاضت اور تحرّک کے باوصف بھی وہ ایک ذوالفقار علی بھٹو تو پیدا کر سکتی ہے مگر قائداعظم محمد علی جناح کبھی نہیں ، تاریخ کے دوام میں جن کے لیے توقیر رکھی گئی ۔
پارہ صفت اور بے باک ادیب ممتاز مفتی پروفیسر احمد رفیق اختر سے ملنے جاتے تو یہ کہا کرتے : میں دیکھتا ہوں کہ وہ اپنے کونوں کو گول کرنے میں لگے رہتے ہیں ۔ کسی بھی دوسرے شخص سے زیادہ شاید یہ اس ناچیز کا فرض ہے کہ عہدِ رواں کے عارف کی زندگی کو بیان کرنے کی کوشش کرے ۔بیس برس ہونے کو آئے کہ سینکڑوں ملاقاتیں ان سے کی ہیں ۔ سفر اور حضر میں ، ان کا ساتھ رہا۔ ہر طرح کے نشیب و فراز میں انہیں دیکھا ہے ۔ اس وقت ، جب جان پہ بن آتی ہے ۔ اس وقت ، جب غیر معمولی پذیرائی میں نفسِ انسانی فریب دہی میں آسانی پاتا ہے ۔ اس وقت ، جب نازک ترین
معاملات پر جنرل اشفاق پرویز کیانی یا کوئی اور اہم شخصیت رہنمائی کی آرزومند ہوتی ۔ ممتاز مفتی کی طرح، ہم بھی گواہ ہیں کہ ایسی ہر کیفیت میں عدل کے تقاضے پورے کرنے کے علاوہ، ہم نے انہیں خود سے بھی نبرد آزما پایا۔ بخدا کپتان بدقسمت نکلا کہ اس دیار سے فیض نہ پا سکا اور ایک فریب خوردہ کے ہتھے چڑھا ہے۔ اگر کبھی روداد لکھی تو تفصیل بھی عرض کروں گا ۔ فی الحال تو درپیش سیاسی معرکے پر عرض کرنا تھا کہ خیال بھٹک کر دور چلا گیا۔
جب سے لانگ مار چ کا اعلان ہوا ہے ، حکمران پارٹی کے طرزِ عمل پہ تعجب سا ہوتاہے ۔ ایک ذرا سا ادراک بھی ان لوگوں کو نہیں کہ سیاسی حکمتِ عملی میں جذبات کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ انتقام اور عداوت ، اناپروری اور جعلی عزت کو خیر باد کہہ کر نگاہ مقصد پہ رکھی جاتی ہے ۔ حکمران جماعت کا مقصود کیا ہے ؟ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی تحقیر یا سیاسی استحکام ؟
مسئلہ حل کرنا مقصود ہو تو بحث کو الجھایا نہیں جاتا۔ شاید ایک بار پہلے بھی ذکر کیاتھا، ممتاز اور کامران وکیل جناب ایس ایم ظفر سے سوال کیا کہ ان کی کامیابی کا راز کیا ہے ۔ کہا : کوشش ہوتی ہے کہ مباحثے کو اس کے بنیادی نکات سے دور نہ جانے دیا جائے ۔ ہم نے دیکھا کہ ہمارے دوست اکرم شیخ کے برعکس میاں محمود علی قصوری ، ایم انور اور ایس ایم ظفر ایسے وکلا طیش میں کبھی نہ آتے، کبھی کوئی دعویٰ نہ کرتے ۔ اے کے بروہی، مشہورِ عالم اطالوی اخبار نویس آریانا فلانچی کو انٹرویو دیتے ہوئے ، بھٹو نے جنہیں ''بہترین میں سے بہترین‘‘ کہا تھا، گاہے فلسفہ آرائی ضرور کرتے مگر مباحثے کو الجھنے سے بچائے رکھتے ۔
سیاست قانون سے کہیں زیادہ نازک ہے کہ اس کاتعلق معاشرے کے مستقبل سے ہوتاہے ، پھر اس میں غیر ذمہ داری کے مرتکب ہم کیسے ہو سکتے ہیں ؟ سرکارؐ نے ارشاد کیا تھا : بنی اسرائیل کے انبیا ؑ سیاست کیا کرتے تھے۔ تو کیا ہم اسے پیغمبرانہ منصب قرار نہ دیں گے ؟ سوال یہ ہے کہ اس میدان میں رانا ثناء اللہ، پرویز رشید اور اب ارسلان افتخار ایسے کردار کیوں ابھرتے ہیں ؟
دو عشرے ہوتے ہیں ، وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ بیرونِ ملک سفر کرنے والے ایک مسافر نے بیان کیا: پانچ چھ بار ان کے فون کی گھنٹی بجی۔ بار بار ان سے درخواست کی جا رہی تھی کہ وہ نرمی سے کام لیں مگر وہ مصر تھے کہ مقدمہ چلایا جائے گا۔ ہم رکاب کو تجسّس نے آلیا۔ منزل پر جا پہنچنے کے بعد اپنے ایک رفیق سے اس نے کہا کہ وہ اخبار پہ نگاہ رکھے کہ کیا حکومت نے کسی کے خلاف کوئی نیا مقدمہ دائر کیا ہے ؟ یہ اخبار نویس نجم سیٹھی تھے، جن کے بارے میں سب حقائق بیان کر دئیے جائیں تو دانتوں میں لوگ انگلیاں دبا لیں ۔ ان پر بغاوت کا کیس بنایا گیاکہ حکومت پر نکتہ چینی کے مرتکب رہے ۔ وہ گرفتار ہوئے ، حتیٰ کہ اندرون اور بیرونِ ملک احتجاج کے بعد انہیں رہا کرنا پڑا۔ تب وزیراعظم اس شخص کے انسداد پہ تلے تھے ، آج اس کی سرپرستی پر کہ انتخابی معرکے میں ان کے ہم نفس ہوئے، قوم کو تب بھی خبر نہیں تھی ۔ اب بھی وہ لمبی تان کر سوئی ہے کہ بادشاہ سلامت جو چاہیں کرتے رہیں ؎
جو ستم ہے بے سبب ہے ، جو کرم ہے بے طلب ہے
ہمیں یہ بھی ہے گوارا، ہمیں وہ بھی ہے گوارا
وزیراعظم خراب موسم میں موصوف کی چھتری کیوں بنے ہوئے ہیں ؟ اخبار نویسوں کو غور کرنا چاہیے کہ کیا اس میں کوئی بھید ہے ۔ تین برس ہوتے ہیں ، کپتان سے سیٹھی کی ملاقات ہوئی تو اس نے کہا : ناراضی بجا لیکن کردار کشی کیوں کرتے ہو ؟ اس نے کہا : میں تو فقط تجزیہ و تنقید کا فرض ادا کرتا ہوں ۔ کڑے لہجے میں کپتان نے کہا: کیا تم دوسروںکو بے وقوف سمجھتے ہو ؟ عمران خان کرکٹ کی دنیا میں ایک افسانوی کردار بن کے ابھرا تو طاقت کی پوجا کرنے والے سیٹھی قسم کے لوگ اس کے مشتاق رہا کرتے ۔ اس نے پاکستان کی قومی ثقافت پہ اصرار شروع کیا تو یہ لوگ اس کے مخالف ہو گئے ۔ غیر ملکیوں سے مرعوب وعدہ معاف گواہ۔
مشکوک میڈیا گروپ نے پیپلز پارٹی ، نون لیگ اور ایم کیو ایم کے بارے میں کپتان کے جملے کو سیاق و سباق سے الگ کر کے پیش کیا ۔ توڑ مروڑ کر اور مقصد اس کاواضح ہے ۔ ادھر سیٹھی اور اس کے ساتھیوں نے ایک مہم برپا کر رکھی ہے ۔ کچھ اپنی بقا اور کچھ حکمرانوں کی خوشنودی کے لیے ۔ یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آرہی کہ جس مصیبت سے وہ دوچار ہیں ، وہ خود ان کے طرزِ عمل کا نتیجہ ہے ۔ ان میں سے بعض یہ کہتے ہیںکہ اپنے آقا کو وہ سمجھاتے رہے کہ اخبار اور ٹی وی کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے۔ ایک بے سود جنگ میں اپنی توانائیاں وہ برباد کر رہے ہیں ۔ ان کی پالیسی ہی غلط ہے ، جب تک بدلیں گے نہیں ، ادبار تمام نہ ہوگا۔ سچ کہا : بربادی کی بنیاد بے عقلی ہوا کرتی ہے ۔ طاقت کا خمار شعور کی فصل اجاڑ دیتاہے ۔ نون لیگ کا المیہ بھی یہی ہے ۔ پہلے بھی دو بار حکومت جاتی رہی ۔ اب بھی اپوزیشن کی ناکردہ کاری ہی ان کی مددگا رہے وگرنہ خود کو خراب کرنے میں کوئی کسر انہوں نے چھوڑی نہیں ۔ کپتان کا مقدمہ بنیادی طور پر درست ہے ۔ دھاندلی تو ہوئی ۔ یہ الگ بات کہ اس وقت تحریکِ انصاف بھی مستحکم حکومت تشکیل نہ دے سکے گی۔
جذبات کے مارے لوگ۔ وہ آپس میں بات کیوں نہیں کرتے ؟ کامیابی کی کلید محض عقلِ عام نہیں بلکہ پختہ شعورہے۔ قوانینِ قدرت کا ادراک ۔ پیہم غور وفکر اور طالبِ علمانہ طرزِ احساس جس کو صیقل کر دیا گیا ہو ۔