آج کے لبرل اور روادار برطانوی معاشرے میں کسی پر بھی نسل پرستی اور انتہاپسندی کا الزام اس کا کیریئر تباہ کرسکتا ہے۔ ان الزامات کے بعد وہ شخص شاید ہی پبلک سروس میں آگے بڑھ سکے۔ سیاسی آزادی کے اس ماحول میں اکثر مقامی باشندے تارکین وطن کی مقامی کلچر اور روایت کے منافی سرگرمیوں پر بات نہ کرنا ہی بہتر سمجھتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو اُنہیں نسل پرست سمجھا جائے۔ اس لیے جب برمنگھم شہر کی کونسل کوایسی رپورٹس ملنا شروع ہوئیںکہ کئی ایک سرکاری تعلیمی اداروں پر انتہا پسند عناصر غلبہ پاتے جارہے ہیں تو اس نے ان رپورٹس کو اس لیے نظر انداز کردیا کہ اُس پر کسی قسم کا الزام نہ لگے اور شہر میں رہنے والے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد تنائو محسوس نہ کرے۔ اس سے شہر کی مذہبی اور سماجی ہم آہنگی متاثر ہونے کا بھی خدشہ تھا کیونکہ انگلینڈ کے اس حصے میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مقیم ہے۔
تاہم جب گزشتہ سال ٹروجن ہارس نامی خط نے پہلا پتھر پھینکا تو حکومت کو کارروائی کرنا پڑی۔ سابق سیکرٹری تعلیم مائیکل گوو نے Ofsted (سکول ریگولیٹر) اور انسداد ِ دہشت گردی کے ماہر ایک سابق پولیس افسر پیٹر کلارک کو انکوائری کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ اس دوران برمنگھم سٹی کونسل کی طر ف سے آئن کرشا(Ian Kershaw) نے بھی انکوائری کی۔ جس دوران انکوائریوں کا یہ عمل جاری تھا، میڈیا میں ظن و تخمین (اندازہ لگانا) شروع ہوگئی۔ بہت سے مسلمان سکول گورنرز نے احتجاج کیا کہ ان انکوائریوں کی آڑ میں ان پر دبائو ڈالا جارہا ہے۔ اُنھوں نے اس کارروائی کو کنزرویٹو پارٹی کی مخلوط حکومت کی طر ف سے مسلم مخالف مہم کا حصہ قرار دیا۔ Ofsted کی رپورٹ نے تعلیم اور انتظامی معاملات کا جائزہ لیتے ہوئے کچھ سکولوں کو کلیئر قرار دیا جبکہ کچھ سکولوںکے لیے کچھ ''خصوصی اقدامات ‘‘تجویز کیے۔ تاہم کلارک رپورٹ کے تیور سخت تھے۔اس نے سکول گورنرز پر الزام لگایا کہ وہ ان پرنسپل اور اساتذہ کو دھمکیاں دیتے ہیں جو ان کے ساتھ تعاون نہیںکرتے۔ کئی ایک کو ملازمت چھوڑ جانے پر بھی مجبور کیا گیا۔ زبان کے انتخاب کو صرف دو زبانوں تک محدود کردیا گیااور سیکولرازم اور نظریہ ٔ ارتقا کی جگہ Creationism (کائنات کی تخلیق کا مذہبی تصور)کو بطور سائنس پڑھایا جارہاتھا۔ اس کے علاوہ ان تعلیمی اداروں میں ایسے طلبہ بھی تھے جن کو انتظامیہ کی طرف سے یہ فرائض سونپے گئے تھے کہ وہ نظر رکھیں کہ کن اساتذہ اور دیگر طلبہ کارویہ مذہبی اصولوں کے مطابق نہیں ۔ ان اداروں میں نسل پرستی کی فضا بھی پائی گئی کیونکہ وہاں سفید فام طلبہ خود کو گھٹن زدہ ماحول میں پاتے تھے۔
کلارک نے گورنرز پر الزام لگایا کہ وہ تعلیمی سرگرمیوں کی آڑ میں ایک ایسا جارحانہ اور سماج مخالف رویہ پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو ایک لبرل اور سیکولر جمہوریت کے لیے قابلِ قبول نہیں۔مختلف انٹرویوز لینے، سوشل میڈیا پر تاثرات ریکارڈ کرنے اور اساتذہ اور طلبہ سے ای میل کے تبادلے کے بعد مسٹر کلارک رپورٹ میں لکھتے ہیں۔۔۔''ایسا لگتا ہے کہ سیکولر تعلیمی اداروں کو جان بوجھ کر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دینی ادارے بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ طلبہ کو ذہنی طور پر اس با ت کے لیے تیار کیا جارہاہے کہ اُنہیں مذہب کے بارے میں جو کچھ بھی بتایا جائے، وہ اسے حرف ِ آخر سمجھتے ہوئے مان لیں۔ اس طرز ِتعلیم سے خدشہ ہے کہ یہ بچے مستقبل میں انتہا پسندی کی طرف مائل ہوجائیںگے۔‘‘
ہم پاکستانیوں کے لیے اس معاملے میںکوئی نئی بات نہیں۔ ہمارے ہاں کئی عشروںسے سکول کے بچوں کی برین واشنگ کررہے ہیں اور اس کا نتیجہ عدم برداشت اور بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کی صورت میں آج ہمارے سامنے ہے۔ آج ہماری سماجی زندگی ایسے رویوں سے گھٹن اور خوف کا شکار ہے ، لیکن ہم اسے معمول کی صورت ِ حال سمجھ کر گوارا کرلیتے ہیں، تاہم برطانیہ جیسے مہذب ملک میں یہ ناقابلِ قبول ہے۔ اس لیے امکان ہے کہ عوامی حلقوںکی طرف سے ان سکولوںکی کڑی نگرانی کیے جانے کا مطالبہ سامنے آئے گا۔ پہلے ہی یہاں گاہے بگاہے یہ بحث چھڑ جاتی ہے کہ مسلمان تارکین وطن برطانیہ میں آکر یہاںکے معاشرے سے گریزاں رہتے ہیں۔ اس حوالے سے پھیلنے والے منفی تصورات اُس وقت زیادہ شدت سے سراٹھاتے دکھائی دیتے ہیں جب اہل ِ برطانیہ کو اپنے درمیان مختلف قسم کے لوگ دکھائی دیتے ہیں۔ اگرچہ برطانیہ میں برداشت کا لیول بہت زیادہ ہے اورایسے منفی تاثرات کا برملا اظہار نہیں کیا جاتا، لیکن کلارک رپورٹ سلگتی ہوئی چنگاری کو ہوا دے گی اور خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں کچھ اقدامات بھی دیکھنے کو ملیں گے۔
اگرچہ کلارک نے یہ نہیںکہا کہ اُسے کوئی ایسے ثبوت ملے ہیں کہ یہاں جہادی رویوںکی تعلیم دی جارہی تھی، لیکن اس کی رپورٹ کا یہ پیراگراف یقینا تشویش ناک ہے۔۔۔''اس تحقیق کے نتیجے میںیہ بات سامنے آئی کہ ایک مختلف نظریے کو لازمی قرار دیا جارہا ہے۔لڑکوں کے درمیان ہونے والی بحث سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ہم جنس پرستی، برطانوی قانون نافذ کرنے والے اداروں، لی رگبی(ایک برطانوی فوجی جسے گزشتہ سال دن دیہاڑے بہت سفاکی سے قتل کردیا گیا) کے قتل، بوسٹن بم دھماکوں اور برطانوی سماج کے بارے میں نہایت منفی رائے رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ اور اسرائیل کے خلاف بھی جذبات کو پروان چڑھایا جارہا ہے۔ ‘‘
کلارک اور کرشا کی رپورٹس سے ایک بات سامنے آتی ہے کہ ان سکولوں پر نظر رکھنے میں برمنگھم سٹی کونسل مکمل طور پر ناکام ہوگئی حالانکہ اس کے پاس کچھ شکایات درج بھی کرائی گئی تھیں۔ اس لیے سکولوں کے گورنرز نے آزادی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سکولوں کو اپنی مرضی سے اپنے ایجنڈے کے مطابق چلایا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ کابینہ میںہونے والے اہم ردو بدل کی وجہ سے مائیکل گوو کو تبدیل کردیا گیا۔ ان کے جانے کی وجہ سے اساتذہ نے بھی خوشی منائی ہوگی کیونکہ مسٹر گوو تعلیمی اصلاحات لاتے ہوئے معیار تعلیم بڑھانے کے لیے اساتذہ پر دبائو ڈال رہے تھے۔
کئی عشروں سے اہل ِ برطانیہ نے تارکین ِوطن کی زبان، ثقافت اور رسم ورواج کو برداشت کیاکیونکہ سیاسی اور معاشی مسائل کی وجہ سے اپنے ممالک چھوڑ کر آنے والے ان افراد نے برطانیہ کی معیشت کو ترقی دینے میں اہم کردار اداکیا۔ تاہم آج کل بڑھتی ہوئی کساد بازاری اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیروزگاری کی وجہ سے مقامی افراد کے لیے تارکین وطن کا ان کی جگہ پر ملازمت کرتے دیکھنا بہت خوشگوارتجربہ نہیں۔ بدتر یہ کہ تارکین ِوطن کا ایک طبقہ اپنے بچوں کو اسی ملک، اس کی ثقافت اور سماج سے نفرت کرنا سکھائے۔ یہ بات تو کسی بھی ملک کے لیے قابل ِ قبول نہیںہوسکتی۔