دنیا نیوز نے اپنے11/12 جولائی کے پروگرام'' کیوں ‘‘ میں میران شاہ کی ایک مسجد کے وسیع تہہ خانے میں خود کش دھماکوں کی ٹریننگ اور برین واشنگ کے لیے استعمال ہونے والی جگہوں کے منا ظر دکھائے۔ تہہ خانے سے جو سی ڈیز ملیں‘ اُن میں نو عمر بچوں کو خود کش بننے کی ''سعادت‘‘ حاصل کرنے کا سبق پڑھتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ کیا یہ ظلم اور بربریت اﷲ کے احکامات سے روگردانی کی انتہا نہیں کہ کسی کے بچے کو اغوا کرنے‘ کسی ماں کے کلیجے کو کاٹنے کے بعد اسے خود کش بنا کر بے گناہ لوگوں کی موت کا سبب بنا دیا جائے؟ جس طرح آج افواج پاکستان ملک کی سلامتی اور اس کے شہریوں کو امن اور سکون کی زندگیاں دینے کیلئے قربانیاں پیش کر رہی ہیں‘ اسی طرح چھ سال قبل 18 مئی2008ء کو بھی اس وقت14 ڈویژن کے جی او سی اور موجودہ کور کمانڈر منگلا لیفٹیننٹ جنرل طارق خان نے '' زلزلہ‘‘ کے نام سے تحریک طالبان کے خلاف آپریشن کیا تھا۔ جنرل طارق اور بریگیڈ ہیڈ کوارٹر234 کے بریگیڈیئر علی عباس نے ''آپریشن زلزلہ‘‘ پر بریفنگ دیتے ہوئے میڈیا کو مقامی طالبان کمانڈروں کے اعظم ورسک ہیڈ کوارٹر اور اس سے ملحق تربیتی کیمپوں سے طالبان کی قید سے بازیاب کرائے گئے 52 کم سن بچوں سے بھی خصوصی طور پر ملوایا تھا۔
ڈیرہ اسماعیل خان کے قریب سپن کئی میں فوج کے بریفنگ ایریا میںان بچوں نے بتایا کہ دوران تربیت انہیں انتہائی اعلیٰ قسم کا کھانا دیا جاتا تھا۔ استاد انہیں بتاتے تھے کہ جو کھانا تم لوگوں کو دیا جا رہا ہے ''جنت الفردوس کے سب سے نچلے مطبخ سے آتا ہے‘‘ جب تم اﷲ کی راہ میں اپنی جانیں قربان کرو گے تو پھر تمہیں جو کھانا ملے گا‘ اس کا ابھی تم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ جب ان بچوں کے میڈیکل ٹیسٹ کیے گئے تو یہ حیران کن انکشاف ہوا کہ بھر پور قوت اور جوش اور جذبہ ابھارنے کیلئے ٹریننگ کیمپوں میں انہیں غیر محسوس طریقوں سے انتہائی قوت بخش ادویات بھی کھلائی جا رہی تھیں۔ دوران تربیت انہیں لڑکیوں کی تصاویر دکھاتے ہوئے بتایا جاتا تھا کہ جنت میں اس سے ہزار گنا زیادہ خوبصورت70 حوریں تمہاری بیویاں بنائی جائیں گی ۔۔۔۔آپریشن زلزلہ میں تحریک طالبان کی قید سے بازیاب کرائے گئے یہ کمسن خود کش کہاں کے رہنے والے تھے؟ یہ بچے ان طالبان کے پاس کیسے پہنچے ؟ ان بچوں کے بیانات کے بعد فوج نے مقامی انتظامیہ کی مدد سے جب ان کے والدین کو ڈھونڈ کر ان کی ملاقات کرائی تو وہ منظر دیدنی تھا۔ یقین کریں کہ ان کی مائوں اور دادیوں کا ان سے والہانہ لپٹنا‘ چومنا اور چیخیں مارتے ہوئے خوشی سے رونا‘ یہ منظر اب تک بھلایا نہیں جاسکا۔ بچوں کی مائیں اور باپ جس طرح جنرل طارق کی بلائیں لے رہے تھے‘ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا اٹھا کرانہیں دعائیں دے رہے تھے‘ پاک فوج کیلئے وہ سب سے بڑا نذرانہ عقیدت اور اُسے بدنام کرنے والوں کے منہ پر زبردست طمانچہ تھا۔
22 مارچ2007ء کو گورنمنٹ ہائی سکول ٹانک نمبر ایک کے اندر بڑی بڑی ڈبل کیبن گاڑیاں اور ایک وین زور دار بریکوں کے ساتھ رکیں۔ راکٹ لانچروں اور کلاشنکوفوں سے مسلح لمبے لمبے بالوں والے طالبان اترے اور گرج دار آواز میں سکول کے اساتذہ کو حکم دیا کہ تمام لڑکوں کو سکول کے احاطہ میں کھڑا کر دیا جائے۔ سہمے ہوئے اساتذہ اور بچے ایک قطاربنا کر کھڑے ہو گئے۔ مسلح افراد نے ان میں سے21 چیختے چلاتے بچوں کو اٹھا کر گاڑیوں میں پٹخا اور یہ جا وہ جا۔ ابھی ان بچوں کی بازیابی کیلئے جرگہ کی تیاریاں کی جا رہی تھیں کہ24 مارچ کو ٹانک کے ہی ہائی سکول2 میں امتحان دیتے ہوئے9 بچوں کو زبردستی اٹھا لیا گیا۔ جب اساتذہ نے ان بچوں کے اغوا پرشور مچاتے ہوئے احتجاج کیا تو انہیں سختی سے کہا گیا کہ ''دنیاوی امتحانات کوئی معنی نہیں رکھتے‘ یہ آخرت کے امتحان کی تیاری کرنے جا رہے ہیں‘‘۔ 26 مارچ 2007ء کو زام پبلک سکول کے علا وہ ٹانک کے سکول میں ابھی کلاسوں میں پڑھائی شروع ہوئی ہی تھی کہ مسلح طالبان کاایک اور گروہ زبردستی سکول پر قابض ہو گیا اور تمام بچوں سے ایک کاغذ پر دستخط کرانے شروع کر دیے جس پر لکھا تھا کہ ''میں اپنی مرضی سے جہاد میں شامل ہونے کیلئے جا رہا ہوں‘ کوئی مجھے روکنے یا ٹوکنے کی کوشش
نہ کرے۔ میرا اپنے والدین سے اب کوئی تعلق نہیں اور آج سے میں طالبان ہوں‘‘ سکول کے اساتذہ کویہ کہہ کر خاموش کرا دیا گیا کہ جہاد کی راہ میں رکاوٹ بننے والا امریکہ کا ایجنٹ ہے۔ اس سے اگلے دن طالبان کا ایک اور گروپ آکسفورڈ پبلک سکول کے17 بچوں کو فدائین کے نام پر زبردستی اٹھانے کیلئے پہنچا تو سکول کے پرنسپل نے ایف سی کی مدد حاصل کر لی۔ مسلح تصادم شروع ہو گیا جس کے نتیجے میں ایس ایچ او ٹانک حسن خاں مروت شہید ہو گئے جبکہ طالبان کا مقامی کمانڈر احسان اﷲ برکی عرف جنرل ہلاک ہو گیا۔ ابھی یہ لڑائی جاری تھی کہ طالبان کے مسلح جتھے مشین گنوں ، دستی بموں اور راکٹ لانچروں سے حملہ آور ہو گئے اور جاتے ہوئے آکسفورڈ سکول کے پرنسپل کو اغوا کر کے لے گئے۔۔۔۔ یہ خبریں پھیلتے ہی ارد گرد کی آبادیوں میں خوف و ہراس پھیل گیا اور لوگوں نے اپنے بچے سکولوں میں بھیجنے بند کر دیے اور ٹانک سے ڈیرہ اسماعیل خان منتقل ہونا شروع ہو گئے۔ مولانا فضل الرحمن کے وزیر اعلیٰ اکرم درانی ہاتھ پہ ہاتھ دھر کر بیٹھے رہے کیونکہ طالبان کے معاملے میں انتظامیہ کو دخل اندازی سے منع کر دیا گیا تھا۔ ٹانک سے ہجرت کرنے والوں کی تعداد بقول جنرل طارق خان دو لاکھ سے تجاوز کر گئی تھی۔ سرحد میں مولانا فضل الرحمن کی حکومت نے ان بے یارومددگار افراد‘ جن میں بچے بوڑھے اور عورتیں شامل تھیں‘ کے لیے کچھ بھی نہ کیا۔ بیماریاں پھیلنے لگیں تو
فوج حرکت میں آئی اور اس نے آج کے آئی ڈی پیز کی طرح ان کے لیے بھی رہائش اور خوراک کا بندوبست کیا۔
جنرل طارق کی کمان میں فوج کے چودھویں ڈویژن نے آپریشن زلزلہ کا آغاز کرتے ہوئے جب دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور پناہ گاہوں کو نشانہ بنانا شروع کیا تو ایک حملے کے دوران عبد اﷲ محسود کے کزن اور گورنمنٹ ڈگری کالج کے طالب علم19 سالہ سہیل زیب عرف وحید اﷲ کو سکیورٹی فورسز نے دو خود کش جیکٹوں اور 20 کلو دھماکہ خیز مواد سمیت گرفتار کر لیا۔ تفتیش پر اس نے بتایا کہ یہ مواد وہ ایک مقامی مسجد میں پہنچانے کیلئے جا رہا تھا۔ سہیل زیب نے بتایا کہ ازبک دہشت گرد ان بچوں کو اغوا کرنے کے بعد پاک افغان سرحد پر واقع پکتیا صوبے کے علاقے '' کازا پنگا‘‘ میں دہشت گردی کے تربیتی مرکز میں لے جاتے تھے‘ جہاں بھارت سے آئے داڑھیوں والے لوگ انہیں تربیت دیتے تھے اور پڑھنے کیلئے دو کتابیں ''رہبر کی شناخت‘‘ اور ''فدائی حملے‘‘ لازمی دی جاتی تھیں۔ بازیافتہ بچوں نے بتایا کہ دوران تربیت ازبک اور مقامی کمانڈر ہمیں سخت تاکید کرتے تھے کہ ''خود کش حملہ کرتے ہوئے اپنا سر اﷲ کے حضور اس طرح جھکانا ہے کہ یہ جیکٹ کے ساتھ لگ جائے‘‘ اور یہ اس لئے تھا کہ تفتیش کرنے والوں کیلئے چہرہ قابل شنا خت نہ رہے۔ وہ پختون مائیں آج بھی جھولیاں بھر بھر کر پاکستان کے فوجیوں کو دعائیں دے رہی ہیں‘ جنہوں نے اپنی جان ہتھیلیوں پر رکھ کر ان کے چھینے گئے لال طالبان سے بازیاب کرا کے ان کی گودوں میں ڈالے۔ میرے پاک وطن کے پاک مجاہدو ''عضب کا رکھوالا‘‘ قدم قدم پر تمہارے ساتھ ہے۔