تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     21-07-2014

وزارت بجلی و پانی اور بارش کی دعا

گزشتہ پندرہ ماہ میں حکومت کی‘ میرا مطلب ہے وزیراعظم میاں نوازشریف کی کارکردگی کیسی رہی ہے؟ اگر سوال مجھ سے کیا جائے تو میں بلاتوقف کہوں گا کہ بُری۔ بلکہ بہت بُری۔ میرے اس جواب پر ممکن ہے کچھ لوگوں کو اعتراض ہو مگر یہ وہ لوگ ہیں جنہیں میاں نوازشریف سے عشق ہے اور میاں نوازشریف ان کے محبوب ہیں۔ بقول اشفاق احمد ''محبوب وہ ہوتا ہے جس کی بُری بات بھی اچھی لگے‘‘۔ میاں نوازشریف ایسے لوگوں کے اشفاق احمد صاحب والے محبوب ہیں۔ 
اگر لوگوں کی میاں نوازشریف سے توقعات اتنی زیادہ نہ ہوتیں تو شاید یہ پندرہ ماہ بہت ہی بُرے نہ ہوتے۔ میاں نوازشریف کے نام پر شیر پر ٹھپہ لگانے والوں نے عمران خان کا ''تبدیلی‘‘ کا نعرہ صرف اور صرف میاں نوازشریف سے وابستہ توقعات کی بنا پر رد کرتے ہوئے ن لیگ کو خلاف توقع کامیابی سے نوازا۔ تمام تر تجزیہ نگار (اب وہ خواہ کچھ بھی کہیں) سوائے تنخواہ داروں کے‘ یہی کہہ رہے تھے کہ آئندہ پارلیمنٹ معلق یعنی ''ہنگ پارلیمنٹ‘‘ ہوگی لیکن گزشتہ حکومت یعنی پیپلز پارٹی کی حکومت سے موازنہ کرتے ہوئے عوام نے میاں نوازشریف کی گزشتہ اور گزشتہ سے بھی گزشتہ حکومتوں کے بارے میں قائم خوش فہمیوں کی بنیاد پر فیصلہ کیا کہ انہیں فی الوقت تبدیلی کی نہیں ترقی کی ضرورت ہے۔ کرپشن سے نجات کی نہیں بلکہ بجلی کی ضرورت ہے اور دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ اور ڈرون حملوں کے خاتمے سے زیادہ معاشی نمو اور روزگار میں بہتری درکار ہے۔ سو انہوں نے تیسری بار نوازشریف کو وزیراعظم بنا دیا۔ 
بجلی شاید اس وقت ملک اور عوام دونوں کے لیے ترجیح نمبر ایک ہے اور حکومت کی بھاگ دوڑ اور پھرتیوں کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ اس کی پہلی ترجیح بھی شاید یہی ہے مگر یہ ایک غلط فہمی سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لیے تو جو اقدامات کرنے تھے وہ بالکل الگ ہیں فی الوقت فوری طور پر اس سارے نظام کو درست کردیا جاتا اور موجودہ بجلی کی پیداوار کو ہی طریقے سے استعمال کر لیا جاتا تو حالات میں کچھ نہ کچھ بہتری آ سکتی تھی مگر سیکرٹری پانی و بجلی نے اس کا ایک حل نکالا ہے اور وہ ہے وڈیولنک کانفرنس۔ روزانہ کی بنیاد پر۔ صبح دس گیارہ بجے سے لے کر دوپہر تک۔ اس دوران جن افسروں نے انتظامی معاملات چلانے تھے‘ عوام کی تکالیف رفع کرنی تھیں‘ سسٹم کی خرابیوں کو دیکھنا تھا‘ وہ چار پانچ گھنٹے ایک کانفرنس روم میں ڈانٹ ڈپٹ سنتے ہیں‘ بے عزتی کرواتے ہیں‘ ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دیتے ہیں اور زیر لب کوسنے دیتے ہیں۔ اس دوران عوام کو رتی برابر فائدہ نہیں 
ہوتا۔ سائل ان کے دفتروں کے باہر کھڑے انہیں بددعائیں دیتے ہیں اور اس کے علاوہ اب تک حاصل وصول صفر بٹا صفر ہے۔ 
میرے کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ موجودہ حالات برے تو ہیں مگر اتنے برے نہیں جتنا ہم بیان کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ ڈالر کی قیمت میں کمی‘ ترقی کی نمو میں اضافہ‘ موڈیز کی ریٹنگ میں بہتری اور اسی قسم کی اور بھی بہتریاں گنواتے ہیں مگر یہ سب ایسی چیزیں ہیں جو معاشیات یعنی اکنامکس کی زبان میں تو خوبصورت لگتی ہیں مگر ان کا عام آدمی کو درکار آسانیوں سے‘ عوام کی فوری ضرورتوں سے اور انہیں لاحق مشکلات کے حل سے‘ کوئی تعلق نہیں ہے۔ رہ گئی بات یہ کہ شاید موجودہ حالات اتنے برے نہیں ہیں جتنے بتائے جا رہے ہیں تو اس کے لیے صرف اتنا عرض ہے کہ جب توقعات بہت بلند ہوں تو ردعمل بھی اتنا ہی شدید ہوتا ہے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ حالات واقعتاً اتنے خراب نہیں ہوتے مگر آپ کی بلند توقعات کی بنا پر بہت ہی خراب لگتے ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی معاملہ ہے جیسے آپ کسی ملتانی کو جولائی کی شدید گرمی میں سہانے موسم کے خواب دکھائیں اور اسے اڑتالیس ڈگری سنٹی گریڈ سے چھبیس ستائیس ڈگری سینٹی گریڈ کے شاندار درجہ حرارت پر گرمیاں گزارنے کے لیے مری لے جائیں اور وہاں درجہ حرارت خواہ پینتالیس ہی کیوں نہ ہو وہ آپ کو جی بھر کر گالیاں دے گا اور کہے گا کہ وہ ملتان میں اس سے بہتر تھا اور ز یادہ خوش تھا کہ کم از کم اسے انوررٹول تو دستیاب تھا۔ ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا ہے۔ زرداری صاحب کے بعد لوگ کسی بہت بڑی بہتری کی توقع رکھتے تھے۔ توقعات کا برباد ہونا بذات خود ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ قوم باقی خرابیوں کے ساتھ ساتھ اس المیے سے بھی گزر رہی ہے۔ 
گزشتہ دنوں وزیر پانی و بجلی نے فرمایا کہ ''بجلی کی کمی پوری نہیں ہو سکتی۔ میں قوم سے معافی مانگتا ہوں۔ قوم بارش کے لیے دعا کرے‘‘۔ اس پر مجھے ایک واقعہ یاد آیا۔ ایک سیٹھ کے بیٹے سے ایک قتل ہو گیا۔ مدعی تگڑے تھے‘ پیسہ وافر تھا‘ گواہ موجود تھے اور مقدمہ بہت مضبوط تھا۔ سیٹھ ایک وکیل کے پاس گیا اور اسے اپنے بیٹے کا مقدمہ لڑنے کے لیے کہا۔ وکیل ایماندار تھا اور پیشہ ورانہ اخلاقیات پر یقین رکھتا تھا۔ اس نے سارا کیس دیکھا تو اسے اندازہ ہوا کہ لڑکے کا بچنا مشکل ہے۔ اس نے سیٹھ صاحب کو کہا کہ وہ اس کیس کی فیس ایک لاکھ روپے لے گا۔ سیٹھ صاحب جو وکیل کا بڑا نام سن کر آئے تھے‘ اتنی کم فیس سن کر مایوس سے ہو گئے اور ایک دوسرا وکیل کر لیا۔ اس وکیل نے سیٹھ صاحب سے بیس لاکھ روپے فیس وصول کی۔ مقدمہ چلا‘ گواہیاں ہوئیں۔ سیشن کورٹ سے ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ۔ سب جگہ لڑکے کی موت کی سزا برقرار رہی۔ اس دوران سیٹھ صاحب کی اپیلوں وغیرہ پر ملا کر ایک کروڑ خرچ ہو گئے اور لڑکے کو پھانسی ہو گئی۔ چند سال بعد اسی وکیل کی سیٹھ صاحب سے ملاقات ہوئی اور مقدمے کا پوچھا۔ سیٹھ صاحب نے دکھی دل سے بتایا کہ لڑکے کو پھانسی ہو گئی تھی۔ وکلیل نے فیس کا پوچھا۔ سیٹھ صاحب نے بتایا کہ کروڑ روپے سے زیادہ لگ گیا تھا۔ وکیل کہنے لگا میں نے آپ کا یہی کام ایک لاکھ روپے میں کروانا تھا جو آپ نے ایک کروڑ سے زیادہ لگا کر کروایا ہے۔ 
جناب خواجہ آصف نے قوم کو جو کام پندرہ ماہ میں بتایا ہے قوم کو اگر پتہ ہوتا کہ آخر اس کا حل بارش کی دعائیں ہیں تو قوم اپنے گزشتہ پانچ چھ سال ضائع نہ کرتی۔ وہ یہ کام پانچ چھ سال پہلے کر لیتی جو اب اس کے ذمے لگایا گیا ہے۔ ویسے اگر یہ کام قوم نے دعائوں سے ہی کروانا ہے تو پوری وزارت پانی و بجلی کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved