تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     22-07-2014

پاک بھارت مذاکرات میں تاخیر کیوں؟

جب سے نریندر مودی نے بھارت میں حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ہے ،جنوبی ایشیا کے سیاسی افق پر علاقائی اور بین الاقوامی لیڈروں کی باہمی ملاقاتوں کے سلسلے میں اچانک تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس کا آغازتو نئے بھارتی وزیراعظم کی تقریب حلف برداری سے ہی ہوگیا تھا جب جنوبی ایشیا کی علاقائی تنظیم ''سارک‘‘ کے بیشتر سربراہان حکومت نے نریندر مودی کی دعوت پر اس میں شرکت کی تھی۔ حلف اٹھانے کے فوراً بعد وزیراعظم نریندر مودی نے بھوٹان کا دورہ کیا ،بعدازاں وزیر خارجہ سشما سوراج بنگلہ دیش کے سرکاری دورے پر گئیں، جہاں انہوں نے بنگلہ دیشی حکام کو یقین دلایا کہ بھارت ان کے ملک کے ساتھ سرحدی معاہدے اور دریائے ٹیسٹاکے بارے میں کیے گئے وعدے پورے کرے گا۔ اسی دوران مغربی ممالک سے بھی اعلیٰ حکام بھارت آئے جن میں فرانس کے وزیر خارجہ کا 30جون کا دورہ خصوصی طور پر قابل ذکر ہے کیونکہ دورے کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان12بلین ڈالر کے سودے پر بھی بات چیت ہوئی تھی۔ امریکی صدر بارک اوباما کی طرف سے بھی نریندر مودی کو دورہ کرنے کی باقاعدہ دعوت موصول ہوچکی ہے ۔یہ دورہ ستمبر میں متوقع ہے۔ برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ پر مشتمل تنظیم کے سربراہی اجلاس (ریوڈی جنیرو) میں نریندر مودی کی روسی صدرولادی میر پوٹن اور چینی وزیراعظم لی کوانگ سے بھی ملاقاتیں ہوچکی ہیں۔لیکن پاک بھارت تعلقات کے محاذ پر کوئی نئی اور نمایاں پیش رفت نظر نہیں آتی، حالانکہ تقریب حلف برداری کے موقع پر نریندر مودی کی طرف سے پاکستانی وزیراعظم محمد نوازشریف کو شرکت کی دعوت اور سربراہ حکومت کی شرکت سے امید بندھی تھی کہ دو طرفہ بات چیت کا سلسلہ ،جو تقریباً ایک سال سے تعطل کا شکار چلا آرہا تھا، پھر سے دوبارہ شروع ہوجائے گا اور اس سلسلے میں دونوں ملکوں کے خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقات کی جو تجویز رکھی گئی تھی اس پر جلد عمل درآمد ہوگا، لیکن اس کے ابھی کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ بھوٹان کے دارالحکومت تھمپو میں پاکستان کے وزیر تجارت خرم دستگیر اور ان کی بھارتی ہم منصب نرملاجی سیتارام کے درمیان 24جولائی کو ملاقات کی توقع ہے، لیکن اس ملاقات کا پاک بھارت امن مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ ملاقات ''سارک‘‘ کے تحت قائم ہونے والے '' سائوتھ ایشیا فری ٹریڈ ایریا‘‘ (Safta)کی وزارتی کونسل کے آٹھویں اجلاس کے موقع پر ہورہی ہے اور اس میں جنوبی ایشیا کے تمام ممالک کے تجارتی مسائل پر بات چیت ہوگی۔
جہاں تک پاک بھارت کمپوزٹ ڈائیلاگ کے دوبارہ شروع ہونے کے امکانات کا تعلق ہے ،اسے دونوں ملکوں نے رد نہیں کیا بلکہ اس کی اہمیت اور ضرورت کا اعتراف کرتے ہوئے اسے جلد ازجلد شروع کرنے پر اپنی رضا مندی کااظہار کیا ہے، لیکن اس مقصد کے حصول کے لیے جس قسم کے ماحول کی ضرورت ہے اسے پیدا نہیں کیاجارہا بلکہ ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں جو ماحول کو مزید خراب کرنے کا موجب بن سکتے ہیں۔ مثلاً کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر دونوں ملکوں کے حفاظتی دستوں کے درمیان جھڑپوں اور بھاری فائرنگ کا تبادلہ ایک دفعہ پھر شروع ہوگیا ہے۔ اس میں متعدد افراد کے زخمی ہونے کے علاوہ ایک پاکستانی کے شہید ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔تشویش ناک بات یہ ہے کہ یہ جھڑپیں سیالکوٹ، چار واہ اور معراج کے سیکٹر میں ہوئیںجو کشمیر سے ملحقہ پاکستان کے بین الاقوامی سرحدی علاقے ہیں۔ لائن آف کنٹرول پر ہونے والی یہ جھڑپیں اس لحاظ سے باعث تشویش ہیں کہ گزشتہ برس کے آغاز اور پھر اگست میں اس قسم کی جھڑپوں کے نتیجے میں دوطرفہ مذاکرات کا سلسلہ منقطع ہوگیا تھا۔
بات چیت کے لیے ماحول سازگار بنانے میں دونوں ملکوں کا پوسچرنگ(Posturing)بھی بڑا منفی کردار ادا کررہا ہے۔ بھارت کی جانب سے ایک دفعہ پھر ممبئی کے واقعات میں مبینہ طور پر ملوث افراد پر مقدمہ چلانے اور انہیں سزا دینے پر اصرار کیاجارہا ہے۔ پاکستان کا موقف یہ ہے کہ جن لوگوں کے خلاف کوئی ٹھوس شہادت دستیاب نہیں ، کسی ثبوت کی عدم موجودگی میں انہیں کیسے سزادی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کمپوزٹ ڈائیلاگ کی وسعت کو مزید کم کرکے اسے صرف تجارت اور دہشت گردی کے مسائل تک محدود کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان نے بھارت کے اس موقف کو مذاکرات کے لیے بھارت کی جانب سے پیشگی شرائط سے تعبیر کیا اور واضح کردیا ہے کہ مذاکرات کے لیے پیشگی شرائط کو تسلیم نہیں کیاجائے گا۔17جولائی کو ایک بیان میں دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے واضح کیا کہ ممبئی دہشت گردی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف مقدمے میں پیش رفت ہوئی ہے ، لیکن پاکستان مشروط مذاکرات تسلیم نہیں کرے گا۔ اسی طرح وزیراعظم کے قومی سلامتی امور کے مشیر سرتاج عزیز نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری کے فوراً بعد اسلام آباد میں ایک بیان میں واضح کردیا تھا کہ پاکستان کو اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کہ دوطرفہ مذاکرات کا کیا نام رکھا جائے یا اسے نئے سرے سے تشکیل دیاجائے لیکن پاکستان کے لیے یہ اسی وقت قابل قبول ہوں گے جب یہ جامع مذاکرات ہوں۔ پاکستان مجموعی مذاکرات کے تحت تمام متنازعہ مسائل پر بامعنی اور نتیجہ خیز بات چیت کے حق میں ہے۔ یہ بیان دینے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ حلف برداری کی تقریب کے موقع پر نواز ، مودی ملاقات کے حوالے سے یہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ بی جے پی کی نئی حکومت کمپوزٹ ڈائیلاگ کے احیا کے حق میں ہے لیکن فی الحال مذاکرات کو صرف دہشت گردی ، لائن آف کنٹرول پر امن اور تجارتی مسائل تک محدود رکھنا چاہتی ہے۔
اگر پاک بھارت مذاکرات کے تاریخی پس منظر میں پاکستان کے اس موقف کا جائزہ لیاجائے تو واضح ہوگا کہ یہ منطقی ہی نہیں بلکہ حقائق کے عین مطابق ہے۔ دونوں طرف سے باہمی مذاکرات کے لیے شرائط پیش کرنے والی حکمت عملی کبھی کامیاب ثابت نہیں ہوئی۔ مذاکراتی عمل کو مختلف حصوں میں بانٹ کر انہیں ایک دوسرے سے الگ کرکے زیر بحث لاکر مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کیے جاسکتے۔ 1997ء میں دونوں ملکوں میں مذاکرات کا آغاز صرف اس اصول پر ہوا تھا کہ یہ نہ صرف جامع ہوں گے بلکہ غیر مشروط بھی ۔ سابق یعنی کانگرس کی حکومت کے دور میں دوطرفہ مذاکرات میں پیش رفت اور پاک بھارت تعلقات میں بہتری کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ دونوں ملک اس نکتے پر متفق ہوگئے تھے کہ مذاکرات جامع ہوں گے اور ان کے تحت قدم بہ قدم آگے بڑھا جائے گا، یعنی نسبتاً آسان اور سادہ مسائل کو پہلے اور مشکل اور پیچیدہ مسائل کو بعد میں زیر بحث لاکر ایک ساتھ آگے قدم بڑھایا جائے گا۔ امید ہے کہ نریندر مودی کی حکومت ماضی کے اس سبق کو سامنے رکھتے ہوئے غیر مشروط اور جامع مذاکرات پر جلد آمادہ ہوجائے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved