تحریر : طاہر سرور میر تاریخ اشاعت     19-07-2014

کار سے بے کار ہونے تک

13جولائی بروز اتوار دن دیہاڑے میری گاڑی چرالی گئی۔ 12 اور13 جولائی کی درمیانی رات میں لگ بھگ ڈیڑھ بجے ''دنیانیوز‘‘ کے دفتر سے اپنے گھر واقع نیوگارڈن ٹائون پہنچا تو حسب معمول گاڑی عین گھر کی دیوار کے ساتھ کھڑی کرکے اندرچلاآیا۔ کچھ دیر تک فٹ بال میچ دیکھتا رہا اورپھر صبح پانچ بجے تک دنیا نیوز کے مزاحیہ پروگرام ''مذاق رات ‘‘ کا سکرپٹ لکھتا رہا۔ صبح سواپانچ بجے جب نیند نے شکست دے دی تومیں سرنڈر کرکے بستر پر ڈھیر ہوگیا اورپھر سوابارہ بجے میرے کانوں میں بیگم کی یہ آواز پڑی کہ ''گاڑی چوری ہوگئی ہے‘‘آنکھ کھلی تو ''بے کار ‘‘ ہوچکاتھا۔
تفصیل اس ''اجمال‘‘ کی یوں ہے کہ دن کے لگ بھگ سوابارہ بجے بیگم نے گھر کے باہر دیکھا تو گاڑی غائب تھی ۔ مجھے جگایا تو میں نے گاڑی چوری ہونے کی اطلاع ٹریکر کمپنی کے کنٹرول روم میں دی۔ وہاں سے مجھے بتایاگیاکہ گاڑی اس وقت بھی نیوگارڈن ٹائون طارق بلاک میں ہی موجود ہے‘ جہاں میرا گھر ہے ۔ میں نے فوری طور پر اپنے ایک محلہ دار محمود کو ساتھ لیااور اس کی موٹرسائیکل پر بیٹھ کر اس مقام پر پہنچا جس کی نشاندہی کنٹرول روم سے کی گئی تھی۔ تقریباً 12:46پر میں نے پولیس کے ایمرجنسی نمبر 15کو اطلاع دی جس کے بعد دس پندرہ منٹ میں ہی پولیس کی موبائیل ٹیم بھی موقع پر پہنچ گئی۔ پنجاب پولیس اپنے غیر ذمہ دارانہ رویے کے باعث عالمی شہرت رکھتی ہے لیکن اس روز حیرت انگیز طور پر اس سائل کی ٹیلی فون کال پر فوراً پہنچ گئی۔ پولیس موقع پر یوں پہنچی جیسے پنجابی فلم بشیرا میں سلطان راہی اپنے بہن کی ڈولی کو کندھا دینے پہنچا تھا۔ سچی بات ہے میں اس وقت بہت پریشان تھا لیکن پولیس کے اس غیر معمولی ردعمل پر قدرے مطمئن ہو گیا۔ اس کے برعکس ٹریکر کمپنی کے اہلکار دو گھنٹے بعد موقع پر پہنچے حالانکہ ان کا آفس صرف ڈیڑھ فرلانگ دور تھا۔ مجھے محسوس ہو رہا تھا جیسے ٹریکر کمپنی کے اہلکار جان بوجھ کر کار چوروں کو بھاگ نکلنے کا موقع فراہم کررہے ہیں۔ بہرحال دوپہر 2:50پر پولیس اورٹریکر ٹیم کے اہلکار وں کے ساتھ موقع پر موجود تھا۔ یہ نیوکیمپس کے اندر وہ جگہ ہے جہاں (روڈ اینڈبلڈنگ میٹریل ویلیو یشن آفس) قائم ہے۔ وہی ہوا جو ٹریکر کمپنی کی دانستہ سستی کے بعد ہونا چاہیے تھا۔ چور میری محنت کی کمائی کی گاڑی وہاں سے چرا لے گئے تھے۔ میں نے یہ گاڑی اسی طرح خریدی تھی جیسے میرے جیسے مڈل کلاسئے چار یاپانچ سال کی قسطیں ادا کرکے ایگزیکٹو کلاس میں شامل ہوتے ہیں۔ میں وہ بدقسمت سائل ہوں جس نے ساغر صدیقی کی طرح درد بھرے لہجے میں ٹریکر کمپنی کو پکار ا لیکن انہوں نے میری ایک نہ سنی ۔میرا حال بالکل ایسا ہی تھاکہ ؎
میں نے پلکوں سے درِیار پہ دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یا د نہیں
پاکستان کے عظیم موسیقار ماسٹر عبداللہ مرحوم کو میں بڑی عقیدت سے ملاکرتاتھا۔90ء کی دہائی کے آغاز میں ماسٹر عبداللہ کو اپنی 70سی سی موٹرسائیکل پر بٹھا کر لاہور میں گھوما کرتاتھا۔دوسرے لفظوں میں ماسٹر صاحب نے مجھے موٹرسائیکل پر ڈرائیوررکھا ہوا تھا۔یہ وہ دن تھے جب میں ایک قومی اخبار کے فلم ایڈیشن کا انچارج ہوا کرتاتھا۔میرے پاس موٹر سائیکل تھی مگر کبھی کبھار لالی وڈ انڈسٹری پر اپنی امارت کی دھاک بٹھانے کیلئے بڑے بھائی ڈاکٹر طیب سرورمیر کی چھوٹی سی گاڑی گجرانوالہ سے لے آیا کرتاتھا۔مجھے یاد ہے میں ایک مرتبہ اسی گاڑی میں اپنے جگری دوست اداکار ببوبرال مرحوم کے ساتھ سبزہ زار میں واقع ماسٹر عبداللہ کے گھر پہنچا ۔ ماسٹر صاحب نے اس موقع پر عالمگیر جملہ بولاتھا۔ انہوں نے ہم موٹر سائیکل سواروںکو یوں گاڑی میں بیٹھے دیکھا تو داد ِتحسین دیتے ہوئے بولے: ''اوئے گڈیاں والیو، اے گڈیاں بڑی نعمت ہندیاں جے‘‘۔ (گاڑی والو،یہ گاڑیاں بڑی نعمت ہوتی ہیں)۔ یہ اس فقیرانہ صدا کی انسٹنٹ پیروڈی تھی‘ ہمارے ہاں پیدائشی نابینا جو گلی محلے میں بھیک مانگتے ہوئے لگاتے ہیں۔ 
میرا آبائی شہر گجرانوالہ ہے۔ آج سے 26سال پہلے لاہور منتقل ہوا۔ تب سے لاہور نے ماں باپ کی طرح سنبھالا ہوا ہے۔ اس شہر میں جہاں زندگی کے سکھ ملے وہاں کبھی کبھی دکھ بھی جھیلنے پڑے ۔1990ء کے آغاز میں جب میں ڈیوس روڈ پر واقع ایک قومی اخبار سے وابستہ تھا تو اس کے مرکزی دروازے سے میرا 70سی سی موٹرسائیکل ُچرالیاگیاتھا۔یہ وہ دن تھے جب میں 
پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات میں زیر تعلیم بھی تھا‘ لہٰذا یونیورسٹی اورپیشہ ور صحافی کے طور پر متحرک رہنا پڑتا تھا۔یہ وہ زمانہ تھا جب میرے اورآپ سب کے عزیز اداکار سہیل احمد المعروف عزیزی اپنے کیریئر کے لئے جدوجہد کررہے تھے۔سہیل احمد‘ جن کے بارے میں‘ میں کہاکرتاہوں کہ ان کی دوستی ہمیشہ ایک نعمت رہی ہے‘ نے زبردستی اپنی موٹر بائیک یہ کہہ کر مجھے دے دی کہ ''تم صحافت کے شعبہ سے وابستہ ہو ، اس موٹر سائیکل کی تمہیں مجھ سے زیادہ ضرورت ہے‘‘ اس کے بعد اکثر ایسا ہوا کہ جون جولائی کی شدید گرمیوں میں سہیل احمد مجھے لاہور کی سڑکوں پر پیدل چلتے ہوئے ملتے اور انہیں دیکھ کر میری آنکھوں سے آنسو چھلک پڑتے۔ میں اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہوں کہ مجھے زندگی میں ایسے مخلص اورپیار کرنے والے عزیز واقارب ملے جن کی محبت اور جن کا خلوص ہر قسم کی معاشرتی بے حسی اور کمرشل متعدی بیماریوں سے محفوظ رہا۔
اپنی محنت سے کمائی ہوئی کار یا سواری سے متعلق سوچتاہوں تو وہ بھی کسی جاندار اورزندہ کردار کی طرح میرے سامنے کھڑی نظر آتی ہے۔وہ سات سال سے میرے ساتھ تھی۔ اب تو وہ مجھے مشین بھی نہیں لگتی تھی ۔ ہمارے ہاں کار چوری کا رواج پرانا ہے لیکن اس وقت یہ دھندہ عروج پر ہے۔ کار چوری نیٹ ورک میں پنجاب اورخیبر پختونخوا کے پیشہ ور چور ''گرینڈ الائنس ‘‘ بنائے ہوئے ہیں۔اکثر یہ کیاجاتاہے کہ گاڑی اٹھاکر فوری طور پر لاہور یاآس پاس کے علاقوں‘ جن میں شیخوپورہ اورحافظ آباد شامل ہیں‘ چھپا دی جاتی ہے۔اس کے بعد علاقہ غیر (جو بدقسمتی سے پورا پاکستان بنایا جارہاہے) سے ایک پٹھان کا فون آتا ہے۔جو آپ سے کار ،اس کے ماڈل ،کمپنی ،انجن اورباڈی کی حالت کے مطابق رقم کی ڈیمانڈ کرتاہے ۔ایسا اس صورت میں ہوتا ہے کہ آپ کی قسمت اچھی ہووگرنہ گاڑی کا قیمہ ( پرزے علیحدہ) کرکے اسے فروخت کردیاجاتاہے۔ٹیلی فون کرنے والا یہ تاثر دیتا ہے کہ آپ کی گاڑی علاقہ غیر میں ہے‘ آپ کسی ضامن کے ہاتھ پیسے بھجوائیں یا خودآجائیں تو پیسے لے کر گاڑی آپ کو واپس کردی جائے گی۔ گلوکار شوکت علی نے اپنی 8لاکھ روپے مالیت کی گاڑی کار چوراینڈ کمپنی سے مبلغ ساڑھے تین لاکھ روپے میں واگزار کرائی تھی۔ کارچوری کی وارداتوں کے بعد ایسا بھی ہوا کہ کوئی مظلوم شخص کار کھوجانے کے بعد مطلوبہ رقم لے کر جب بتائے گئے پتے پر گیا تو واپس نہ آیا۔اس صورت میں بچ جانے والے لواحقین سے مزید پیسوں کا مطالبہ کیاجاتاہے۔ 
میں بھی منتظر ہوں کہ مجھے بھی کسی نیک دل اورہمدرد پٹھان کا فون آجائے‘ جو میرے ساتھ سودے بازی کرکے میری گاڑی مجھے واپس کردے۔میرے دوستوں نے مجھے مشورہ دیا ہے کہ میں ایف آئی آر درج کرانے اور اینٹی کار لفٹنگ ڈیپارٹمنٹ کی خدمات حاصل کرنے کے بجائے ڈائریکٹ کارچورڈیپارٹمنٹ سے رابطہ کرکے ان کی منت سماجت کروں تاکہ میری کار مجھے واپس مل جائے۔ وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف نے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی ذمہ داری اوپر والے پر ڈالی ہے لگتاہے کہ امن وامان اورمال وجان کی حفاظت کا ڈیپارٹمنٹ بھی اسی کے سپرد کرنا پڑے گا جو پہلے ہی اس کے سپرد ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved