میڈیکل سائنس کے ماہرین کہتے ہیں کہ کسی مریض کی اگر سرجری کرنی پڑے تو اس بات کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے کہ آپریشن یا سرجری کے بعد مریض کی دیکھ بھال بھر پور انداز میں اور ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق کی جائے۔اس کو پوسٹ آپریٹوکیئرکہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ ہسپتال میں مریض کا آپریشن ہوتا ہے اور جونہی اس کو ہوش آتی ہے وہ سمجھتا ہے کہ میں تندرست ہو گیا ہوں اور ڈاکٹروں کی ہدایات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے معمولات زندگی بحال کر لیتا ہے۔ہمارے ہاں اس طرز عمل کی وجہ سے ایسے ایسے لوگ بھی نقصان اٹھاتے ہیں جو اچھے خاصے تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔
میں نے یہ تمہید اس لیے بیان کی ہے کہ ہمارے ملک میں بھی آج کل ہماری مسلح افواج ایک ضروری سرجری کر رہی ہیں۔اس وقت کی صورتحال کے مطابق سرجری تو انتہائی کامیاب ہے اور مزید اس ضمن میں کامیابیاں بھی متوقع ہیں۔مگر اس آپریشن کے بعد انتہائی ضروری مرحلہ شروع ہونا ہے جوپوسٹ آپریٹو کیئر کا ہے۔ اس مرحلے میں چونکہ زیادہ اور اہم کردار ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا ہو گا اور مسلح افواج کی کامیاب سرجری کا ملک و قوم کو فائدہ پہنچانا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تحت اداروں کا کام ہو گا ۔اس حوالے سے ذہن میںایک تشویش ابھرتی ہے ۔تشویش کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ان اداروں کامائنڈ سیٹ اوپر بیان کیے گئے اس مریض جیسا ہے جو آپریشن کے بعد ہوش آتے ہی کہتا ہے کہ بس اب میں تندرست ہو گیا ہوں اور پھر نقصان اٹھاتا ہے۔
ہماری حکومتیں جس مائنڈ سیٹ میں رہتی ہیں وہ اب جدید دور کے تقاضوں سے بالکل بھی ہم آہنگ نہیں رہا ۔میں کسی کا نام نہیں لیتا لیکن آپ خود تمام بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین پر نظر دوڑائیں ،آپ کو ایک بھی ایسا چہرہ دکھائی نہیں دے گا جس میں وژنری لیڈر بننے کا امکان موجود ہو۔ کوئی ایسی صورت دکھائی نہیں دے گی جو اس ملک کی مشکلات کو ختم کرنے میں مخلص ہو۔ہر کوئی آپ کو اپنے ایجنڈے کا غلام دکھائی دے گا۔بڑا لیڈر بننے کا امکان ایسی شخصیات میں ہوتا ہے جن کو کم از کم تاریخ عالم کا تو کچھ پتہ ہوتا کہ وہ جان سکیں کہ معاصر ممالک کے بڑے بڑے مسائل کیا ہیں اور پھر ان کو اپنے ملک کی مختلف جہتوں میں جو امکانات ہیں ان کا بھی صحیح اندازہ ہوتا ہے تاکہ وہ ان امکانات کی روشنی میںدنیا کے بڑے بڑے مسائل کے حوالے سے اپنا ایک وژن پیش کر سکیں۔
مجھے تو اپنے ملک کے سیاسی مناظر میں ایک بھی ایسی شخصیت دکھائی نہیں دیتی۔یہ سب سٹیٹس کو شخصیات ہیں۔یعنی جو کچھ ان قائدین کو ملا ہے اس کو بغیر کسی بڑی ہل جل کے اسی طرح چلاتے رہتے ہیں اور بیچ بیچ میں اپنی منفعت کا سامان بھی کرتے جاتے ہیں۔
مسلح افواج کی جانب سے سرجری کے بعد ہمارے سیاسی قائدین کے پاس پوسٹ آپریٹو کیئر کا کوئی منصوبہ تو دکھائی نہیں دیتا ہاں البتہ باہمی جنگ و جدل کی فضا کافی واضح ہے جس کی کم از کم اس نازک موڑ پر ہمارے ملک کو بالکل بھی ضرورت نہیں ہے۔
ہمارے سیاستدانوں کو یہ دکھائی نہیں دیتا کہ جن لوگوں کے خلاف فاٹا میں آپریشن ہو رہا ہے کیا وہ ہمارے شہروں کے لیے خطرہ نہیں ہیں؟کیا ان دہشت پسندوں کے ساتھی ہمارے اردگرد موجود نہیں ہیں؟کیا ہمارے سیاستدان عوام کو تیار کر رہے ہیں کہ کس طرح و ہ چوکنا رہیں اور ایسے دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے کس انداز میں حکومتی اداروں سے تعاون کریںیہ اسی وقت کرنے والے کام ہیںاور یہ کام بیانات سے نہیں ہوتے۔ یہ کام مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے سے ہوتے ہیں۔آج کل ہماری حکومتوں کا سکیورٹی کے حوالے سے مائنڈ سیٹ یہ ہے کہ جب کسی ذریعے سے ان کو خبر ملتی ہے کہ دہشت گرد کوئی کارروائی کرنے والے ہیں تو پہلا اعلان یہ ہوتا ہے کہ حکومت نے اہم حساس عمارتوں اور اہم شخصیات کی سکیورٹی بڑھا دی ہے۔
اس اعلان کا سیدھا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عوام کو جو تھوڑی بہت سکیورٹی میسر تھی وہ اور بھی کم کر دی گئی ہے۔یعنی باغات کے اردگرد اور پرہجوم علاقوں میں جو تھوڑی بہت فورس متعین ہوتی ہے اور جس کی موجودگی کی وجہ سے موبائل فون چھیننے یا ویسے لوٹ لینے کے واقعات کچھ کم ہوتے ہیں،وہ فورس بھی اہم شخصیات اور اہم عمارتوں کی حفاظت پر لگا دی جاتی ہے۔ظاہر ہے ہمارا Security Apparatusتو جتنا ہے اتنا ہی ہے۔ اب جس وقت آپ اہم لوگوں کی سکیورٹی بڑھائیں گے تو لازماً دیگر لوگوں کی سکیورٹی کم ہو جائے گی۔
پہلے ہی ہمارے ہاں صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ اکثر لوگ چوری ڈاکے کی وارداتیں رپورٹ ہی نہیں کرتے۔ان کو معلوم ہے کہ اس عمل کا کوئی نقصان تو ہو سکتا ہے فائدہ ہرگز نہیں ہو سکتا۔کیونکہ حکومتی اداروں کا مائنڈ سیٹ ہی یہ بن چکا ہے کہ عوام اور ان کے بزنس اور ان کی رہائش گاہیں جائیں چولہے کے بھاڑ میں ۔انہوں نے تو اہم عمارتوں اور اہم شخصیات کی حفاظت کرنی ہے۔تو کر لیں پھر ...کر دیں عوام کو بے آسرا۔جب عوام خود کو بے آسرا محسوس کریں گے جیسا کہ آج کل محسوس کررہے ہیں تو پھر و ہ برسر اقتدار لوگوں کے حکومت کرنے کے حق کو تسلیم کرنا چھوڑ بھی سکتے ہیں۔
اب آپ غور کریں کہ ایک طرف فاٹا میں فوجی کارروائی کے بعد اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ بعداز آپریشن ایک موثر حکمت عملی وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس اندازسے مرتب کریں جس میں عوام کی براہ راست شرکت ہو‘ تاکہ دہشت گردی کا جو ناسور ہمارے جسد کے اندر تک گھس چکا ہے اس کو نکال باہر کیا جا سکے اور دوسری طرف ہمیں حکومتی حلقوں کے اندر اس مسئلے پر غورو خوض تک ہوتا دکھائی نہیں دے رہا حالانکہ اس مرحلے پر تو عملی اقدامات شروع ہو جانے چاہئیں۔اس پہلو پر بھی غور کریں کہ ملک کو ایک سنگین صورتحال کا سامنا ہے اور ہمیں اخباروں میں حکومت کی طرف سے ایسے بیان پڑھنے کو مل رہے ہیں کہ سوئٹزرلینڈ کے بنکوں سے پاکستانیوں کے دو سو ارب ڈالرز واپس لانے کے لیے سرکار نے کارروائی شروع کر دی ہے۔اٹھارہ کروڑ سے زیادہ ہماری آبادی ہے اس میں سے مجھے ایک شخص بھی ڈھونڈ دیں جو اس حکومتی بیان کو سنجیدہ سمجھتا ہو۔بھلے ان میں بیان دینے والے بھی شامل کر لیں۔اپنے ملک میں لوگ اربوں کھربوں کھا کر اطمینان سے ہمارے درمیان گھوم پھر رہے ہیں بلکہ ہمیں ان کے فرمودات بھی سننے پڑتے ہیں ۔ان لوگوں سے تو ایک ٹکہ وصول نہ کر سکے حکمران ،اور بات کر رہے ہیں کہ سوئٹزر لینڈ کے بنکوں میں خفیہ طور پر اور محفوظ انداز میں رکھے ہوئے پاکستانیوں کے اربوں ڈالر ملکی خزانے میں واپس لائے جائیں گے۔ادھر وزیر اعظم کہہ رہے ہیں کہ چند ہزار لوگ (اشارہ ممکنہ احتجاجی لانگ مارچ کی طرف ہے) کروڑوں افراد کا مینڈیٹ نہیں بدل سکتے۔جن کروڑوں افراد کے مینڈیٹ کا وہ ذکر کر رہے ہیں وہ مینڈیٹ اس بات کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ فاٹا میں فوجی آپریشن کے بعد شہروں اور قصبوں میں ان کروڑوں افراد کو جو خطرات درپیش ہوں گے ،ان خطرات کی بھی موثر انداز میں پیش بندی کے لیے کچھ کیا جائے۔اس وقت تک ہمیں تو اس پہلو سے کچھ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔