نائن الیون کے بعد کی دنیا میں مسائل کی نوعیت اور اہمیت میں بے مثال تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ کئی ممالک اور اقوام نے ماضی کی ناخوشگوار مقاومت سے پیچھا چھڑا کر امن کی جانب قدم بڑھا لیا ہے لیکن ایشیا کا بیشتر حصہ بدستور عالمی سطح کا پُرخطر مقام بنا ہوا ہے۔ عرصہ دراز سے حل طلب ایشیائی تنازعات میں مسئلہ فلسطین و کشمیر‘ جزیرہ نمائے کوریا میں کشیدگی‘ آبنائے تائیوان کے علاوہ جاپان ـ امریکہ ـ چین مثلث کے مابین تعلقات اور علاقے کو توسیع دیتے ہوئے ان تین طاقتوں میں روس اور بھارت کو ملا کر پنج ریاستی تعلقات شامل ہیں۔
ایشیا کے بعض حصوں میں غیر مختتم کشیدگی اور عدم استحکام کے عالمی امن و سلامتی پر شدید قسم کے ناگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایشیا میں کشیدگیوں اور تصادمات کا سبب بننے والے کچھ معاملات یہ ہیں: افغانستان میں امریکہ کی اختتام پذیر جنگ اور وسطی ایشیا پر اس کے اثرات۔۔۔۔۔ بھارت ـ امریکہ ایٹمی گٹھ جوڑ اور جنوبی ایشیا کے امن پر اس کے مضر اثرات۔۔۔۔۔ ایران کا جوہری بحران۔۔۔۔۔ شمالی کوریا کی پریشان کن نیوکلیئر اور انٹرنیشنل بلیسٹک میزائل (ICBM) کی استعداد اور اس معاملے پر منجمد شش فریقی مذاکرات اور خطے میں کئی دوسرے غیر حل شدہ جغرافیائی (زمینی) تنازعات کے علاوہ جاپان ـ روس اور چین ـ جنوبی کوریا جھگڑے۔
اس تاریک منظرنامے میں چین، ایشیا کی امید کی واحد کرن ہے۔ عالمی برادری کے لیے طاقت کے ایک ستون کی حیثیت سے‘ چین پہلے ہی بین الاقوامی امن و سلامتی کے استقرار میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح کے بڑے اقتصادی بحرانوں کو ٹالنے میں بھی نہایت اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے سے چین کی خارجہ پالیسی میں ایک قابل فہم تبدیلی آئی جو پُرامن بقائے باہمی کے اصول پر استوار ہے اور اس کے جدید بین الاقوامی تعلقات پر اہم اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ آج چین‘ عالمی سطح پر اقتصادی اور مالیاتی نظام میں استحکام لانے والی ایک بڑی طاقت ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یہ مؤثر کردار کا حامل ہے۔
چین اپنے طویل المیعاد سیاسی و اقتصادی مفادات کی روشنی میں ایسی عملی پالیسیاں اپنائے ہوئے ہے جن کی بدولت وہ امریکہ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک کے علاوہ بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانے کی راہ پر گامزن ہے۔ اپنے بعض ہمسایہ ممالک کے ساتھ اختلافات یا تنازعات کے حوالے سے چین کی پالیسی یہ ہے کہ انہیں حقائق اور بین الاقوامی تعلقات کے مسلمہ اصولوں کے تحت مذاکرات اور باہمی مشاورت سے شائستہ انداز میں حل کیا جائے۔ اس نے روس کے ساتھ اپنے سرحدی معاملات کو پُرامن طریقے سے اٹھایا ہے اور دوسرے نزدیکی ممالک کے ساتھ بھی دوستانہ ہمسائیگی پر مبنی تعلقات استوار کرنے کے لیے کوشاں ہے، لیکن خطے اور عالمی سطح پر چین کے اپنے بھی کچھ اندیشے ہیں اور وہ امریکہ کی نئی یک قطبیت (Unipolarity) یا ایشیا میں اس کی بالادستی کے عزائم سے غافل نہیں ہے۔ یہ کوئی حیران کن امر نہیں کہ حالیہ برسوں کے دوران چین اور روس کے مابین قریبی تعلقات کی جانب اہم پیش رفت ہوئی ہے جو ان کے عقبی خطے (Backyard) میں امریکہ کے بڑھتے ہوئے تزویراتی اثرونفوذ کا ردعمل ہے، خاص طور پر قدرتی وسائل سے مالا مال اور تزویراتی طور پر اہم وسطی ایشیا میں واشنگٹن کے اثر کو روکنے میں دونوں کے مفادات یکساں ہیں۔
رواں مہینے کے شروع میں بیجنگ میں منعقدہ شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن (SCO) کے سربراہی اجلاس نے ایشیا کے اہم علاقوں میں تصادم زدہ مقامات کی تعداد میں اضافے کے پیش نظر واضح طور پر اپنے مُوڈ میں تبدیلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خطے کی سلامتی کے استحکام اور عالمی چیلنجوں کا مل کر مقابلہ کرنے کے لیے SCO کی جدوجہد تیز کرنے پر زور دیا ہے۔ بلاشبہ چین اور روس اس تنظیم میں باہم مربوط ہیں جس کا سبب ان کے خطے میں مشترکہ جیو سٹریٹجک اور اقتصادی مفادات‘ بڑھتی ہوئی امریکی بالادستی پر دونوں کی ایک جیسی تشویش اور ایک کثیر قطبی دنیا کو فروغ دینے میں ان کا عزم ہے۔
یہ بات قابل فہم ہے کہ شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کے ارکان کی جانب سے تمام بین الاقوامی معاملات کا گہرا جائزہ لینے کے ارادے کے باوجود‘ ان کی توجہ فوری نوعیت کے ایشوز، خصوصاً علاقائی سلامتی اور اسلامی انتہا پسندی پر مرکوز رہی۔ یہ بھی ایک قدرتی امر ہے کہ روس اور چین کی علاقے کے توانائی کے وسائل، اس کی مارکیٹ اور اس میں سرمایہ کاری کے امکانات کے حوالے سے گہری دلچسپی ہے۔ اس اعتبار سے انہوں نے شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کو سلامتی کی ایک مخصوص جہت سے روشناس کرایا ہے جس کا فوکس خطوں کے مابین خطرات سے لے کر اپنی علاقائی سلامتی پر محیط ہے۔
شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کے سربراہی اجلاس سے پہلے صدر پیوٹن کے دورہ چین میں روس اور چین نے بیرونی تعلقات پر یکساں موقف ا ختیار کرنے اور ایشیا پیسیفک ریجن میں سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے باہمی تعاون کا عزم ظاہر کیا تھا۔ اس حوالے سے دونوں ملکوں نے دفاع کی وزارتوں کے مابین قریبی تعلقات اور مشترکہ فوجی و بحری مشقوں کے ذریعے دفاعی تعلقات کو فروغ دینے پر اتفاق کیا۔ اطلاعات کے مطابق ماسکو 2015ء تک اپنی فوجی صلاحیتوں کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے ایک بڑے منصوبے پر کام کر رہا ہے۔ چین بھی اپنی بحری استعداد میں اضافہ کر رہا ہے جبکہ دونوں ملک پہلے ہی باہمی تجارت کو فروغ دے رہے ہیں۔ آئندہ برسوں میں چین روس کے دفاعی سازوسامان اور توانائی کے وسائل کا بڑا خریدار بن سکتا ہے۔
افغانستان سے عنقریب امریکی افواج کے انخلا اور وہاں صدارتی انتخابات کے ساتھ ہی یہ خطہ ایک گہری تبدیلی کے دور میں داخل ہونے والا ہے۔ پوری دنیا کی نظریں اس وسیع و عریض خطے پر مرکوز ہیں جو چین کی مغربی سرحد سے وسطی ایشیا سے ہوتا ہوا جنوبی اور مغربی ایشیا تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ محض جغرافیائی لحاظ سے ایک وسیع علاقہ نہیں بلکہ ایک زبردست تزویراتی اور اقتصادی اہمیت کا حامل خطہ بھی ہے۔ چین کو پہلے ہی امریکہ کی جانب سے بھارت سمیت اپنے قریبی ممالک میں فوجی اعتبار سے پریشر پوائنٹ تعمیرکرنے پر تشویش لاحق ہے۔
افغانستان کے حوالے سے ہماری طرح چین اور روس کی بھی خواہش یہ ہے کہ جنگ سے تباہ شدہ یہ ملک غیرملکی اثر یا تسلط سے آزاد ہو اور اس میں جلد از جلد امن بحال ہو، لیکن دونوں ملکوں کو اس خطے سے جنم لینے والی ان انتہا پسند، دہشت گرد اور علیحدگی پسند قوتوں کے بارے میں بھی شدید تشویش لاحق ہے جو ان کے علاقوں میں عدم استحکام کا باعث بن رہی ہیں۔ افغانستان میں متوقع تبدیلی کے بعد چین، خطے کی ایک بڑی طاقت ہونے کے ناتے‘ قدرتی طور پر اپنی مغربی سرحد کے عقب میں واقع تزویراتی اعتبار سے اہم خطے میں توازن برقرار رکھنے کی خاطر اپنا اہم کردار ادا کرے گا۔ 2001ء میں افغان بحران شروع ہونے کے بعد چین نے پہلی بار افغانستان کے لیے ایک خصوصی نمائندہ مقرر کیا ہے جس سے 2014ء کے بعد کے افغان منظرنامے میں اس کی دلچسپی کا اظہار ہوتا ہے۔ اس خطے میں تبدیلی کی ہوا چلنے کے ساتھ پاکستان کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ افغانستان میں امن و استحکام پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار رکھے کیونکہ دنیا کے کسی بھی ملک کا افغان امن کے ساتھ اتنا گہرا تعلق نہیں ہے۔ چین کے ساتھ مل کر ہم خطے کے وہ اندرونی اور قدرتی شراکت دار ہیں جو اس پُرتشدد علاقے میں حقیقی تبدیلی لا سکتے ہیں۔
یہ دونوں (پاکستان اور چین) افغانستان میں بیرونی اثر یا بالادستی سے پاک خالص امن کے حامی ہیں۔ ایک مضبوط تزویراتی جہت کے ساتھ ان کا پہلے سے موجود خصوصی تعلق ایک اضافی عنصر ہے جو انہیں افغانستان میں امن و استحکام لانے کے عمل میں اجتماعی کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اپنے جغرافیائی و سیاسی مقام اور مفادات میں بے نظیر یکسانیت کے باوصف دونوں ملک افغانستان میں ہائیڈرو الیکٹرک اور انفراسٹرکچر منصوبوں سمیت اس کے ترقیاتی عمل میں زبردست کردار ادا کر سکتے ہیں۔
چین اور پاکستان مل کر پاک افغان بارڈر کو خطے کے لیے اقتصادی دروازے (Gateway) میں بدل سکتے اور اسے وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ امن اور تعاون کا لنک بنا سکتے ہیں۔ پاکستان کے ساحلی علاقوں کو شمال مغربی چین کے ساتھ جوڑنے والا 'اکنامک کاریڈور‘ اپنی تکمیل کے بعد دوطرفہ اور علاقائی سطح پر اقتصادی اور تجارتی روابط استوار کرنے کا سبب بنے گا جو افغانستان کے لیے بھی نہایت فائدہ مند ہو گا۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)