سادہ سا آدمی ہے مگر بھید پالیا۔ وہ جو ہجرت کے دن مدینہ میں آشکار ہوا تھا۔ دولت کی محبت سے آدمی اگر اوپر اٹھے تو اس کی روح میں اجالاہو جاتاہے ۔ ایک پورا معاشرہ بھی جگمگا سکتاہے اور ایسا کہ تاریخ میں ایک نیا دور طلوع ہو ۔ یہ مگر الگ موضوع ہے ، اس پہ پھر کبھی۔
پانچ برس ہوتے ہیں ، جب وہ حیران کن واقعہ رونما ہوااور طالبان کے سب مطالبات تسلیم کر لیے گئے۔ بالخصوص شرعی عدالتوں کے قیام کا وعدہ کر لیا گیا۔ ٹھیک اسی روز ٹیلی ویژن کے ایک مباحثے میں ان کے مشہور و ممتاز لیڈر کمانڈر مسلم نے کہا کہ وادی میں وہ بینکوں کو کام کرنے کی اجازت نہ دیں گے ۔ سمجھوتے پر دستخط ہو جانے کے بعد؟ ساری قوم کے سامنے اعلان کرنے کے بعد؟ پیمان کی ایک تقدیس ہوتی ہے اور قرآنِ کریم کواس پر اصرار ہے ۔ تب ایک سوال کرنے کی جسار ت کی :رسولِ مقبول ﷺ نے سود پہ پابندی کب عائد کی تھی ؟ اوّل وہ گڑبڑایا ، پھر اس مفہوم کا جملہ کہا : قرآن کی آیات اتر آنے پر۔ میں نے اسے بتانے کی کوشش کی‘ ایسا نہ ہوا تھا۔ کئی برس گزر گئے تھے ، یہ خطبہ حجۃ الوداع کا دن تھا، جب عالی جنابؐ نے ارشاد فرمایا: آج سے میں سارے سود باطل قرار دیتا ہوں اور سب سے پہلے اپنے چچا عباس بن عبدالمطلبؓ کا۔
اس دوران کیا ہوتا رہا؟ پیہم تعلیم اور مسلسل تربیت کے ساتھ عالی مرتبتؐ نے دولت کی محبت دلوں سے نکال دی ۔ اس خیرہ کن توکل کو جنم دیا، تاریخ میں جس کی کوئی نظیر نہ تھی ۔ بتایا کہ خیرات کی دس نیکیاں ہیں تو قرضِ حسنہ کی اٹھارہ۔ قرآنِ کریم کی وہ آیت ان کی رگ رگ میں اتر گئی ''وما من دا بتہ فی الارض الا علی اللہ رزقہا‘‘ زمین پر کوئی ذی روح ایسا نہیں ، جس کا رزق اللہ کے ذمّے نہ ہو ۔ ان مہ و سال کے بعد کسی مفلس کے لیے کوئی مشکل وقت اندیشوں کا طوفان لے کر نہ آتا۔ سود پر پابندی لگا دی گئی اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ کمانڈر مسلم کی سمجھ میں یہ بات کسی طرح نہ آئی اور وہ ڈٹا رہا۔ اپنی محدود معلومات کے ساتھ اس کے سوا وہ کیا کرتا۔ علم کے بنیادی مآخذ ، مصحفِ پاک ، حدیثِ رسولؐ ، تاریخ اور کبارِ اہلِ علم سے استفادہ کیے بغیر، محض جذبات کی بنیاد پر جب کوئی موقف اختیار کر لیا جائے ۔ زعمِ تقویٰ اور خبطِ عظمت ہم رکاب ہو اور لاشعور میں دنیا پر حکم چلانے کی وحشیانہ خواہش تو ادراک کا دروازہ کیسے کھلے ؟
افسوس کہ تاریخ کے سیاق و سباق کو یکسر نظر انداز کر کے اسلام کو ہم نے مولویوں سے پڑھا، معاف کیجیے ، فرقہ پرست مولویوں اور ذاکروں سے ۔ جن کی ساری زندگی اپنے اپنے مکاتبِ فکر کو غالب کرنے کی احمقانہ جدوجہد میں ضائع ہو جاتی ہے ۔ عرق ریزی سے کوئی کام لیتا ، اہلِ علم سے فیض پاتا ۔ تب وہ جان لیتا کہ وہ ایک اور طرح کا معاشرہ تھا اور ایک اور طرح تشکیل پایا تھا۔ تانا بانا ہی جدا۔ فکر اور احساس کے انداز ہی مختلف۔
عرب تاریخ کے سات بڑے شاعروںمیں سے ایک ، عبیدؓ ایک دن میدان میں چادر اوڑھے لیٹے تھے ۔ ایک نوجوان آیااور اس نے مشہور شاعر طفیل الغنوی کے چند شعر پڑھے، جن میں عبیدؓ کے گھرانے بنو جعفر سے اظہارِ ممنونیت تھا۔ پھر کہا ''طفیل کا برا ہو ۔ بنو جعفر میں اس نے ایسا بھی کیا دیکھا کہ اس قدر ستائش کی‘‘ اسلام لانے کے بعد شاید پہلی بار 100برس کے بوڑھے شاعر کی رگِ حمیت پھڑکی۔ چہرے سے کپڑا ہٹایا اور یہ کہا: ''بھتیجے تم لوگوں نے
آج کا زمانہ دیکھا ہے ، جب ایک ایک کاتحفظ کرنے کے لیے داروغہ موجود ہے ، رسد خانے ہیں ۔ خادمہ تھیلا لے کر جاتی اور گھر بھر کا راشن لے آتی ہے۔ بیت المال ہے ، جہاں سے سب اپنے اپنے وظائف وصول کر لیتے ہیں ۔ تم نے اگر وہ زمانہ دیکھا ہوتا ، جس میں طفیل نے یہ شعر کہے تھے تو کبھی اسے نشانۂ ملامت نہ بناتے‘‘ کہنے کو کہہ دیا مگر پھر دیر تک استغفار پڑھتے رہے... وہ اور لوگ تھے، وہ اور زمانہ تھا، وہ اور نظام تھا۔
برسبیلِ تذکرہ ، خوبرو، حلیم الطبع، معزز اور حیران کن حد تک مہمان نواز عبید کو ، جس نے جاہلیت اور اسلام ، دونوں کا زمانہ پایا، ایک ایسا اعزاز حاصل ہے ، جس میں اس کا ہمسر کوئی نہیں ۔ سرکارؐ نے ایک بار ارشاد کیا تھا سب سے سچی بات جو کسی شاعر نے کہی ، عبید کا یہ قول ہے ''سنو ہر چیز بجز خدا کے بے ثبات ہے‘‘۔
سود سے متعلق بحث دو معزز کالم نگاروں میں چھڑی ہے ۔ حیرت ہوتی ہے کہ کس بے دردی سے گاہے پس و پیش منظر کو بھلا دیا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک محترم نے لکھا ہے کہ سودی نظام کے باوجود برق رفتاری سے مغرب تسخیر و ترقی کے راستے پر گامزن ہے ۔ سود کی مخالفت کرنے والوں کا انہوں نے مذاق اڑایا ۔ ان کی نیت پر شبہ نہیں۔ کس سہولت سے لیکن نظر انداز کردیا کہ سود کی حرمت مسلمانوں کا اٹل عقیدہ ہے ۔ ہر ایک کا اپنا سچ ہے اور ہر ایک اپنے سچ کا ذمہ دار۔ اللہ تو انسانوں کو اس بات کی اجازت بھی دیتا ہے کہ چاہیں تو وہ اسے تسلیم کریں اور چاہیں تو انکار ہی کر دیں ۔ ''فالھمہا فجورھا و تقوھا ‘‘... ''اچھے اور برے رجحانات ہم نے تمہارے ذہنوں پہ الہام کر دیے‘‘۔عصرِ رواں میں آزادیٔ اظہار کی دنیا وسیع ہے۔ خاص طور پہ آج کے پاکستان میں ۔ یہ مگر کیوں ضروری ہوا کہ اپنے مجروح ہم وطنوں کے زخموں پہ نمک بھی چھڑکا جائے۔ قرآنِ حکیم کی آیات واضح ہیں کہ سود باطل ہے ا ور معاشرے کی تباہی کا باعث۔ سوالات البتہ موجود ہیں ۔ سنجیدگی سے ان پر بحث برپا ہو سکتی ہے ۔ کیا آج کے بینک کا سود وہی ہے ، 1400سال قبل جسے ربا کہا گیا۔ کیا اس پر بھی انہی احکام کا اطلاق ہو گا۔
رہی مغرب کی ترقی تو اس شاعری کو کیا کہیے کہ وہ سودی نظام کاثمر ہے ۔ جی نہیں ، سب جانتے ہیں کہ ریاضت، پائیدار امن، سیاسی استحکام، قانون کی بالاتری، علوم کے فروغ ، اداروں کی تشکیل، ٹیکنالوجی کی برتری اور نسبتاً بہت ہی بہتر حکمرانی کے طفیل۔پھر مغرب میں سود ہے ہی کیا؟ مالیاتی اداروں کا نظام چلانے والوں کے معاوضے سے کچھ ہی زیادہ ۔ افراطِ زر کو اگر شمار کر لیا جائے تو بعض صورتوں میں برائے نام بھی نہیں ۔ پاکستان کے 18فیصد کے مقابلے میں ، جو عملاً بیس بائیس فیصد ہے ، ایک سے چار پانچ فیصد۔ لین دین میں کڑا احتساب۔ ٹیکس وصولی کا مربوط نظام۔ کیا پاکستان سے اس کا کوئی مقابلہ ممکن ہے ، جہاں وزیراعظم کی دولت بیرونِ ملک پڑی ہے ، اپوزیشن لیڈر اور وزیرِ خزانہ کی بھی ۔ جہاں تاجر گیس اور بجلی چوری کرنے کے لیے آزاد ہیں اور حکام رشوت وصول کرنے کے لیے ۔ اربوں کے قرضے جہاں معاف کر دیے جاتے ہیں ، جہاں پولیس براہِ راست اور آخری تجزیے میں کم از کم چھوٹی عدالت پوری طرح حکمران طبقے کی باندی ہے ۔ چیزیں کیا اتنی ہی سادہ ہوتی ہیں کہ خطیبوں ایسی سادگی کا مظاہرہ کرنے والے دانشور جس طرح پیش فرمانے لگے ؟
ارشاد یہ فرمایا تھا کہ ایک زمانہ آئے گا، جب سود نہیں تو سود کا دھواں ہر ایک تک پہنچے گا۔ ایک عالمی زبان کی طرح ، ہر عہد کا ایک مالیاتی نظام ہوتاہے ۔ سارے عالم میں آج یہ سود پہ استوار ہے ۔ دولت کی محبت اور سرمائے کے غلبے پر۔ اس سے الگ تھلگ ہو کر یکسر آزاد ہم کوئی معاشی نظام تشکیل نہیں دے سکتے ۔ اس کے لیے مربوط ، بامعنی اور مرحلہ وار کوشش درکارہے ۔ قرض کی دنیا میں ایک چھوٹی سی مثال ڈاکٹر امجد ثاقب کی اخوت ہے ، ہمیشہ جس کا ذکر ہوتاہے ۔ تین لاکھ محنت کشوں کو جو غیر سودی قرض دے چکی اور فروغ پذیر ہے ۔ بنگلہ دیش کے گرامین بینک کے مقابلے میں یہ بہت بڑاکارنامہ ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کو نوبل انعام ملے یا نہ ملے، اللہ انہیں دنیا و آخرت میں سرخرو کرے ۔ مغرب کے اندر تھوڑا سا ہم نے بھی جھانک کر دیکھا ہے ۔ بظاہر سرخرو، باطن ویران۔
سادہ سا آدمی ہے مگر بھید پالیا۔ وہ جو ہجرت کے دن مدینہ میں آشکار ہوا تھا۔ دولت کی محبت سے آدمی اگر اوپر اٹھے تو اس کی روح میں اجالاہو جاتاہے ۔ ایک پورا معاشرہ بھی جگمگا سکتاہے اور ایسا کہ تاریخ میں ایک نیا دور طلوع ہو ۔ یہ مگر الگ موضوع ہے ، اس پہ پھر کبھی۔