اسے میری طبیعت کا تجسس سمجھیں کہ میں سائنسی ترقی ، دریافت اور پیش رفت کا بہت دلچسپی سے جائزہ لیتا رہتا ہوں۔ اس ضمن میں ،خاص طورپر آسٹرو فزکس اور کوانٹم نظریات میں ہونے والی دریافت مجھے بہت مسحور کرتی ہے۔ ان کا موضوع کائنات کا آغا ز یا اس کی ماہیت ہوتا ہے؛ چنانچہ جب کئی بلین ڈالر لاگت سے بنائے گئےLarge Hadron Collider میں ہِگز بوسن ذرات پر حتمی فیصلہ کرلیا گیا تو اس پیش رفت نے مجھے جوش سے وارفتہ کردیا۔
اسی طرح مجھے اُس وقت بھی خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوناپڑا جب مجھے علم ہوا کہ ایک زیریں ایٹمی جزو(sub-nuclear particle) روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ تیز حرکت کرتا ہے۔ اگر ایسا حتمی طور پر ثابت ہوگیا تو جدید فزکس کا رخ تبدیل اور روشنی سے بھی زیادہ تیز سفر ممکن ہوجائے گا۔ لیکن پھر پتہ چلا کہ کسی تار میں خرابی کی وجہ سے غلط اعداد و شمار حاصل ہوگئے تھے۔ بہرحال تحقیق کا یہ سفر جاری ہے۔ علم ِحیاتیات کے کچھ ماہرین کے مطابق میڈیکل سائنس میں ترقی اور nanotechnology کی وجہ سے انسان اس قابل ہوجائے گا کہ کئی صدیوں تک زندہ رہ سکے۔ اسی طرح زندگی کو طول دینے والی ٹیکنالوجی ابدی حیات کے خواب کو بھی پورا کرنے والی ہے‘ لیکن یہ سوال اپنی جگہ پر موجود ہے کہ کیاکوئی شخص ہمیشہ کے لیے زندہ رہنا چاہے گا یا نہیں؟
مغرب میںسائنسی پیش رفت اور ترقی کا سلسلہ جاری ہے کیونکہ وہاں حکومتیں یونیورسٹیوں، لیبارٹریوں اور تحقیقی کام
میں تعاون پر اربوں ڈالر خرچ کرتی ہیں۔ تحقیق و ترقی کا یہ سفر مسلم ممالک کے سوا دنیابھر میںجاری ہے۔ جس دوران دنیا سائنسی ترقی کا حیرت انگیز سفر جاری رکھے ہوئے ہے، ہمارا ''عہد ِ رفتہ ‘‘ گزرنے کانام ہی نہیںلے رہا۔ شاید یہ بھی ایک معجزہ ہے کہ سال بیت جائیں، وقت نہ گزرے۔ اس وقت لے دے کے ہمارا کام خودنمائی اور جھوٹے اخلاقی احساس ِ برتری کے زعم میں مبتلا رہناہے۔ دبئی نے دنیا کی بلند ترین عمارت تعمیر کی، اب اس کے پاس دنیا کا سب سے بڑا شاپنگ مال بنانے کا بھی منصوبہ ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ہمارے نامۂ اعمال میں اس کے سوا اور کچھ نہیں۔ وہ مسلم ریاستیں، جنہیں غربت کی ''سہولت ‘‘ بھی میسر نہیں، وہ بھی سائنسی ترقی کی بجائے تیل کی دولت صرف کرتے ہوئے مغربی ممالک سے ہتھیار خرید کر اپنے ہی لوگوں کو دبارہی ہیں۔ گزشتہ سال مجھے شارجہ کی ایک امریکی یونیورسٹی نے خطاب کی دعوت دی۔ میں اس کا کیمپس اور تعلیمی سہولیات کو دیکھ کربہت متاثر ہوا۔ نوجوان طلبہ نے مجھے سے کچھ بہت دلچسپ سوالات پوچھے اور ایک سینئر فیکلٹی ممبر نے پورے کیمپس کا دورہ کرایا۔ ایک بات نوٹ کرنے کی تھی کہ وہاں تمام اسٹاف غیر ملکی تھا۔
اس دوران ہم مسلم دنیا میںہونے والا تحقیقی کام دیکھیںتو اس کا پیمانہ یہ ہے کہ کون اچھا مسلمان ہے اور کون نہیں۔ تحقیق کا اگلا درجہ یہ سوچ بچار کرنا ہے کہ جو غیر مسلم ہیں ان کے ساتھ کیسے نمٹنا ہے؟عام طور پر اس کا ہر زاویے سے ایک ہی جواب ہوتا ہے۔۔۔ سزائے موت۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو لگے کہ میں مبالغہ آرائی سے کام لے رہاہوں، لیکن حقیقت یہی ہے کہ گزشتہ کئی صدیوںسے مسلم دنیا میں سائنس اور فن پر ہونے والی ترقی نہ ہونے کے برابر ہے۔ جب رچرڈ ڈاکن نے ٹویٹ پیغام میںکہا کہ اب تک صرف دو مسلمان سائنس کے شعبے میں نوبل انعام جیتنے میں کامیاب ہوئے ہیں تواس پر ایک طوفان کھڑا ہوگیا تھا۔ اس احتجاج کی اصل وجہ کم تعداد نہیں بلکہ نوبل انعام جیتنے والوں میں سے ایک کو‘ جنہیں بعض لوگ مسلمان نہیں سمجھتے، مسلمان قرار دینا تھا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جن مسلمان سائنسدانوں نے بھی علمی یا تحقیقی کام کیا ، اپنے ممالک سے باہر رہ کر کیا ۔۔۔ زیادہ تر مغربی یونیورسٹیوں اور لیبارٹریوں میں۔ اس مسئلے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تحقیقی کام کی بنیاد اس مفروضے پر ہوتی ہے کہ ہمارے سامنے جو چیزیں ہیں ، ہم ان کے بارے میں نہ جانتے ہیں اور نہ ہم ان کا فہم رکھتے ہیں۔ جب ایک تھیوری ثابت ہوجاتی ہے تو اس سے پہلے والی کو مسترد کردیاجاتا ہے۔ اس طرح ترقی کا سفرجاری رہتا ہے۔تاہم اگر ہم یہ یقین رکھیں کہ بعض کتابوں میں سارا علم لکھ دیا گیا ہے، تو پھر تحقیق چہ معنی دارد؟
ان پیچیدہ مسائل کو ایک طرف رکھ دیں، اس وقت سب سے بھیانک حقیقت ہمارے سامنے یہ ہے کہ سیاسی اور مذہبی اختلافات اسلامی دنیا کاشیرازہ بکھیررہے ہیں۔ پاکستان ہویا مشرق ِ وسطیٰ، مختلف مسالک ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ ہمارے علمی سفر کو موجودہ دہشت گردی یا قتل وغارت نے تباہ نہیںکیا۔ موجودہ خونریزی اپنانے سے صدیوں پہلے مسلم دنیا خود پر سائنس اور تحقیق کے دروازے بند کرچکی تھی۔ چونکہ جدید تعلیم حقائق کوبنیاد بناتی ہے، اس لیے ہم اس سے گریزاں ہیں۔ جس دوران ہم آئینِ نو سے ڈرتے اور طرزِ کہن پر اڑتے رہے، مغرب نے سائنس اور صنعت میں ترقی کی اور دنیا کو فتح کرلیا۔ ایک تو ویسے بھی ہمارا تعلیمی نظام بہت پسماندہ ہے ، اوپر سے نائیجیریا میں بوکوحرام اور پاکستان اور افغانستان میں طالبان طلبہ اور اساتذہ کو ہلاک کرتے رہتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ مغربی نظامِ کفر ہے۔ ان کے نزدیک سکولوں کو تباہ کرنا خود کش حملوںکے بعد افضل ترین جہاد ہے۔ اگرچہ وہ ان پڑھ اور جاہل ہیں لیکن انہیں اتنا علم ضرور ہے کہ اگر یہاں بھی سائنسی اور جدید تعلیم کا رواج ہوجائے گا توپھر ان جیسے انتہا پسندگروہوں کی دال نہیں گلے گی۔
عجیب بات یہ ہے کہ یہ انتہا پسند، جو جدید تعلیم کے منکر ہیں، ان چیزوں کو باقاعدگی سے استعمال کرتے ہیں جو اُس ''کافرانہ‘‘ سائنسی تحقیق کے نتیجے میںہی بنی تھیں۔ وہ ان چیزوںکو استعمال کرتے ہوئے قدیم دور کو واپس لانا چاہتے ہیں۔ وہ انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا استعمال کرنے کے ماہر ہیں تاکہ نوجوان مسلمانوں کو جہاد کی طرف راغب اور عالمی سطح پر فنڈز اکٹھے کرسکیں۔ القاعدہ کے ایک سائنسدان نے ایک ایسا دھماکہ خیز مواد ایجاد کیا ہے جس کا سراغ نہیں لگایا جاسکتا۔ اس کو ایئرپورٹس کی سکیورٹی بھی چیک نہیںکرسکتی۔ گزشتہ تقریباً پندرہ صدیوں سے مسلم دنیا اور دیگر اقوام کے درمیان تفاوت کی لکیر گہری ہوتی جارہی ہے۔ ہمیں تشدد پسند، پسماندہ اور جاہل سمجھا جاتا ہے۔ اسے ہم اکثر مسلم فوبیا کے نام سے یاد کرتے ہیں، لیکن اس کا جواز بہرحال موجود ہے۔ دراصل عزت مفت میں ہاتھ نہیں آتی۔ اقوام اور افراد اپنے رویے سے دوسروں کے دل میں اپنے لیے عزت و احترام کے جذبات پیدا کرتے ہیں۔ وہ اقوام جو علم کی ترقی میں اپنا کردار ادانہیںکرتیں، اُنہیں وقت کا تیز دھارا یا بہا کر لے جاتا ہے ، یا ایک طرف اچھال کر گلنے سڑنے کے لیے پھینک دیتا ہے۔