مسلم لیگ نواز کی حکومت متنازع مینڈیٹ کے ساتھ بحران زدہ ریاست میں برسر اقتدار آئی۔ زوال پذیر سامراج نے اسے تسلیم کر کے تقویت بخشی۔ بدحال عوام نے بھی نیم دلی سے انتخابات اور ان کے نتائج کو تسلیم کر لیا۔ محنت کش طبقے کے عدم تحرک اور پسپائی کی اس کیفیت میں عوام کی اکثریت ویسے بھی سیاست سے لاتعلق ہے۔ اپنے بنیادی منشور سے انحراف کر کے پانچ سال تک عوام پر سرمایہ داری کے معاشی حملے کرنے والی پیپلز پارٹی اپنے اتحادیوں سمیت بدترین شکست سے دوچار ہوئی۔ لوڈ شیڈنگ اور توانائی کا بحران اس شکست کی بنیادی وجوہ میں سے ایک تھا۔
نواز شریف سمیت مسلم لیگ (ن) کے تمام رہنمائوں نے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے وعدے بڑی فراغ دلی سے کئے۔ عوام کے سامنے اس اذیت سے نجات کے لئے تین مہینے سے لے کر تین سال تک کے کئی ٹائم ٹیبل پیش کئے گئے۔ پنجاب میں شہباز شریف حکومت کی سرپرستی میں لوڈ شیڈنگ کے خلاف 'سرکاری احتجاج‘ کئے جاتے رہے۔ محنت کش طبقہ مسلم لیگ کے طبقاتی کردار اور ضیا باقیات کے حقیقی چہرے سے بڑی اچھی طرح واقف ہے، لیکن چھوٹے کاروبار سے وابستہ درمیانہ طبقہ‘ جو نواز لیگ کی روایتی سماجی اور سیاسی بنیاد بھی ہے، بڑی حد تک اس بات پر یقین کر بیٹھا کہ کاروبارکو تباہ و برباد کر دینے والی لوڈ شیڈنگ سے یہی جان چھڑوا سکتے ہیں؛ تاہم برسر اقتدار آنے کے بعد نئے حکمرانوں کے لہجے اور باڈی لینگوایج نے ہی بہت کچھ واضح کر دیا۔ الیکشن مہم کے وعدے ''جوش خطابت‘‘ ٹھہرے اور ''گڈ گورننس‘‘ کے دعو ے چند ہفتوں میں ہی عیاں ہو گئے۔ دائیں بازو کے سرمایہ دار حکمرانوں نے عوام دشمن معاشی پالیسیاں انتہائی بے دردی سے لاگو کرنے کا آغاز کر دیا۔
نئی حکومت نے بجلی کے بل چند مہینوں میں دگنے کر دیے۔ سامراجی اداروں سے قرض لے کر اور نوٹ چھاپ کر گردشی قرضہ اتارنے کے نام پر پانچ سو ارب روپے سامراجی اجارہ داریوں اور مقامی سرمایہ داروں کی آئی پی پیز پر نچھاور کر دیے گئے۔ ان اقدامات کے نتائج مہنگائی کے سیلاب کی شکل میں سب کے سامنے ہیں۔ عوام کو جو ''کڑوی گولی‘‘ کھلائی جا رہی ہے اس سے بیماری کی شدت کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہے اور گردشی قرضہ ایک بار پھر پھن پھیلائے سامنے کھڑا ہے۔ بے قابو افراط زر عوام کی رہی سہی قوت خرید کو بھی چاٹتا جا رہا ہے اور گزشتہ چند ہفتوں سے بجلی کی 'آنیاں جانیاں‘ اپنے پرانے معمول پر پہنچ چکی ہیں۔ صرف رمضان کا مہینہ خوش اسلوبی سے گزارنے کے لئے آئی پی پیز کو کی جانے والی 40 ارب روپے کی ادائیگی بے سود ثابت ہوئی۔ طویل دورانیے کی غیرعلانیہ لوڈ شیڈنگ جاری ہے۔
اس فریب اور ذلت کے خلاف معاشرے کی کوکھ میں پکنے والا طیش نہ صرف سماجی بے چینی میں اضافہ کر رہا ہے بلکہ ریاست میں سرایت کر کے پہلے سے موجود تضادات کو شدید کرتا چلا جا رہا ہے۔ حکمران جماعت کے داخلی تنازعات اب کھل کر سامنے آرہے ہیں۔ کابینہ کے وزرا سرعام ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کر رہے ہیں۔ حکومت میں ایک کے بعد دوسری دراڑ پڑتی جا رہی ہے جس سے اقتدار کے معاملات زیادہ پیچیدہ ہو گئے ہیں۔ شریف برادران کی جانب سے دیے جانے والے ''سب ٹھیک‘‘ کے تاثرات کے باوجود داخلی ٹوٹ پھوٹ جاری ہے۔ بڑے میاں صاحب کی رسمی اور مصنوعی مسکراہٹ ان کے عدم اعتماد اور پریشانی کو چھپا نہیں پا رہی۔ بحیثیت مجموعی پوری حکومت کی ناکامی اپنا اظہار نواز لیگ کی صفوں میں جاری 'بلیم گیم‘ کی شکل میں کر رہی ہے۔
14 جولائی کی پریس کانفرنس میں خواجہ آصف نے اعتراف کیا کہ حکومت رمضان کے مہینے میں بھی لوڈ شیڈنگ کم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ''وزیر بجلی و پانی خواجہ آصف نے طویل دورانیے کی لوڈ شیڈنگ پر قوم سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ بجلی کی پیداوار اور رسد میں بہتری لانے کے لئے پوری کوشش کی جا رہی ہے۔ توانائی امورکے وزیر مملکت عابد شیر علی اور سیکرٹری نرگس سیٹھی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طلب انیس ہزار میگاواٹ تک پہنچ جانے پر بجلی کا شارٹ فال سات ہزار میگاواٹ ہوگیا ہے۔ لاہور میں پندرہ سو میگاواٹ کے دو گرڈ سٹیشن بند ہو جانے پر پچھلے تین دنوں میں بجلی کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔ انہوں نے عوام سے بارش کے لئے دعا کرنے کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ طلب پندرہ ہزار میگاواٹ سے تجاوز کر جانے پرگرڈ سٹیشن بند ہونے لگتے ہیں‘‘۔ وزیر موصوف نے یہ انکشاف بھی کیا کہ گردشی قرضہ 280 ارب روپے کے آس پاس منڈلا رہا ہے اور گرمی کی شدت کم نہ ہونے پر شارٹ فال میں مزید اضافہ ہوگا۔ مزید یہ کہ ''حکومت لوڈ شیڈنگ کی خاتمے کا کوئی ٹائم فریم نہیں دے سکتی۔ ہم جھوٹے وعدے نہیں کرنا چاہتے جو بعدازاں شرمندگی کا باعث بنیں۔ عوام اللہ سے دعا کریں‘‘۔
نامرادی جتنی یقینی ہو، توجیہات اتنی لایعنی ہو جاتا کرتی ہیں۔ معاشی پالیسیوں کی طرح ہر حکومت کے جھوٹ اور طریقہ ہائے واردات بھی ایک سے ہوتے ہیں۔ سسٹم اگر پندرہ ہزار میگاواٹ پر ٹرپ کر جاتا ہے تو مذہبی تہواروں، قومی دنوں اور پاک بھارت کرکٹ میچوں کے مواقع پر کئی دنوں تک بجلی کی بلاتعطل سپلائی کیسے جاری رہتی ہے؟ 22 ہزار میگاواٹ کی پیداواری صلاحیت ہوتے ہوئے بھی 19ہزار میگاواٹ کی طلب کیوں پوری نہیں ہو رہی؟ کیوں عوام کا پیسہ نجی پاور کمپنیوں کے بلیک ہول میں انڈیلا جا رہا ہے؟ ایک ارب روپے روزانہ کی اوسط سے بڑھنے والا گردشی قرضہ آخر کس مد میں ادا کیا جاتا ہے؟ اربوں روپے ''سستی بجلی‘‘ کی تشہیر پر اڑا دیے گئے لیکن اب تک ایک میگاواٹ بھی سسٹم میں شامل نہیں ہوا۔ پھر خواجہ صاحب نے عوام کو دعا کا درس دے کر بات ہی ختم کر دی۔ اگر سب کچھ اللہ نے ہی کرنا ہے تو یہ حکمران آخر کس لئے عوام پر مسلط ہیں؟ استعفیٰ دے کر ہماری جان کیوں نہیں چھوڑتے؟ سائنسی تحقیق، سیاست، ریاست، معیشت، جمہوریت کی کیا ضرورت ہے؟
غربت، محرومی، جرائم، جہالت اور دوسری معاشی و سماجی بیماریاں اللہ کی طرف سے نہیں ہیں، یہ سارے عذاب مٹھی بھر سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی طرف سے پوری انسانیت پر مسلط کئے گئے استحصالی نظام کی پیداوار ہیں جس کا پہلا اور آخری مقصد منافع خوری ہے۔ اس نظام زر کے معاشی قتل عام کے لئے آسمانی قوتوںکو مورد الزام ٹھہرانا حکمران طبقے اور میڈیا کے زر خرید دانشوروں کا وتیرہ بن چکا ہے۔ سیلاب اور زلزلے سے لے کر مہنگائی اور بیروزگاری تک ''قدرتی‘‘ آفات اور معاشی محرومی کو ''عذاب الٰہی‘‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہ سارے ''عذاب‘‘ غریبوں پر ہی کیوں نازل ہوتے ہیں؟ سرمائے کے پجاریوں کی اس منطق کے مطابق دنیا کی سب سے برگزیدہ، پارسا اور فرشتہ صفت ہستیاں میٹروپولیٹن شہروں کے پوش علاقوں میں رہتی ہیں۔ کیا حکمرانوں کے محلات ضمیر فروشی کے اڈے نہیں ہیں‘ جہاں عوام کے معاشی استحصال کے منصوبے تیار ہوتے ہیں؟ لیکن یہ سب کچھ شاید ''گناہ‘‘ کے زمرے میں نہیں آتا۔ اس ملک کا محنت کش طبقہ غربت، بھوک، بیماری اور استحصال سے نجات کے لئے نسل در نسل دعا کرتا آیا ہے لیکن حالات بد سے بدتر ہی ہوئے ہیں اور آج اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں ملک کا وفاقی وزیر بجلی و پانی بارش کے لئے مزید دعا کی اپیل کر رہا ہے!
اس ملک کا حکمران طبقہ سیاست اور معیشت کی باگ ڈور سنبھالنے کے 67 سال بعد بھی بنیادی معاشی اور سماجی انفراسٹرکچر کی تعمیر میں ناکام رہا ہے۔ جاگیرداری کی باقیات کا خاتمہ ہو یا قومی مسئلے کا حل اور سامراجی زنجیروں سے چھٹکارا حاصل کر کے یکجا قومی ریاست کی تشکیل، یہ حکمران قومی جمہوری انقلاب اور جدید سرمایہ دارانہ معاشرے کی تعمیر کا کوئی ایک فریضہ بھی ادا نہیں کر پائے۔ جو کچھ انگریز چھوڑ کر گئے تھے وہ بھی برباد ہو چکا ہے۔ بجلی کی پیداوار اور ترسیل کا قابل اعتماد نظام‘ جو صنعتکاری کی بنیادی شرائط میں سے ایک ہے، سرے سے ناپید ہے۔ بطور نظام عالمی سطح پر سرمایہ داری کی متروکیت اور حکمران طبقے کی تاریخی ناکامی سماج، ثقافت اور تہذیب کو برباد کرتی جارہی ہے۔ مذہبی بنیاد پرستی، فرقہ وارانہ تشدد، لسانی منافرت، خونخوار قوانین کے باوجود ریاست کی سکڑتی ہوئی رٹ اور بے قابو ہوتے ہوئے جرائم کی شکل میں بربریت کی تاریکی پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ سرمائے کی یہ اندھیر نگری کبھی روشن نہیں ہو سکتی۔ انقلاب ہی اس ظلمت کو مٹائے گا!