تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     19-07-2014

اگلی نشست پر بیٹھنے کی آرزو

روس نے امریکی جاسوس کی سیاسی پناہ میں توسیع کا فیصلہ کیا ہے۔ اگرچہ سرد جنگ کو ختم ہوئے عشرے گزر چکے ہیں مگر روس امریکہ کے خلاف وہی حربے استعمال کر رہا ہے جو واشنگٹن کو مرغوب رہے ہیں ۔توسیع کی درخواست منظور کرتے ہوئے ماسکو نے کہا ہے کہ ایڈورڈ سنوڈن کی واپسی کے بعد اس کی جان خطرے میں ہوگی ۔گویا وہ بھی انسانی حقوق کا سوال اٹھا رہا ہے ۔جب تک یوکرائن میں ولادیمیر پوتن کی پسند کی حکومت نہیں بن جاتی‘ حماس دوبارہ فلسطینی اتھارٹی سے الگ نہیں ہو جاتی اور اسرائیل ایک غیر مربوط کٹے پھٹے فلسطین کے قیام کے آثار دیکھ نہیں لیتا‘ ا یران اپنے جوہری منصوبے کی صف لپیٹنے پر آمادہ نہیں ہو جاتا‘ شمالی کوریا پر مغربی پابندیاں ختم نہیں ہوتیں یہ سرد جنگ‘ اعلان کے بغیر ہی جاری رہے گی اور اس معاملے میں چین اور لاطینی امریکہ کے بیشتر ملکوں کی حمایت روس کو حاصل رہے گی۔
سی آئی اے کے ذیلی ادارے نیشنل سکیورٹی ایجنسی کا سابق کنٹریکٹر ایڈ سنوڈن گو ایک فرد کا نام ہے مگر وہ جاسوسی کے متعلق امریکی حکومت کی ایسی لاکھوں دستاویز لے کر ملک سے فرار ہوا جو اوباما انتظامیہ کے لیے خفت کا باعث ہے۔ وہ سنوڈن کی جسارت کو سرکاری را زوں کے افشا کے مترادف قرار دیتی ہے مگر اس کے حا میوں کا کہنا ہے کہ امریکی قانون کے مطابق وہ ایک whistleblower اور محب وطن ہے ۔جون 2013ء میں بہت سی الیکٹرانی دستاویزات انگلستان اور امریکہ کے اخبارات کے حوالے کرنے کے بعد اکتیس سالہ سنوڈن ہا نگ کانگ سے کیوبا جا رہا تھا کہ ماسکو میں ِگھر گیا کیونکہ واشنگٹن نے اس کا پا سپورٹ منسوخ کر دیا تھا۔ اس دن سے وہ امریکی جا سوسی کو مزید بے نقاب کئے جا رہا ہے ۔ سب سے پہلے برازیل کی صدر دلما روسیف نے اس بنا پر امریکہ کا سرکاری دورہ منسوخ کیا ۔ میکسیکو اور جنوبی امریکہ کے کئی اور سربراہ ناراض ہوئے۔ زبانِ بے زبانی سے وہ یہ کہہ رہے تھے کہ بندگی میں مرا بھلا نہ ہو ا۔ سنوڈن جن ملکوں سے سیاسی پناہ کی درخواست کرنا چاہتا تھا ان میں بھا رت بھی شامل تھا‘ جس نے کہہ دیا کہ ایسی درخواست کی منظوری کا کوئی جواز نہیں ۔ جرمنی کی صدر انجیلا مرکل یوکرائن کا بحران امریکہ کے اطمینان کے مطابق دور کرنے میں امداد کر رہی ہیں‘ اس لئے یورپ میں امریکہ کے سب سے بڑے اتحادی کے خلاف امریکی جاسوسی پر نہ صرف جرمنی میں بلکہ بین الاقوامی سطح پر احتجاج کیا گیا اور برلن میں سی آئی اے سٹیشن چیف کو ملک چھوڑنا پڑا ۔
امریکی جاسوسی کا تازہ ترین ہدف پانچ امریکی مسلمان ہیں ۔ آغا سعیداور فیصل گل پاکستانی ہیں‘ عاصم غفور کا آبائی وطن بھارت ہے‘ ہوشنگ امیراحمدی ایرانی النسل ہیں اور نہاد عواض اردن میں پناہ گزین فلسطینی والدین کی اولاد ہیں۔ سب امریکی شہری ہیں اور باقی امریکیوں کی طرح وہ بھی خلوت (پرائیویسی) کے آئینی تحفظ کا حق رکھتے ہیں مگر امریکیوں کے شہری حقوق کے علمبردار ہیں۔ ویب سائٹ انٹرسیپٹ پر ظاہر ہونے والے ایک طویل مضمون کے مطابق این ایس اے اور ایف بی آئی نے ان پروفیسروں‘ وکیلوں‘ سیاسی امیدواروں اور سرگرم عمل کارکنوں کی ای میلز کا مشاہدہ ایسے قواعد و ضوابط کے تحت کیا جو غیر ملکی دہشت گردوں اور جاسوسوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ ''کسی امریکی کو محض اس کی پہلی ترمیم جلوس نکالنا‘ مہم چلانا‘ تنقیدی مضامین لکھنا یا ذاتی عقائد کا اظہار کرنا جیسی سرگرمیوں کی بنا پر جاسوسی کا مرتکب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دوسری جانب ایک ایسا شخص جسے عدالت سخت معیاروں کے مطابق ایک غیر ملکی طاقت کا گماشتہ (ایجنٹ) قرار دے‘ اپنے پیشے کی بنا پر استثنا نہیں پاتا‘‘۔ حکومت نے اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے یہ جواب دیا۔ 
ویب سائٹ کا مضمون FISA (Foreign Intelligence Surveillance Act.)recap سنوڈن آرکائیو میں این ایس اے کی فہرست پر مبنی ہے۔ اس میں ای میل کے 7,485 پتے درج ہیں جن کو 2002 ء اور 2008ء کے درمیان خفیہ طور پر دیکھا گیا ۔بیشتر پتے غیر ملکیوں کے ہیں جو حکومت کے خیال میں القاعدہ‘ حماس اور حزب اللہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ امریکی حکومت ان تنظیموں کو دہشت گرد قرار دے چکی ہے۔ فہرست میں شامل امریکی وہ ہیں جن پر ایک عرصے سے دہشت کار سرگرمیوں میں حصہ لینے کا الزام ہے ۔ان میں سے دو‘ انور اولاقی اور سمیر خان‘ تین سال قبل یمن پر امریکی ڈرون حملوں میں مار ے گئے تھے۔ پانچ امریکی‘ جن کی ای میل کی جاسوسی وفاقی اداروں نے کی‘ ایسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی تردید کرتے ہیں ۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو تارکین وطن کی سر زمین کہا جاتا ہے اور آج بھی لوگ بڑی تعداد میں روزگار اور اعلیٰ تعلیم کے لئے اس ملک میں داخل ہوتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ ہر معاشرے کی بالائی (کریم) امریکہ میں ہے‘ جو اس کی ترقی کا سبب ہے ۔ آغا سعید 1982ء میں امریکی شہری بنے ۔تب انہوں نے یونیورسٹی آف کیلی فورنیا‘ برکلے اور ہارورڈ کینیڈی سکول آف گورنمنٹ سے پی ایچ ڈی کی ڈگریا ں حا صل کیں اور ہیورڈ میں پڑھاتے رہے ۔اس دوران انہوں نے امریکی مسلم الائنس کی بنیاد ڈالی اور امریکی مسلمانوں کو منظم کرنے اور سیاسی عمل میں حصہ لینے کی ترغیب دی۔ اخبار نیویارک ٹائمز نے ‘‘ الائنس'' کو بڑی تنظیم لکھا جو ستر لاکھ عرب امریکیوں کو سیاسی طور پر (ملک کے مرکزی معاشرتی دھارے میں) مدغم کرنے پر کار بند ہے ۔چندہ دینے‘ انتخابات میں حصہ لینے والے اور ووٹ ڈالنے والے امریکی مسلمانوں کی ایک فہرست ان کے پاس تھی ۔موجودہ صدی کے پہلے عشرے تک تیس ریاستوں میں ان کی جماعت کی ایک سو سے زیادہ شاخیں تھیں اور وہ دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کے اعلیٰ عہدیداروں کے علاوہ ''تیسری جماعت‘‘ کے صدارتی امیدواروں سے مل چکے تھے ۔
نائن الیون کے دن وہ واشنگٹن میں تھے اور بعد دوپہر انہیں کئی امریکی مسلم لیڈروں کے ہمراہ وائٹ ہاؤس میں صدر بش سے ملنا تھا۔ اس کے بعد پیٹرائٹ ایکٹ آیا تو وہ اس کے نقاد بن گئے۔ انہوں نے کیلی فورنیا کے سول رائٹس الائنس میں کام کیا اور ریا ستی قانون ساز ادارے کو ایک ایسی قرارداد منظور کر نے پر آمادہ کیا جو قانون کی عملداری کو محدود کرتی ہے۔ مسلم الائنس نے دوسری مدت کے لئے بش کے ری پبلکن امیدوار ہونے کی تائید کی اور دو دن بعد سینٹ کی ڈیموکریٹک امیدوار ہلیری راڈم کلنٹن کے انتخابی فنڈ میں پچاس ہزار ڈالر کا عطیہ دیا ۔اس میں پُر امن ذرائع کی ناکا می کی صورت میں جارحانہ قبضے کے خلاف فلسطینیوں کی مسلح جدوجہد کی حمایت کی گئی تھی۔ یہودی لابی کے شور مچانے پر مسز کلنٹن نے عطیے کی رقم الائنس کو واپس کر دی ۔آغا سعید آج پارکنسن بیماری سے معذور ہیں اور لکھ کر اپنا ما فی الضمیر بیان کرتے ہیں ۔انہوں نے انٹرسیپٹ کو بتایا کہ ان کی سیاسی سرگرمیاں اور سمیع الراعیں جیسی متنازع شخصیتوں کے ساتھ دوستیاں‘ ان کا نام این ایس اے کی فہرست پر لانے کی سبب بنیں ۔
فیصل گل میرے محلے دار ہیں اور پیشے کے اعتبار سے وکیل ۔ آبشار اور کچھ دوسرے ریسٹورنٹ ان کے بھائی چلاتے ہیں۔ چار سال قبل جب وہ ورجینیا کے ایوان مندوبین کے لئے کھڑے ہوئے تو میں کشاں کشاں ان کے ری پبلکن کاکس میں گیا ۔ان کی والدہ اس سیاسی اجتماع میں موجود تھیں۔ انہیں شلوار قمیض اور ڈھلکے ہوئے دوپٹے میں پا کر مجھے اپنی سادہ لوح ماں یاد آئیں۔فیصل نے رائے دہندگان کو بتایا کہ کئی سال پہلے میرے والد واشنگٹن میں ٹیکسی چلاتے تھے۔ ایک دن کام پروہ مجھے ساتھ لے گئے۔ میں گاڑی کے پچھلے کاؤچ پر بیٹھا تھا ۔ ان کو سواری نہ ملی تو مجھے کہنے لگے اگلی نشست پر آؤ وگرنہ ساری عمر پچھلی نشستوں پر بیٹھو گے۔ انٹر سیپٹ سے ایک وڈیو انٹرویو میں فیصل نے کہا: ''مجھے نہیں معلوم کیوں میری ای میل مانیٹر کی گئی‘ جب میں ورجینیا کے ہاؤس آف ڈیلی گیٹس کا الیکشن لڑ رہا تھا۔ میں نے ساری زندگی ہر کام حب الوطنی سے کیا۔ میں نے بحریہ اور وائٹ ہاؤس میں خدمات انجام دیں اور اپنی کمیونٹی میں سرگرم عمل رہا۔ میں نے ہر وہ کام کیا ہے جو میرے خیال میں ایک اچھے شہری کو کرنا چاہیے ‘‘۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved