تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     19-07-2014

کچھ اہلِ کرامات کے بارے میں

دو آدمی کہیں جا رہے تھے کہ ایک نے چُٹکی بجانا شروع کردی۔ 
''چٹکی کیوں بجا رہے ہو؟‘‘ ساتھ والے نے پوچھا۔ 
''میں ہاتھیوں کو ڈرا رہا ہوں‘‘ دوسرے نے جواب دیا۔ 
''لیکن ہاتھیوں کا تو کہیں دور دور تک نام و نشان ہی نہیں ہے‘‘ پہلے نے کہا۔ 
''دیکھا میری چٹکی کا اثر؟‘‘ دوسرے نے جواب دیا۔ 
عرض کرنے کا مقصد ہے کہ یہ جو ابرکرم برسنا شروع ہو گیا ہے تو اسے خواجہ آصف ہی کی کرامات سمجھیے کہ انہوں نے لوگوں سے بارش کی دعا کی درخواست کی اور دوسرے تیسرے ہی دن بارش شروع ہو گئی اور یہی ان کا مقصد بھی تھا کہ ؎ 
آہ جاتی ہے کہ فلک پر رحم لانے کے لیے 
بادلو ہٹ جائو، دے دو راہ جانے کے لیے 
سو‘ بادلوں نے نہ صرف راہ دے دی بلکہ خواجہ صاحب کی خواہش کا احترام بھی کر ڈالا۔ آپ تو ہمارے درمیان ایسے پہنچے ہوئے بزرگ ہیں کہ لوگوں سے کہنے کی بجائے اگر خود دعا مانگ دیتے تو یہ کام اسی دن شروع ہو جاتا‘ یعنی ع 
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں 
اس کے علاوہ ایک اور دعا بھی ضروری ہو گئی ہے کہ اخباری اطلاعات کے مطابق ہم آپ‘ سب کے بزرگ جناب مجید نظامی آج کل صاحبِ فراش ہیں اور ان کی جلد اور مکمل صحت یابی کے لیے ہم سب دست بدعا ہیں۔ بلکہ ہم ان سے بھی عرض کریں گے کہ نہیں جناب‘ ابھی نہیں۔ ابھی تو ہم نے آپ کو‘ بوقتِ ضرورت‘ اور بقول آپ کے ایٹم بم کے ساتھ باندھ کر بھارت پر پھینکنا ہے کہ خالی ایٹم بم شاید اتنی تباہی نہ مچا سکے یعنی ع 
ایں کار از تو آید و مرداں چُنیں کنند 
مزید برآں‘ ہمیں اس دوران‘ یعنی بارش شروع ہونے سے پہلے ایک دعائیہ غزل بھی موصول ہوئی ہے جو ہمیں کیپٹن عطا محمد خان نے بھجوائی تھی۔ کیپٹن صاحب دوست ہونے کے علاوہ ہمارے ہمسائے بھی ہیں اور ایک شعری مجموعے کے خالق بھی۔ اس کے علاوہ سرکاری افسر ہیں اس لیے ان کی غزل کو بھی کلامِ سرکار ہی میں شامل سمجھا جا سکتا ہے جو ہم کالم کے آخر پر آپ سے شیئر کریں گے۔ 
اب ایک نہایت مختصر محبت نامے کا ذکر جو ہمدمِ دیرینہ سید انیس شاہ جیلانی نے محمد آباد‘ صادق آباد سے بھجوایا ہے۔ آپ نے وہاں اپنے والد گرامی کی یاد میں مبارک لائبریری قائم کر رکھی ہے اور ''لالۂ صحرا‘‘ کے نام سے ایک ادبی جریدہ بھی نکالتے ہیں۔ واضح رہے کہ مختصر نویسی کی ایک اپنی تاریخ ہے جبکہ صنفِ غزل میں ایجاز و اختصار کو ایک لازمی جزو اور اس کا حسن قرار دیا گیا ہے اور مختصر نویسی نثر میں ہو یا نظم میں‘ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ مولانا محمد علی جوہر جو اخبار ''لیڈر‘‘ کے ایڈیٹر بھی تھے‘ اور اپنے مختصر اداریوں کی وجہ سے اپنا ایک خاص مقام رکھتے تھے۔ ایک بار خلافِ معمول ان کا اداریہ بہت طول کھنچ گیا۔ کسی نے وجہ پوچھی تو فرمایا: ''مختصر لکھنے کے لیے میرے پاس وقت نہیں تھا!‘‘ 
اب جیلانی صاحب کا گرامی نامہ ملاحظہ ہو: 
''محترم‘ بڑھاپے کا یہ ہے کہ آدمی خانہ نشین ہو کر رہ جاتا ہے۔ آپ کا اور میرا معاملہ یکساں ہے۔ خاکسار انیس‘ 12جولائی 2014ء‘‘۔ 
شاہ صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ جناب بوڑھے آپ ہوں گے۔ میں تو ہرگز بوڑھا نہیں ہوں۔ نہ ہی خانہ نشین‘ بلکہ خانہ بدر سمجھیے! ثبوت کے طور پر میرا یہ شعر حاضر ہے ؎ 
میں بڑھاپا تو گزار آیا ہوں 
ہے ابھی عہدِ جوانی آگے 
بلکہ میں تو آپ کو بھی بوڑھا ماننے کو تیار نہیں ہوں‘ میرا تو معاملہ ہی اور ہے‘ یعنی ؎ 
بوڑھا ہونے سے پہلے ہی 
شکل بنائی بوڑھی میں نے 
لیجیے‘ کیپٹن صاحب کی غزل حاضر ہے جو انہوں نے کڑک گرمی کے دنوں میں لکھی اور مجھے بھجوائی لیکن اس کا اعجاز دیکھیے کہ چھپنے سے پہلے ہی کیسا رنگ لے آئی ہے! 
O
ایسی گرمی ہے کہ بارش کی دعا مانگتے ہیں 
ہاتھ اٹھتے ہوئے پانی کی ردا مانگتے ہیں 
کوئی بادل مرے کھیتوں پہ کرم فرمائے 
میرے دہقان کہ محنت کا صلہ مانگتے ہیں 
آگ فصلوں میں بھڑکتی ہے، شجر پیاسے ہیں 
پھول، بھیگی ہوئی بارش میں، ہوا مانگتے ہیں 
رات دن لگتے ہیں یہ لُو کے تھپیڑے کی طرح 
لوگ جلتے ہوئے، ساون کی گھٹا مانگتے ہیں 
ہاتھ اٹھے ہوئے خالی نہیں لوٹاتا وہ 
تو بھی اے دوست ذرا ہاتھ اٹھا، مانگتے ہیں 
جلتے سورج کو عطاؔ شعر سنا کر اپنے 
داد بارش کی طلب کرتے ہیں، آ مانگتے ہیں 
آج کا مطلع 
ملا تو منزلِ جاں میں اتارنے نہ دیا 
وہ کھو گیا تو کسی نے پکارنے نہ دیا 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved