تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     22-07-2014

فلسطین میں بربریت

فلسطین میں 8جولائی کو اسرائیلی بربریت کا ایک اور دور شروع ہوا جو تادم تحریر جاری ہے۔ اس سے پہلے غزہ کی پٹی 2008ء اور 2012ء میں بھی وحشیانہ اسرائیلی بمباری کا نشانہ بنی تھی۔ غزہ بحیرہ روم کے کنارے ایک تنگ سی پٹی ہے جو اسرائیل اور مصر کے درمیان واقع ہے اور بہت ہی گنجان آباد ہے۔ غزہ والوں کی نہ کوئی باقاعدہ بری فوج ہے نہ ایئر فورس اور نہ نیوی۔ فضائی اور سمندری حدود پر اسرائیل کا کنٹرول ہے۔ باہر کی دنیا سے ان کا رابطہ صرف اسرائیل اور مصر کے ذریعہ ممکن ہے اور یہ راستے بھی اکثر بند رہتے ہیں۔ غزہ کو اکثر لوگ ایک بڑی جیل سے تشبیہ دیتے ہیں جہاں ڈیڑھ ملین کے لگ بھگ لوگ قید ہیں۔
2006ء میں غزہ والوں نے حماس کو ووٹ دیے اس لیے کہ پی ایل او کی سیاسی حل کی کوشش ناکام ہوچکی تھی۔ اس وقت سے اسرائیل نے غزہ کو معاف نہیں کیا۔ اس مرتبہ تین اسرائیلی نوجوان مارے گئے تو غزہ والوں کی پھر شامت آگئی۔ دنیا بھر میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہرے ہوئے مگر اسرائیل کو رتی بھر فرق نہیں پڑا کہ اس کے سیّاں دنیا بھر کے کوتوال ٹھہرے۔ صدر اوباما کہتے ہیں کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے اور دفاع بھی غزہ والوں سے جن کے پاس صرف چند راکٹ ہیں۔ اپنے چندلوگوں کے بدلے اسرائیل نے پانچ سو سے زائد لوگ مارے ہیں جن میں سے ستر فیصدنہتے سویلین ہیں اور وہ بھی زیادہ تر بچے اور عورتیں۔ ہسپتالوں اور مسجدوں پر بھی بمباری ہورہی ہے۔
نظریہ پاکستان کونسل نے فلسطین سے اظہار یکجہتی کے لیے ایک رائونڈ ٹیبل کانفرنس منعقد کی۔ فلسطین کے سفیر ہزایکسیلنسی ولید ابو علی مہمان خصوصی تھے۔ چند عرب سفراء بھی موجود تھے۔ نظریہ پاکستان کونسل کے صدر جناب زاہد ملک نے رابطہ کیا کہ آپ بھی حاضرین سے پانچ منٹ کے لیے خطاب کریں۔ پانچ منٹ تو تمہید باندھنے میں لگ گئے۔ زاہد ملک صاحب بار بار گھڑی دیکھ رہے تھے۔ میں نے بمشکل تمام اپنی تقریر آٹھ منٹ میں ختم کی کہ سامعین نے سرینگر سے میر واعظ کا خطاب بھی سننا تھا۔ ایمبیسیڈر خالد محمود جو کہ آج کل سٹریٹیجک سٹڈیز انسٹی ٹیوٹ کے چیئرمین ہیں ،نے ابھی بولنا تھا۔ جنرل حمید گل بھی اپنی باری کا انتظار کررہے تھے۔
خالد محمود صاحب پاکستان کے بہت ہی منجھے ہوئے سابق سفارت کار ہیں۔ گورنمنٹ کالج میں چند ماہ ہمیں پولیٹیکل سائنس پڑھا کر فارن سروس کو پیارے ہوگئے۔ آغا شاہی کی ہم کاری سے مستفید ہوئے ۔ عراق ، چین ، سعودی عرب اور ایران میں پاکستان کے سفیر رہے۔ خالد صاحب نے اپنی تقریر میں دو اہم باتیں کیں۔ ایک یہ تھی کہ جنیوا کنونشن کے مطابق اگر مقبوضہ علاقے کا ایک فرد یا چند افراد قابض طاقت کو جانی یا مالی نقصان پہنچائیں تو سزا صرف اس فردیاان افراد کو دی جاسکتی ہے تمام مقبوضہ آبادی کو نہیں۔ دوسرے یہ کہ اقوام متحدہ کی واضح قرارداد ہے کہ یروشلم کا آبادی کے لحاظ سے یا مذہبی لحاظ سے تشخص تبدیل نہیں کیاجاسکتا۔ سینئر ایڈووکیٹ محمد بلال کہہ رہے تھے کہ مسلمانوں کا اقتصادی بائیکاٹ ہی اسرائیلی بربریت کا علاج ہے۔ آپ ان کی مصنوعات کا استعمال چھوڑ دیں،دشمن کو خودبخود ہوش آجائے گا۔ جنرل حمید گل کہہ رہے تھے کہ ایک سیاہ فام شخص امریکہ کا صدر تو بن گیا ہے لیکن وہ وائٹ ہائوس یعنی سفید گھر میں قیدی ہے۔ فلسطینی سفیر کا کہنا تھا کہ حماس اور پی ایل او کے درمیان صلح اسرائیل کو ایک آنکھ نہیں بھائی۔ اسرائیل میں انتخابات ہونے والے ہیں ۔حکومت غزہ پر وحشیانہ حملے کرکے اپنی گرتی ساکھ بحال کرنا چاہتی ہے ۔ لیکن فلسطینی سفیر کو سب سے زیادہ دکھ اس بات کا تھا کہ ادھر غزہ پر وحشیانہ حملے ہورہے تھے اور ادھر بہت سے عرب ممالک میں لوگ فٹ بال ورلڈ کپ سے لطف اندوز ہورہے تھے۔
میں نے اپنی تقریر میں کشمیر اور فلسطین کا موازنہ کیا کہ دونوں مقبوضہ اور متنازع علاقے ہیں۔ دونوں کے بارے میں اقوام متحدہ کی قرار دادیں ہیں، لیکن اقوام متحدہ ان قرار دادوں پر عمل نہیں کراسکی اور مستقبل قریب میں ایسا ہوتا نظر بھی نہیں آتا۔ دونوں مسئلے استعماری قوتوں کے اور مغربی ممالک کے پیدا کردہ ہیں۔ یہودیوں پر ظلم ہٹلر نے کیے اور سزا فلسطینیوں کو ملی۔ اگر برطانوی حکومت برصغیر کو طور طریقے سے چھوڑتی تو کشمیر کا مسئلہ پیدا ہی نہ ہوتا۔ اسرائیل کو تخلیق کرنے میں بھی برطانیہ کا واضح رول ہے۔ لہٰذا ان مغربی طاقتوں کا فرض بنتا ہے کہ دونوں مسئلوں کے حل میں پیش پیش رہیں۔ اکثر سپیکرز کا خیال تھا کہ امریکہ یا اقوام متحدہ سے کوئی توقع رکھنا عبث ہے۔ حل صرف اور صرف مسلمان اور عرب ممالک کے اتفاق میں ہے جو اس وقت ناپید ہے۔
اپنی تقریر کے دوسرے اور آخری حصے میں، میں نے اس بات کی طرف توجہ مبذول کرائی کہ صدر اوباما شروع میں امید کی کرن ضرور تھے۔ اوباما کو کشمیر اور فلسطین کے مسائل کا ادراک ضرور تھا،صدر منتخب ہونے سے پہلے صدر اوباما نے کہا تھاکہ افغانستان پرابلم کے تانے بانے پاک ہند تنازعات سے جڑے ہوئے ہیں، اپنی جون 2009ء کی قاہرہ کی تقریر میں اوباما نے صاف کہا تھا کہ ہم اسلامی دنیا کے ساتھ نئی شروعات کرنا چاہتے ہیں مگر امریکی صدر دونوں مسئلوں کے حل کی طرف کوئی پیش رفت نہیں کرسکے۔ وجہ یہ ہے اسرائیلی اور بھارتی دونوں کی لابیاں بہت مضبوط ہیں ،جونہی امریکی لیڈر کے منہ سے ان کے مفاد کے خلاف کوئی بات نکلتی ہے ،وہ کووں کی طرح کائیں کائیں شروع کردیتے ہیں۔ امریکی میڈیا میں ان کا بہت اثرورسوخ ہے۔ میڈیا کے بھرپور تعاون سے وہ بڑے بڑے لیڈروں کو موقف بدلنے پر مجبور کردیتے ہیں۔
آخر میں حاضرین نے ایک قرارداد منظور کی جس میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل سے مطالبہ کیاگیا کہ فلسطین کی صورت حال پر ایمرجنسی اجلاس بلائے۔ دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ اسرائیل 1967ء کی جنگ سے پہلے والی پوزیشن پر چلا جائے۔ تیس لاکھ فلسطینی مہاجرین کو اپنے وطن واپس آنے کی اجازت دی جائے ۔ مقبوضہ فلسطین میں یہودی بستیوں کی تعمیر روکی جائے۔ 
یہ سطور لکھتے ہوئے میں الجزیرہ ٹی وی دیکھ رہا ہوں۔ سوموار یعنی 21جولائی کو ظہر کے وقت تک چالیس فلسطینی شہید کردیے گئے ہیں۔ ایک ہی خاندان کے سات بچے شہید ہوئے ہیں۔ غزہ جل رہا ہے۔ ہٹلر نے یہودیوں پر کیا ظلم کیے ہوں گے جو اب اسرائیل معصوم فلسطینیوں پرتوڑ رہا ہے۔ غزہ والوں کو جرم صغیفی کی سخت سزا مل رہی ہے۔
سکیورٹی کونسل کا ایمرجنسی اجلاس تیرہ دن کے بعد بالآخر بلالیاگیا ہے، خدا کرے کہ یہ اجلاس جنگ بندی کا فیصلہ کرسکے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved