افغانستان میں انتخابی دھاندلی کا مسئلہ پیدا ہوا ‘تو سمجھوتہ ہو گیا کہ ''دونوں امیدوار ووٹوں کے جامع ترین آڈٹ اور اس کے نتائج تسلیم کرنے پر آماد ہ ہو گئے ہیں۔ ڈالے گئے ہر ووٹ کی ہر پہلو سے جانچ پڑتال کی جائے گی۔ حتمی نتیجے کو تسلیم کرنے کے بعد‘ کامیاب امیدوار ہارنے والی ٹیم سے اچھی شہرت کے حامل افراد کو ‘قومی اتحاد پر مبنی حکومت میں شامل کرے گا‘‘۔ تیسری دنیا کے قائدین‘ اپنے معاملات خود سلجھانے کے معاملے میں‘ بہت کم سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ اکثر بیرونی ہاتھ‘ نہ صرف انہیں بساط بچھا کر دیتے ہیں بلکہ ایک ایک چال بتاتے بھی ہیں۔ افغانستان میں بھر پور عوامی شرکت کے ساتھ‘ تاریخ میں یہ پہلے عام انتخابات ہوئے ہیں۔ نئی نئی جمہوریتوں کی طرح‘ افغانستان میں بھی انتخابی نتائج پر‘ تنازعہ کھڑا ہوا۔ وہاں چونکہ امریکہ ایک بڑا سٹیک ہولڈر ہے‘ صدر اوباما سے وزیرخارجہ کیری تک سب فوراً متحرک ہو گئے۔ جان کیری اپنے وفد کے ساتھ کابل پہنچے اور دو دن میں‘ انتہائی معقول شرائط کے ساتھ‘ سمجھوتے پر دستخط کروا لئے۔ ساتھ ہی ہار جیت پر مزید جھگڑے کا راستہ بھی بند کر دیا۔طے یہ پایا کہ جو فریق آڈٹ کے بعد‘ کامیاب قرار پائے گا۔ وہ دوسرے فریق کے لائق ساتھیوں کو شریک اقتدار بھی کرے گا۔نہ صرف آج کے مسئلے کا حل نکال دیا گیا بلکہ آئندہ کے لئے بھی تعاون کا راستہ متعین کر دیا۔ ایک ہم ہیں کہ ہر بار سیاسی بحران پیدا ہوتا ہے۔ ہر ایک انتخابی نتیجہ متنازع ٹھہرتا ہے اور جس فریق کو بیرونی دوستوں کی مدد اور مشاورت مل جاتی ہے‘ وہی کامیاب رہتا ہے۔1977ء میں امریکہ کو بھٹو صاحب کی جیت پسند نہیں تھی‘ تو وہ انتخابی نتائج‘ جن پر مخالفین کو محض21نشستوں پر‘ شکایت پیدا ہوئی۔ اپوزیشن نے صرف انہی نشستوں پر ‘دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کیا لیکن نقشہ تو باہر بنا تھا۔یہ چھوٹی سی تحریک دیکھتے ہی دیکھتے ‘میڈیا پر چھا گئی اور آخر کار بھٹو جیسے طاقتور حکمران کو اپوزیشن کے سامنے جھکنا پڑا۔د ونوں میں معاہدہ ہو گیا۔ نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم نے راولپنڈی کی پریس کانفرنس میں اس کا اعلان کر دیا۔ روزنامہ ''پاکستان ٹائمز ‘‘میں اس کی خبر شائع ہو گئی لیکن اخبار مارکیٹ میں آنے سے پہلے‘ جنرل ضیا نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ دیا۔
1985ء میں فوج نے‘ طرح طرح کی شرائط کے ساتھ‘ غیر جماعتی انتخابات منعقد کرائے۔ اپنا وزیراعظم چن کر‘ حکومت کھڑی کی لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد‘ اسے برطرف کر کے خود بھی دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کی جگہ لینے والے چیف آف آرمی سٹاف جنرل اسلم بیگ اور صدر غلام اسحاق خان نے مل کر پس پردہ رہتے ہوئے‘ چار حکومتیں بنائیں اور توڑیں۔ دونوں مرتبہ وزیراعظم بننے والے چاروں لیڈر اچھی طرح جانتے تھے کہ حکومتیں وہ نہیںبدل رہے لیکن انہیں حالات کے بہائو میں بہنا پڑا۔ آج عمران خان سے شکایت کی جارہی ہے کہ انہوں نے حکومت کے پہلے ہی سال میں‘ احتجاجی تحریک شروع کر دی لیکن بے نظیر کی دوسری حکومت بننے کے صرف تین ماہ کے اندر اندر‘ نوازشریف نے کراچی سے ٹرین مارچ میں بیٹھ کر پشاور تک کا لانگ مارچ شروع کر دیا اور جب تک بے نظیر حکومت نہیں گئی‘ ان کی احتجاجی تحریک جاری رہی۔ جمہوریت کا یہ دور‘ ایک نئے مارشل لا پر ختم ہو ا۔2008ء میں انتخابات ہوئے تو پاکستان پیپلز پارٹی جیت گئی۔ نوازشریف نے بظاہر منتخب حکومت کی مخالفت نہیں کی لیکن ہر طریقے سے حکومت کو ‘بے بس کئے رکھا۔2013ء کے انتخابات سے پہلے‘ فیصلہ ہو گیا تھا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ‘کس کس کو دی جائیں گی۔
عمران خان کی تحریک انصاف بھر پور عوامی تائید کے ساتھ انتخابات میں اتری لیکن اناڑی پن کی وجہ سے‘ اپنے حامیوں کے ووٹ بیلٹ باکس تک نہیں پہنچا سکی۔ چند روز تک کسی کو سمجھ نہ آئی لیکن پھر ایک ایک کر کے‘ سب نے الزام لگایا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ جیتنے والی پارٹیوں نے خود بھی یہی اعتراض کیا۔ ان انتخابات کو بظاہر شفاف بنانے کے لئے‘ بڑے بڑے جتن کئے گئے۔ آہستہ آہستہ دھاندلی کے شواہد ملنے لگے تو متعدد نشستوں پر‘ دوبارہ انتخابات منعقد کروائے گئے ۔ ان میں دوسری گنتی پر ثابت ہو گیا کہ دھاندلی بہت بڑے پیمانے پر کی گئی ہے۔سب سے پہلے اس زمانے کے چیف جسٹس آف پاکستان نے چیف الیکشن کمشنر کو‘ یہ درخواست کرنے پر مجبور کر دیا کہ الیکشن کمیشن انتخابات کے انعقاد میں سپریم کورٹ سے مدد طلب کرے۔ یہ رسمی کارروائی پوری ہو گئی اور انتخابی عمل پر‘ چیف جسٹس صاحب نے قبضہ کر لیا۔تمام ریٹرننگ افسر عدلیہ سے لئے گئے۔ انہوں نے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز اور اسسٹنٹ ریٹرننگ افسران سے خطاب فرمایا۔ الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری اور ہمارے کالم نگار جناب کنور دلشاد نے لکھا ہے کہ چیف جسٹس‘ ریٹرننگ افسروں کوخطاب کرنے کے مجاز نہیں تھے۔ان ریٹرننگ افسروں کو ہدایت کی تھی کہ وہ آئین کی62اور63کے تحت امیدواروں کے چال چلن کا جائزہ لیں۔ جو سوالات جس انداز میں امیدواروں سے پوچھے گئے ان سے صاف ظاہر ہو گیا کہ سوال کرنے والوں کی اصلیت کیا ہے؟ انتخابی عمل سکروٹنی کے وقت ہی‘ مضحکہ خیز ہو کر رہ گیا تھا۔عمران خان انتخابات سے پہلے شدید زخمی ہو کر‘ لیٹ گئے تھے۔ انتخابی مہم میں حصہ نہ لے سکے اور نتائج آنے پر بھی پوری طرح صحت یاب نہیں ہوئے تھے۔ جیسے جیسے دھاندلی کی اطلاعات ملیں‘ انہوں نے آزمائشی طور پر قومی اسمبلی کے چار حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کر دیا۔ اس وقت زیادہ معلومات سامنے نہیں آئی تھیں مگر اب جو کہانیاں باہر آرہی ہیں‘ انہیں پڑھ کر تعجب ہوتا ہے ۔ مثلاً یہ کہ انتخابات کی رات ریٹرننگ افسروں نے ترانوے حلقوں کی پولنگ سکیم تبدیل کر کے‘ ہر حلقے میں پندرہ سے بیس ہزار نئے ووٹوں کا اندراج کر کے بیلٹ باکس بھروا دئیے۔ انتخابی سکیم کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد‘ صرف الیکشن کمیشن ہی پولنگ سکیم میں تبدیلی کا مجاز ہوتا ہے لیکن یہ کام ریٹرننگ افسروں
نے نو اور دس مئی کی رات کو خاموشی سے کر ڈالا۔اس بات کا کوئی جواب نہیں دے رہا کہ ریٹرننگ آفیسرز نے‘ 93حلقوں کی پولنگ سکیم کو کس قانون کے تحت تبدیل کیا؟ عمران خان اب تک انتخابی دھاندلی ثابت کر نے کے لئے ‘جتنے الزامات لگا چکے ہیں اور تحقیق کے بعد جو حقائق سامنے آرہے ہیں‘ ان کی روشنی میں اب احتجاجی تحریک کو روکنا دشوار ہوتا جا رہا ہے۔عمران خان نے اصولی طور پر‘ الیکشن ٹربیونلز اور سپریم کورٹ کا رخ کر کے‘ انصاف حاصل کرنے کی کوشش کی اور جب انہیں ماضی کی طرح‘ ٹال مٹول کے راستے پر ڈال دیا گیا تو مجبور ہو کر انہوں نے سٹریٹ پاور سے کام لینے کی ٹھانی۔ گزشتہ چند روز میں انہوں نے بھر پور جلسے کر کے‘ ثابت کر دیا کہ عوام اب ان کے مطالبات کے حامی بننے لگے ہیں۔ حکومتی پالیسیوں میں ایسی کوئی چیز ابھی تک دکھائی نہیں دی جس سے یہ سوچا جا سکے کہ حکومت کی توجہ عوام کی فلاح و بہبود کی طرف ہے۔ اس کے برعکس‘ حکومت بڑے بڑے تعمیراتی کاموں پر اندھا دھند دولت صرف کر رہی ہے۔ حد یہ کہ آٹھ لاکھ آئی ڈی پیز کے لئے چھ ارب کی رقم بھی منظور نہیں کی جبکہ میٹروبس کے منصوبے پر‘ اس سے کئی گنا زیادہ رقم صرف کی جا رہی ہے۔ حکومت نے آئی ڈی پیز کی دیکھ بھال کے لئے‘ ابھی تک جو کچھ کیا ہے اس پر نہ پاکستانی قوم مطمئن ہے اور نہ ہی نقل مکانی کرنے والے بے سروساما ن لوگ۔میں یہ کہوں تو غلط نہ ہو گا کہ حکومت نے بھاری مینڈیٹ کے بھرم کے ساتھ‘ جو حکومت سنبھالی تھی ۔ اگر وہ فوری طور پر متوسط طبقے کے شہریوں کے حالات بدلنے پر توجہ دیتی اور کوئی بھی جتن کر کے‘ انہیں صرف آٹا‘ بجلی اورشدید ضرورت کی دوسری اشیاء کے نرخوں میں‘ کسی بھی طرح کی سہولت دے دیتی تو آج لوگ اس سے خوش ہوتے۔ یہاں معاملہ بالکل ہی برعکس ہو چکا ہے۔ لوگ نہ صرف حکومتی کارکردگی سے مایوس ہو چکے ہیں بلکہ ان کے اندر احتجاجی جذبات زور پکڑتے جا رہے ہیں۔ حکومت نے اپنی رٹ کمزور کرنے کے معاملے میں‘ ایک سے زیادہ بونگیاں ماریں۔ ان میں سب سے بڑی بونگی جنرل پرویز مشرف کا ٹرائل ہے۔ یہ اتنی دھوم دھام سے شروع کیا گیا ‘جیسے چند ہفتوں کی سماعت کے بعد ہی‘ پرویز مشرف کو سزا سنا دی جائے گی۔ ایسا ہو جاتا تو حکومت کی دھاک بیٹھ سکتی تھی لیکن اتنا شور شرابا کرنے کے بعد بھی‘ آج حکومت مشرف کے بارے میں‘ خود کو بے بس ثابت کر رہی ہے۔ جب کوئی حکومت عوام کو باورکرادے کہ وہ کوئی کام کرنے کا مصمم ارادہ رکھتی ہے‘ وہ اسے کر گزرے تو اس کی دھاک بیٹھ جاتی ہے اور نہ کر پائے تو رعب و دبدبہ ختم ہو جاتا ہے۔ مشرف کے معاملے میں‘ حکومت اس حالت کو پہنچ چکی ہے۔ اب اس کا وہ دبدبہ نہیں رہ گیا جو پہلے دوچار ہفتوں کے دوران تھا۔ سانحہ ماڈل ٹائون لاہور کے بعد اسلام آباد ایئرپورٹ کے واقعات نے بھی حکومت کی ساکھ کو‘ بے حد نقصان پہنچایا۔ اپوزیشن کے لئے‘ حالات جتنے آج سازگار ہیں گزشتہ پورے سال کے دوران ایسے نہیں تھے۔ انتخابی اصلاحات کے لئے ‘پارلیمانی کمیٹی بنانے سے اب کام نہیں چل سکے گا۔ اب اسی قسم کا کوئی فارمولہ‘ کام دے سکتا ہے جو امریکہ نے افغانستان کے لئے تیار کیا ہے۔ حکومت مخالفین کے ساتھ‘ کوئی سمجھوتہ کئے بغیر‘ تن تنہا اپنا کنٹرول مضبوط کرنے کی کوشش کرے گی۔ جس میں وہ بری طرح ناکام ہو گی۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ‘ اتھارٹی اس کے ہاتھ سے نکلتی جا رہی ہے۔