مارچ مسائل کا حل نہیں‘ ترقی کا
سفر جاری رہے گا... نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''مارچ مسائل کا حل نہیں‘ ترقی کا سفر جاری رہے گا‘‘ بلکہ مارچ تو مارچ ہے‘ اپریل بھی مسائل کا حل نہیں ہے کیونکہ اس میں بھی قوم کو اپریل فول بنایا جاتا ہے جبکہ ہم یہ کارِ خیر اپریل کا انتظار کیے بغیر بھی کرتے رہتے ہیں‘ اور جہاں تک ترقی کے سفر کا تعلق ہے تو بعض شرپسند اسے ترقیٔ معکوس بھی سمجھتے ہیں‘ حالانکہ ترقی تو ترقی ہوتی ہے‘ وہ ترقی ہو یا ترقیٔ معکوس‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا ''ہم نے تمام جماعتوں کے مینڈیٹ کا احترام کیا‘ ہمارے مینڈیٹ کا بھی کیا جانا چاہیے‘‘ وہ جیسا بھی ہے اور جس طرح بھی حاصل کیا گیا اور ترقی کی طرح مینڈیٹ تو مینڈیٹ ہی ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''شمالی وزیرستان میں فوج پاکستان کے استحکام کی جنگ لڑ رہی ہے‘‘ جبکہ ہم بھی فارغ نہیں بیٹھے ہوئے اور نہایت عجز و انکسار کے ساتھ ماشاء اللہ اپنے استحکام کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ ہماری طرح فوج بھی کامیاب ہوگی۔ آپ اگلے روز جاتی امرا میں میاں شہباز شریف سے ملاقات کر رہے تھے۔
امن و امان بہتر بنانے کے لیے تمام
وسائل دیں گے... شہباز شریف
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''امن و امان بہتر بنانے کے لیے تمام وسائل دیں گے‘‘ چنانچہ آئی ڈی پیز کی امداد کے لیے بیرون ملک سے جو امداد طلب کی ہے اس سے کئی دیگر مسائل بھی حل ہو جائیں گے اور کچھ دال دلیا ہمارا بھی ہو جائے گا کہ قدرت زلزلے اور سیلاب وغیرہ کی طرح آمدنی کے کچھ اسباب خود ہی پیدا کر دیتی ہے؛ چنانچہ ہم آئی ڈی پیز کے بطور خاص ممنون ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''مسائل حل کرنے کے لیے سنجیدگی سے کوششیں کر رہے ہیں‘‘ کیونکہ ہم نے محسوس کیا ہے کہ اب مذاق کا وقت نہیں ہے اور خلافِ معمول‘ سنجیدہ ہونے کی بھی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''پولیس محنت اور جاں فشانی سے فرائض سرانجام دے‘‘ جس طرح اس نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ماڈل ٹائون میں سرانجام دیئے تھے جبکہ خاکسار کو بھی پتہ نہ چلنے دیا اور گلو بٹ کی رہنمائی میں اپنے نیک مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی؛ چنانچہ ہماری پولیس فورس پر ہمیں فخر ہے اور وہ ہم پر بھی بجا طور پر فخر کرتی ہے جو اسے اتنا فری ہینڈ دیا ہوا ہے۔ آپ اگلے روز چودھری نثار علی خاں سے ملاقات کر رہے تھے۔
فوج اپنے کسی چیف کو تکلیف
میں نہیں دیکھ سکتی... امین فہیم
پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے سربراہ مخدوم امین فہیم نے کہا ہے کہ ''فوج اپنے کسی چیف کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی‘‘ جس طرح ہمارے کارکن اپنے چیف کو کسی تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے لیکن اپنی سستی اور کاہلی کی وجہ سے کچھ کرنے سے بھی قاصر ہیں‘ حتیٰ کہ کسی سے یہ بھی نہیں بن پڑا کہ میرے حق میں کوئی بیان ہی دے چھوڑے‘ خاص طور پر صوبائی صدر پنجاب میاں منظور وٹو سے ہرگز ایسی کوتاہی کی امید نہیں تھی جو عادتاً ہر روز ایک بیان داغ دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''حکومت کو اقتدار میں آئے ایک برس ہو گیا مگر کسی انتخابی وعدے پر عملدرآمد نہیں کر ا سکی‘‘ حتیٰ کہ کسی علی بابا کو ٹانگنے کی بجائے خاکسار‘ گیلانی اور راجہ اشرف پر ہی اپنا سارا زور صرف کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''مشرف کیس حکومت کے گلے کی ہڈی بن گیا‘‘ حالانکہ ہڈی کو اچھی طرح چبا کر کھانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ''مڈٹرم الیکشن نظر نہیں آ رہے‘‘ حالانکہ میں نے عینک لگا کر بھی دیکھا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ''دنیا‘‘ کے دفاتر کا دورہ کر رہے تھے۔
دو تہائی اکثریت والے وزیراعظم کو قادری یا عمران سے فرق نہیں پڑنا چاہیے... گیلانی
سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ''دو تہائی اکثریت والے وزیراعظم کو قادری یا عمران سے فرق نہیں پڑنا چاہیے‘‘ اگرچہ دو تہائی اکثریت انہیں ویسے بھی کم ہی راس آیا کرتی ہے جبکہ ہم تو سدابہار لوگ ہیں اور دنیا میں کچھ بھی ہوتا رہے‘ ہم اپنے کام میں لگے رہتے ہیں اور ہمارا سابقہ دور اس کا گواہ بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''14 اگست کو خطرے والی کوئی بات نہیں‘‘ البتہ خاکسار مستقل طور پر خطرات کی منجدھار میں رہتا ہے جبکہ کشتی بھی کافی پرانی ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ایک دو اختلافی بیانات سے پیپلز پارٹی کی ساکھ متاثر نہیں ہو سکتی‘‘ حکومت کے دوران اگر ہمارے کارہائے نمایاں سے پارٹی کی ساکھ متاثر نہیں ہوئی تو ان بیانات کی کیا حیثیت ہے جبکہ ویسے بھی ہر وزیر کو اپنی آزادانہ رائے رکھنے کا پورا پورا حق حاصل ہے اور یہی جمہوریت کا حسن بھی ہے جس نے تمام سیاسی پارٹیوں کو گھائل کر رکھا ہے‘ غرض خداوند تعالیٰ کی کیا قدرت بیان کی جائے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
وضاحت
خاکسار کے بارے میں میڈیا میں جو خبریں شائع ہوئی ہیں کہ میں پارٹی سے ناراض ہوں تو یہ بلاوجہ نہیں ہے کیونکہ سانحہ ماڈل ٹائون کے تو ذمہ دار اور صاحبان بھی تھے لیکن مجھے مکھن سے بال کی طرح نکال دیا گیا جبکہ توقیر شاہ صاحب اسی طرح اختیارات استعمال کر رہے ہیں اور احکامات کے لیے فائلیں ان کے گھر پر پہنچائی جاتی ہیں۔ مزیدبرآں‘ اس واقعہ میں جن بارہ چودہ بندوں کی جانیں گئی تھیں تو ظاہر ہے کہ ان کی قسمت میں ہی ایسا لکھا تھا جب کہ ہم بطور مسلمان تقدیر پر پورا پورا ایمان رکھتے ہیں۔ اور‘ اگر میں نے اس سلسلے میں کوئی حکم دیا یا کوئی اشارہ کیا ہو تو وہ بھی رضائے الٰہی کے بغیر نہیں ہو سکتا کیونکہ خدا کی مرضی کے بغیر تو ایک پتہ تک نہیں ہل سکتا اور جو لوگ اس بارے شک و شبہ کا شکار ہیں‘ ظاہر ہے کہ ان کا ایمان بہت کمزور ہے۔ نیز‘ جس نے جس طرح مرنا ہو‘ وہ اسی طرح مرتا ہے اور وہ کسی اور وجہ سے مر ہی نہیں سکتا۔
خاکسار: رانا ثناء اللہ عفی عنہ
آج کا مطلع
وہ ایک طرح سے اقرار کرنے آیا تھا
جو اتنی دور سے انکار کرنے آیا تھا