تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     21-07-2014

اسلوبِ حکمرانی میں جوہری تبدیلی کی ضرورت

کالم میںانقلابیوں کا ذکر ہوا تو ایک دوست نے گِلہ کیا: ''تم نے ایک انقلابی کو بھُلا دیا۔وہی حبیب جالب والے ؎ 
ایسے دستور کو، صبحِ بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا‘‘
اشارہ ظاہر ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف کی طرف تھا۔انقلاب اور سرمایہ دار... ان دونوںمیں تطبیق تو بڑے سے بڑا ماہر ِ سیاسیات پیدا نہیں کر سکتا،میں کیسے کر سکتا ہوں؟حبیب جالب جیسے لوگوں نے جو انقلابی گیت لکھے،وہ اب انتخابی گیت بن گئے ہیں۔انقلاب چو نکہ اب ایک متروک تصور ہے، اس لیے اس شاعری کو زندہ رکھنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اسے مو جود ہ حالات سے ہم آہنگ کر دیاجائے۔شہباز شریف صاحب نے یہی اطلاقی خدمت سر انجام دی ہے۔رائے ونڈ محلات کے آ سودہ حال مکینوں کا انقلاب سے کیا تعلق؟ان کو پرکھنے کا پیمانہ ان کی گور ننس ہے۔
میں پنجاب میں رہتا ہوں، اس لیے شہباز شریف صاحب کی گورننس سے براہ راست متاثر ہو تا ہوں۔میں اگر کچھ کہوں گا تو یہ جگ بیتی نہیں، آپ بیتی ہوگی۔پس منظر میں میرے مشاہدات ہوں گے، تجربات ہوں گے، محض میڈیا کی اطلاعات نہیں ۔میرا تاثر یہ ہے کہ شہباز شریف صاحب کے تصورِ حکومت میں نئے میگا پراجیکٹس کو ترجیح حاصل ہے، موجود نظام کی اصلاح کو نہیں۔جب میں ترجیح کی بات کرتا ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اس کو مطلق اہمیت نہیں دیتے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ نظام کی اصلاح کو پہلی ترجیح ہو نا چاہیے ۔ میں اپنی بات کو ایک مثال سے واضح کرتا ہوں۔ صوبے میں ٹریفک کے مسائل ہیں۔اس کا بڑا سبب مو جود نظام کی خرابی ہے۔راولپنڈی کی مری روڈ پر بے شمار تجا وزات ہیں۔کئی نئے تجارتی مراکز تعمیر ہوئے ہیں جن کے ساتھ کوئی خاطر خواہ پارکنگ نہیں۔ایسا قانون مو جود نہیں ہے کہ کون سی دکان کہاں بن سکتی ہے۔ایک موڑ ہے جس پر ٹائروں کی دکانیں کھلی ہیں۔ گاڑیاں پنکچر لگوانے کے لیے وہاں کھڑی ہیں۔ لازم ہے کہ اس سے ٹریفک میں خلل پڑے۔ شہر میں مو جود کم و بیش ہر دکان فٹ پاتھ تک پھیلی ہو ئی ہے اور دکان دار کو کوئی رو کنے والا نہیں۔ بلا مبالغہ فٹ پاتھ پر اگر زیادہ نہیں تو دکان جتنا مال پڑا ہے۔مزید یہ کہ اس کے آگے ریڑھی بھی کھڑی ہے۔اب ظاہر ہے کہ اس کے بعد کسی گاڑی کے لیے جتنی گزر گاہ بچے گی، اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔میرا احساس ہے کہ اگر اس موجود نظام کی اصلاح ہو جا ئے توٹریفک کے بہت سے مسائل حل ہو جا ئیں۔
اب اس مسئلے کو حل کر نے کے لیے، شہباز شریف صاحب کی ترجیح کیا ہے؟ میٹرو بس کا بیالیس ارب کا منصوبہ۔اس کی افادیت کے بارے میں دو آرا نہیں ہیں۔ لیکن سادہ سا سوال یہ ہے کہ اگر چندکروڑ خرچ کر کے،ٹریفک کے اس نظام میں بہتری لا ئی جا سکتی ہے تو اس نظام کی اصلاح کو کیوں ترجیح نہیں بنا یا جا سکا؟اگر موٹر وے کو ایک بہتر پولیس دی جا سکتی ہے تو پنجاب ٹریفک پولیس کو کیوں بہتر نہیں کیا جا سکتا؟عوامی نمائندوں کی مدد سے دکان داروں کو تجاوزات ختم کرنے پر کیوں آمادہ نہیں کیا جا سکتا؟متبادل کی تلاش بھی بعض اوقات ضروری ہوتی ہے لیکن زندگی صرف اس اصول پر نہیں گزاری جا سکتی۔اس کی ایک حد ہے اور اس کے بعد آدمی کو کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ شہباز شریف صاحب مو جود نظام کی اصلاح کو اپنی پہلی ترجیح بنا ئیں، اس کے بعد اگر کہیں متبادل نا گزیر ہے تو اس کے راستے بھی بند نہیں ہیں۔
میرے نزدیک بنیادی مسئلہ یہی ہے:ترجیحات کا تعین۔شہر کی صفائی کے لیے، جیسے بلدیہ کا ایک نظام موجود ہے۔ میرے محلے کی نالیاں صاف کرنے والا کئی کئی دن نہیں آتا۔اگروہ اپنا کام ذمہ داری سے کر تارہے تو محلہ نسبتاً زیادہ صاف ہو۔اب اس نظام کو بہتر بنانے کے بجائے، معلوم ہوا کہ شہروں کی صفائی کا ٹھیکہ ترکی کی ایک کمپنی کو دیا جا رہا ہے۔یہ نظام اپنی جگہ مو جود رہے گا۔لوگ تنخواہیں لیتے رہیں گے اور ان کا کام اب ایک نئے منصوبے کے تحت ہو گا جس میں ظاہر ہے کہ کروڑوں روپے خرچ ہو ں گے۔یہ عقلِ عام کا سوال ہے کہ پاکستان جیسا ایک ترقی پذیر ملک،اس اندازِ حکومت کا کیسے متحمل ہو سکتا ہے؟پاکستان کی ضرورت ایسا تصورِ حکومت ہے جس میں وسائل کو دیکھتے ہوئے، اصلاحِ احوال کا ایسا نظام وضع کیا جائے کہ کم سے کم وسائل سے زیادہ مسائل حل ہوں۔بلٹ ٹرین کیا شاندار تصور ہے۔لیکن موجودہ ریلوے نظام کی اصلاح کو ایک طرف رکھتے ہوئے، اگرمرکزی حکومت اسے ترجیح بنا ئے گی تو یہ قائدانہ بصیرت کا قابلِ تعریف مظہر نہیں ہو گا۔یہ ایسے ہی ہے کہ ایک محلے میں تندور نہ ہو اور کیک بنانے کی فیکٹری لگا دی جا ئے۔لوگوں کو آج رات روٹی چاہیے اور آپ انہیں بتائیں کہ چند دن بعد انہیں کھانے کو کیک ملے گا۔
گورننس کے کچھ اور مسائل بھی مدت سے موجود ہیں۔مثال کے طور پر اداروں کے مابین کوئی اشتراکِ عمل نہیں۔راولپنڈی میں جب میٹرو بس کے لیے مری روڈ کی اکھاڑ پچھاڑ ہوئی تو متبادل سڑکوں پر ٹریفک کا دباؤ بڑھ گیا۔ اب ہو نا یہ چاہیے تھا کہ انہیں زیا دہ رواں رکھا جاتا۔ لیکن عملاً کیا ہوا؟جون کا آغاز ہوا تو پتا چلا کہ مختلف اداروں نے ترقیاتی منصوبوں پر بجٹ میں مختص رقم خرچ نہیں کی۔اب انہیں جلدی تھی کہ 30 جون سے پہلے اس رقم کو خرچ ہو نا ہے۔ یوں ان متبادل راستوں کو کھود ڈالا گیا جن پرمری روڈ بند ہونے کے باعث، ٹریفک کا زیادہ انحصار تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ بد انتظامی کی ایک مثال ہے۔میرے محلے میں نئی سڑ ک کو تعمیر ہوئے، بمشکل ایک ہفتہ گزرا ہو گا کہ کل کسی دوسرے ادارے نے اسے کھود ڈالا۔سوال یہ ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا یہ گورننس کا مسئلہ نہیں ہے؟
سٹریٹ کرائم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ کل ہی طاہر سرور میر نے لکھا ہے کہ ان کی گاڑی چوری ہوگئی۔میری گاڑی کو چوری ہوئے دوسال ہو نے کو ہیں اور اس کی کوئی خبر نہیں۔اخبار جرائم کی خبروں سے بھرے ہیں۔پولیس کہاں ہے اور حکومت کا وجود کیوں ثابت نہیں؟اس تجزیے کی بنا پرمیرا احساس ہے کہ جناب شہباز شریف صاحب کو اپنے اسلوبِ حکمرانی میں جوہری تبدیلی کی ضرورت ہے۔ چند دن پہلے مجھے ایلیٹ فورس کے ایک نو جوان کا ایس ایم ایس ملا۔اس نے مجھ سے فقہ کا ایک مسئلہ پو چھا ہے، میرا خیال ہے یہ فقہ کا نہیں، گورننس کا مسئلہ ہے ۔اس کا مخاطب میں نہیں، شہباز شریف صاحب ہیں۔میں یہ پیغام یہاں نقل کررہا ہوں، آپ فیصلہ کیجیے کہ یہ گورننس کا مسئلہ ہے یا فقہ کا:'میں ایلیٹ پولیس فورس میں کمانڈو ہوں۔ گجرات سے ایک ماہ کے لیے ماڈل ٹاؤن چیف منسٹر کی ریذیڈنس پہ ڈیوٹی آیا ہوا ہوں۔کسی دن آٹھ اور کسی دن بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی ہو تی ہے جو کہ بہت سخت ہے۔پندرہ روزے رکھے ہیں‘ اب کمزوری محسوس کر تا ہوں۔ کیا میں روزے چھوڑ سکتا ہوں کہ بعد میں رکھ لوں ،میری عمر 28 سا ل ہے۔ اپنے قیمتی وقت کی قربانی دیتے ہوئے جواب ضرور دیں‘‘۔ آپ بھی اپنے قیمتی وقت کی قربانی دیتے ہوئے غور کیجیے کہ اس سوال کا اصل مخاطب کون ہے؟ایک عالم یا ایک حکمران؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved