نظامِ زر و ظلم کی تخریب ہی نہیں بلکہ اپنے وطن اور معاشرے کی تعمیر سچے لیڈروں اور مخلص جماعتوں کی ترجیح ِ اوّل ہوا کرتی ہے ۔ اس کا اہتمام کیا ہے ؟ جنابِ والا! اس کی ضمانت کیا ہے؟
کون سی چیزہے ،جو اس نڈھال قوم کو عصری حقائق کا ادراک ہونے نہیں دیتی ۔ سیاسی ، مذہبی اور نظریاتی فرقہ پرستی؟ ایک دوسرے کو تباہ کرنے کی خواہش؟ ادنیٰ خواہشات کی پیروی میں غلبے کی تمنّا؟ تعجب ہوتاہے کہ کتنے کم لوگ ملک کے بارے میں سوچتے ہیں ۔کتنے بے شمار ہیں جو اپنی پارٹیوں اور گروہوں کی فضیلت پہ اصرار کرتے ہیں۔مزاجوں میں اس قدر ہیجان کیا صدیوں سے چلی آتی ملوکیت اور جاگیردارانہ مزاج کا ثمر ہے یا مفتوحین کی سرزمین میں احساسِ کمتری کا نتیجہ ؟ ہر جماعت اپنے فضائل بیان کرتی ہے اور کمال ڈھٹائی کے ساتھ۔ کہا جاتاہے کہ نواز شریف ایک عظیم وژنری ہیں ۔بیرونِ ملک سے سرمایہ کاری کی التجا کرنے والوں کا اپنا کاروبار لندن میں واقع ہے ۔ جن کے بھائی بھتیجے اقتدار میں شریک ہیں اور ہر اس کاروبار پہ ہاتھ صاف کرنے کے لیے آمادہ ، جس پہ کر سکیں ۔ بحث بر پا ہے کہ پیپلز پارٹی اپنی پسند کا پولیس افسر چاہتی ہے تاکہ چھ ارب روپے کی مبیّنہ خریداری میں گھپلا کر سکے ۔ کوئی آواز نہیں اٹھتی کہ اس عمل کو شفاف بنایا جائے۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی میں کوئی ایک بھی نہیں ، جو اپنے لیڈروں کو ٹوک سکے ؟
درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والی تعلیم یافتہ لوگوں کی جماعت ایم کیو ایم ہے۔ کیا کوئی جواں مرد ہے، جو الطاف حسین سے اختلاف کی جسارت کر ے ؟ سب جانتے ہیں کہ اے این پی
نے اقتدار کے ہنگام بے پناہ مالی بے قاعدگیوں کا ارتکاب کیا۔ کوئی ایک لیڈر مستعفی ہو گیا ہوتا۔ عبد الغفار خان کے بعد عبد الولی خان اور ان کے بعد اسفند یار ولی ، جن پہ کرپشن کے سنگین الزامات خودان کے خاندان نے عائد کیے ۔ خود کش حملے کی کوشش ہوئی تو اے این پی کا خان ملک سے فرار ہو گیا۔ الزام لگا کہ دبئی اور ملائیشیا میں اس کی سرمایہ کاری ہے ، وہ خاموش رہا۔ وہ شجاعت کیا ہوئی ، ایک صدی سے جس کاچرچا تھا؟ وہ حمیت کہاں گئی، جس کا علَم عشروں سے بلند ہے ؟ نفاذِ اسلام کے علمبردار حضرت مولانا فضل الرحمن کا حال اوربھی پتلا ہے ۔ حافظ حسین احمد سمیت چند ایک نے اختلاف کی جسارت کی تو راندۂ درگاہ ہوئے۔ خاندا ن کے سبھی مقتدر۔ بلوچستان میں بعض نے اصولوں پہ اصرار کیا تو دھتکار دیے گئے ۔ کیا حضرت مولانا قاسم نانا توی ، شیخ محمود الحسن ، مولانا انور شاہ کاشمیری اور مولانا حسین احمد کا ورثہ یہی تھا؟ ڈیزل والاوہ قصہ چھڑا تو پارٹی کی مجلسِ عاملہ کے ایک رکن نے مجھے بتایا: ان کا ارشاد یہ کہ میں نے یہ روپیہ مجاہدین کو دے دیا تھا۔ کوئی حکومت نہیں ، مولانا فضل الرحمن اور ان کے ساتھیوں نے جس سے فیض نہ پایا ہو ۔ پشتو کی ضرب المثل یہ ہے : ملّا کے کہے پہ عمل کرو لیکن جو وہ خود کرتا ہے ، اس کی پیروی ہرگز نہیں۔
بدترین مثال حضرت مولانا ڈاکٹر علّامہ طاہر القادری ہیں ۔ کیا یہ تماشا کبھی ہوا ہوگا کہ ہزاروں مرید ہڈیوں کا گودا جمادینے والی ٹھنڈ میں پڑے ہوں ۔166بچوں کو نمونیا ہو جائے اور ان کا شیخ ائیر کنڈیشنڈ کنٹینر میں آسودہ رہے؟ اس پر بھی انقلاب کا دعویٰ ؟
تاریخ ساز فتوحات اور کامرانیوں کے رہنما مختلف ہوتے ہیں۔ اپنی خود نوشت میں ظہیر الدین بابر نے بدخشاں سے کابل کے ایک سفر کا حال رقم کیا ہے ۔ برف گرنے لگی اور گرتی رہی ۔ بادشاہ کے بقول پلکوں پہ سفیدی جمنے لگی۔ مسافت اس قدر کٹھن کہ برف کھود کھود کر آگے بڑھنا ہوتا۔ اتنے میں کوئی خبر لایا کہ قریب ہی ایک غار ہے ، درجنوں جس میں سما سکتے ہیں ۔سلطان سے کہا گیا کہ وہ اس میں پناہ لیں ۔ اس نے انکار کر دیا او رفارسی کی ضرب المثل یاد کی : ہمہ یاراں دوزخ ، ہمہ یاراں بہشت۔ حتیٰ کہ دوسری خبر آئی ۔ غار بہت کشادہ ہے اور سبھی اس میں سما سکتے ہیں۔
کس بنا پر علّامہ صاحب انقلاب کے مدعی ہیں ۔ کوئی پروگرام نہ پیغام۔ ملک گیر مقبولیت ، نہ کوئی منصوبہ۔ بے قابو خواہش، وحشت میں ڈھل کر جس نے بے لگام کر دیا ۔پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں پہ ظلم ہوا اور بے پناہ ظلم ۔ وزیرِ اعلیٰ خودداری کا مظاہرہ فرما سکتے تو استعفیٰ دیتے ۔ اس کا مطلب مگر یہ نہیں کہ چند لاکھ مریدوں کے ساتھ ڈاکٹر طاہر القادری نظام کی بساط ہی لپیٹ دیں۔ لپیٹ نہیں سکتے ۔ حکمرانوں کو زچ کرسکتے ہیں ۔ افراتفری پھیلا سکتے ہیں۔ وکیل، اخبار نویس، دانشور، مزدور انجمنیں، اساتذہ، طلبہ ، سول سوسائٹی اور فعال طبقات میں سے کوئی ان کا حامی نہیں ۔ شیخ رشید البتہ ہیں اور سب جانتے ہیں کہ ان کی تمام تر تگ و دو اپنی ہی ذاتِ گرامی کے لیے ہوتی ہے ۔
چوہدریوں پہ تعجب ہوتاہے ۔ ان کی توہین کی گئی لیکن اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ علامہ صاحب انقلاب برپا کر سکتے ہیں تو ان سے ہمدردی کا اظہار ہی ممکن ہے ۔ کسی اور سے نہیں ، ہمدمِ دیرینہ سیّد مشاہد حسین ہی سے پوچھ لیں ۔ مجوّزہ انقلاب اگر طلو ع ہو جائے؟ اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کو کیا ان کی بیعت کرنا ہوگی ؟ ان ایک ہزار کتابوں پہ ایمان لانا ہوگا، جن میں سے اکثر معاوضے پر لکھوائی گئیں ؟یا رب ! کیسے وہ شخص برکت پائے گا ، جس نے برملااو ربارہا رسولِ اکرمؐ کے اسمِ گرامی کو سیاست چمکانے اور چندہ بٹور نے کے لیے استعمال کیا ؟
رحیم یار خان میں تحریکِ انصاف کے کارکنوں میں تصادم۔ پھر سے وہ تضاد نمایاں ہوا ، کپتان جسے نظر انداز کرنے پر تلا ہے۔ شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی کے معمار کا اندازِ فکر یہ ہے کہ تمام کامیابیوں کی بنیاد مہم جوئی پہ ہوتی ہے ۔ جی نہیں ، بالکل نہیں ۔ زمینی حقائق کے ادراک ، سائنٹیفک تجزیے ، موزوں حکمتِ عملی ، ریاضت اور مستقل مزاجی سے ۔ بلند مقاصد کے لیے ایک جمہوری جماعت کی تشکیل، کارکنوں کی تربیت۔ ملک کو درپیش مسائل ، دہشت گردی ، امن و امان ، سول سروس کی تباہی ، صحتِ عامہ اور تعلیمی اداروں میں خرابی کے علاوہ ٹیکس وصولی کے لیے لائحۂ عمل۔ سب سے بڑھ کر ایک منظم ، شائستہ اور جمہوری پارٹی ، جو اقتدار پا کر ایک قومی اتفاقِ رائے تشکیل دے سکے۔
ناکامی برباد کرتی ہے اور نہ معاشی تباہی ۔ جرمنی ، جاپان اور کوریا دوسری عالمگیر جنگ کے ملبے سے اٹھے اور سرخرو ہوئے۔ چین اور روس نے سوشلزم کے فولادی خول سے نجات پائی تو اقتصادی نمو کے سفر پہ روانہ ہوئے ۔ ملائیشیا ، اور ترکی نے آزادی میں ڈسپلن اور ڈسپلن میں آزادی سے خوشحالی کا سفر طے کیا۔ ترکوں نے عسکری شکنجے سے نجات پائی تو خدمتِ خلق کے طفیل پائی ، شعبدے بازی سے نہیں ۔ پہاڑ سی مشکلات ان کی راہ میں حائل تھیں ۔
اوّل تو یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ عمران خان اور طاہر القادری حالتِ جنگ میں حکومت اکھاڑ پھینکیں ، جب کہ معاشی بحالی کا ایک ذراسا امکان بھی عیاں ہے ۔ کر بھی گزریں تو حاصل کیا؟ خود وہ مستحکم اور مضبوط حکومت بنا نہیں سکتے۔ پھر نون لیگ کے حامی بپھر جائیں گے۔ معاشرہ فساد اور خانہ جنگی کا شکار ہوگا۔ اللہ کرے ، میرا اندازہ غلط ہو مگر میں ناکامی دیکھتا ہوں، دیوار پہ لکھی ہوئی ناکامی ۔
نظامِ زر و ظلم کی تخریب ہی نہیں بلکہ اپنے وطن اور معاشرے کی تعمیر سچے لیڈروں اور مخلص جماعتوں کی ترجیح ِ اوّل ہوا کرتی ہے ۔ اس کا اہتمام کیا ہے ؟ جنابِ والا! اس کی ضمانت کیا ہے؟