تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     24-07-2014

انقلاب نافذ کرو اور بھاگ جائو

داعی انقلاب حضرت ڈاکٹر پروفیسر طاہر القادری کو قدرت نے سنہری موقع عطا فرما دیا ہے۔ ان کافرض ہے کہ ایک لمحہ ضائع کئے بغیر‘ اللہ تعالیٰ کے فراہم کردہ اس سنہری موقعے سے فی الفور فائدہ اٹھائیں۔ اہل و عیال سمیت‘ برانڈ نیو بلٹ پروف گاڑیوں میں بیٹھیں۔ کسی کو بتائے بغیر چپ چاپ ‘اسلام آباد روانہ ہو جائیں۔ اسلام آباد پہنچ کر‘ سیدھے ٹیلی ویژن کے مرکز پر قبضہ کر لیں۔ طریقہ نہایت آسان ہے۔ٹی وی سٹیشن کا مرکزی گیٹ ہمیشہ بند رہتا ہے۔ اپنے مسلح گارڈز کو حکم دیں کہ وہ آئو دیکھیں نہ تائو‘ ٹی وی سٹیشن کے باہر پہنچتے ہی گاڑیوں سے کود کر‘ دروازے پر پہنچ جائیں۔ گارڈز کو تالا کھولنے کا حکم دینے کے بجائے‘ فوراً دروازوں کے اوپر چڑھ کر اندر کود جائیں۔ تالے توڑکے دروازہ کھو ل دیں۔ علامہ صاحب کی گاڑیوں کاقافلہ ڈیڑھ سومیل کی رفتار سے سے ٹی وی سٹیشن کے اندر داخل ہو۔ ان کے کامریڈ پرشور انقلابی نعرے لگا رہے ہوں۔ان کے ساتھی مرکزی دروازے کے شیشے ٹھوکروںسے توڑتے ہوئے‘ علامہ صاحب کے لئے راستہ بنائیں۔بے شک مرکزی دروازہ مقفل نہیں ہوتا۔ اس سے فرق نہیں پڑتا۔اصل مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ آپ انقلاب برپا کر کے‘ ٹی وی سٹیشن پر اس کا اعلان کرنے آئے ہیں۔انقلاب کا دبدبہ قائم کرنے کے لئے ‘سٹاف کو دہشت زدہ کرنے کی ضرورت ہے۔ بہتر ہو گا اگر دوچار کریکر بھی چھوڑ دئیے جائیں۔ چوکیداروں کو بھی جھڑکتے ہوئے تھپڑ رسید کرتے جائیں۔ ساتھ ساتھ کارکنوں کو حکم دیتے جائیں کہ وہ آپ کو کانفرنس روم کے اندر لے جائیں۔ دروازے پر پہنچتے ہی گارڈز کو اشارہ کریں کہ اسے توڑ دیں۔ دروازہ ٹوٹ جائے تو علامہ صاحب اندر داخل ہوں۔ بے شک کھلے ہوئے دروازے کو توڑنا فضول حرکت ہے لیکن علامہ صاحب کا انقلاب بھی تو فضول حرکت ہے۔ انقلاب کا دبدبہ اسی وقت بیٹھتا ہے جب دروازے توڑ کر‘ پیش قدمی کی جائے۔ کانفرنس روم کے اندرداخل ہو کر‘سارے ٹیکنیکل اور نشریاتی عملے کو‘ پانچ منٹ کے اندر اپنی خدمت میں حاضر ہونے کا حکم دیں۔ دروازے توڑ کر ‘فاتحانہ انداز میں ٹی وی سٹیشن پر قبضہ کرنے کی خبر ‘تمام شعبوں میں پہنچ چکی ہو گی۔ کارکن سہمے ہوئے اورخوفزدہ بیٹھے‘ زندگی کی دعائیں مانگ رہے ہوں گے۔ بہت سے اس انتظار میں ہوں گے کہ ابھی مسلح انقلابی آئیں گے اور انہیں گولیوںسے بھون دیں گے۔ لیکن علامہ صاحب کے کامریڈ چھپے ہوئے سرکاری ملازمین کو محبت سے پیغام دیں کہ ان سب کی زندگیاں محفوظ ہیں۔وہ بلا حیل و حجت علامہ صاحب کی انقلابی قیادت قبول کر لیں۔انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ اس کے بعد کانپتے لرزتے اور خوف زدہ نشریاتی اورٹیکنیکل افسروں کو‘ کانفرنس روم میں طلب فرمائیں اور گرج کر حکم دیں کہ جو جس حالت میں ہے‘بلاتاخیر کانفرنس روم میں تشریف فرما ‘قائد انقلاب کی خدمت میں حاضر ہو کر مودب کھڑا ہو جائے۔ کوئی دفتر میں جوتے اتار کے بیٹھا ہو‘ تو اسے پہننے کی مہلت نہ دی جائے۔ آستینوں کے کف لنکس کھلے ہوں تو بند نہ کرنے دیا جائے۔ جو یہ کوشش کرے بلاتاخیر تھپڑ رسید کر دینا چاہئے ورنہ کسی کو سوچنے سمجھنے کا موقع مل سکتا ہے۔انقلابیوں کو ا ایسا چانس نہیں دینا چاہئے۔ حکمرانی کا پہلا اصول یہ ہے کہ عوام میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت‘ کو سن کر دیا جائے۔
کانفرنس روم میں پہنچ کر‘ سب ملازمین مودب کھڑے ہو جائیں اور انہیں کھڑے ہی رہنا چاہئے۔ بیٹھنے کی اجازت ملنے پر وہ لبرٹی لینے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ علامہ صاحب بنفس نفیس کرسی صدارت پر تشریف رکھیں۔ صرف پانچ منٹ کا خطاب فرما کے‘ گرج دار‘ کڑکتی آواز میں حکم دیں کہ تمام لوگ پانچ منٹ کے اندر اندر‘ اپنی اپنی ڈیوٹی سنبھال کر بلاتاخیر‘ قوم سے میرے خطاب کا انتظام کریں۔ ایک سکینڈ کی تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی۔ میں ‘ایک منٹ کے اندر کانفرنس سے نکل کر سیدھا سٹوڈیو میں جائوں گااور بیٹھتے ہی قوم سے خطاب شروع کر دوں گا۔لیکن ایسا کرنے سے پہلے مجھے سکرین پر آجانا چاہئے۔جب میں اچانک بغیر کسی اعلان کے‘ سکرین پر نمودار ہوں گا تو عوام بھونچکا رہ جائیں گے۔عوام کو انقلاب کا جھٹکا لگانے کے لئے‘ ایسا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ان کے جسم میں مزید جذبہ پیدا کرنے کی خاطر‘ قرآنی آیات کی تلاوت شروع کر دی جائے۔عوام مزید حیرت میں غرق ہو جائیں گے۔ جب ان کی قوت برداشت جواب دینے لگے گی‘تو اس وقت میں اپنا خطاب شروع کروں گا۔
علامہ صاحب کے پاس نفاذانقلاب کا منصوبہ یقینی طور پہ تیار پڑا ہو گا۔ اس کا مسودہ ڈھونڈ کر اپنے سامنے رکھ لیں اور صرف اعلانات فرمائیں۔ پہلا اعلان یہ ہو کہ ملک میں انقلاب نافذ کر دیا گیا ہے ۔ اس وقت وزیراعظم ‘ اپوزیشن کے سربراہ ‘ آنے والے وزیراعظم اور انقلابی کونسل کے مفتی اعظم اور خزانے کے انچارج ‘ سب کے سب ملک سے باہر ہیں ۔اس لئے میں اپنے تمام معاونین کو حکم دیتا ہوں کہ وہ حسب مرتبہ جس جگہ چاہیں ‘ جا کر کنٹرول سنبھال لیں۔ ایوان صدر جانے والا صدارتی کرسی پر بیٹھ جائے۔ وزیراعظم ہائوس جانے والے صاحب‘ وزیراعظم کی نشست سنبھال لیں۔ وزارت خزانہ پر قبضہ کرنے والوں میں ‘ایک سنیئر کامریڈ کرسی وزارت پر براجمان ہو جائے۔ اسلامی نظریاتی کونسل میں جانے والے‘ وہاں کے سربراہ کو کرسی سے اٹھا کر بٹھادے کہ اب انقلابی پاکستان میں‘ مفتی اعظم کا منصب تخلیق کر دیا گیا ہے جس پر انقلابی مفتی اعظم فائز کیا جائے گا‘ جو فرزند مفتی بھی ہوگا۔ میں اپنا خطاب مکمل کرتے ہی‘ تقرر نامہ بھیج دوں گا۔ باقی جس جس کو جس وزارت پر قبضے کا موقع ملے ‘وہ اس پر قابض ہو جائے۔انقلاب اسی طرح آتے ہیں۔ تمام صوبوں کے گورنر ہائوسز پر قبضہ کر کے‘ ایک ایک کامریڈ گورنر کا عہدہ سنبھال لے۔ چوہدری سرور اپنی جگہ پر موجود رہیں گے۔اسی طرح ہر صوبے میں‘ ایک ایک کامریڈ وزیراعلیٰ کی کرسی پر بیٹھ جائے گا۔ مجھے بھی خیال آیا تھا کہ علامہ صاحب کوبنفس نفیس وزارت عظمیٰ کی کرسی پر قبضہ جمانا چاہیے۔ لیکن علامہ صاحب بڑے گنی انسان ہیں۔ وہ ایسے انقلاب میں ہرگز کوئی اعلیٰ منصب نہیں ہتھیائیں گے۔ انہیں معلوم ہے لوٹ کا مال ہضم نہیں ہوتا۔علامہ صاحب کو یوم انقلاب پر جو کچھ کرنے اور فرمانے کے لئے کہا جا رہا تھا‘ اس کا سلسلہ پھر سے شروع کرتے ہیں۔ علامہ صاحب فرمائیںچیف آف آرمی سٹاف اور فوج کو میں نے‘ ہمیشہ پسند کیا ہے۔ اس لئے انقلاب کے زمانے میں بھی کسی کو بدلنے کی ضرورت نہیں۔ موجودہ چیف آف آرمی سٹاف اپنے منصب پر فائز رہیں گے اوراسی طرح بحریہ اور فضائیہ کے سربراہ بھی۔ میرے کامریڈ تمام اضلاع میں فوری طور پر ڈی سی او او ر ڈی پی او حضرات کے دفتروں میں گھس کر‘ ان کی کرسیوں پر براجمان ہو جائیں گے ۔ دنیا کے تمام ملکوں میں موجود‘ پاکستانی سفیروں کو انقلابی سفیر قرار دے کر‘ ان کے موجودہ منصب پر برقرار رکھا جائے گا۔ ملک میں جلد ہی انقلابی اسمبلیوں کے اراکین نامزد کر کے‘اجتماعی قیادت کے مراکز قائم کر دئیے جائیں گے۔اقتدار کے تمام مراکز پر قبضوں کا انقلابی عمل‘ چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر مکمل ہو جانا چاہئے ۔ اس دوران تمام پروازوں کی آمدورفت معطل رہے گی۔تمام ٹیلی فون لائنیں بند رہیں گی۔نہ بیرون ملک کوئی کال جاسکے گی اور نہ آسکے گی۔خطاب ختم ہوتے ہی سرکاری اور نجی ٹیلی ویژنز کو حکم دیا جائے گا کہ سارے چینلز اور سارے ریڈیو سٹیشنز‘ حضرت علامہ کے خطبات نشر کرنا شروع کر دیں۔ ایک ایک خطبہ ماشاء اللہ چودہ چودہ گھنٹے کا ہو گا۔ تین دن تک تمام نشریاتی ادارے مسلسل خطبا ت نشر کریں گے۔ صرف انقلابی خبر یں نشر کرنے کے لئے وقفے ہوں گے۔ ان تین دنوں کے دوران‘ علامہ صاحب اپنی تیار کردہ بیورو کریسی کے ذریعے‘ ملک میں انقلابی اصلاحات نافذ کرنے کا اعلان کردیں گے۔ اس دوران ‘تمام اہل وعیال سمیت گھر کا سامان باندھ لیا جائے گا۔ کینیڈا کے لئے ایک چارٹرڈ جہاز‘ لاہور ایئرپورٹ پر تیار رکھا جائے۔ایئرپورٹ لائونج میں قوم سے نشریاتی خطاب کی تیاریاں مکمل کرادی جائیں گی۔ علامہ صاحب کے تمام اہل و عیال اور قریبی ساتھی‘ جہاز میں بیٹھ جائیں گے۔ ٹرانزٹ لائونج کے عین دروازے پر‘ ایک بلٹ پروف گاڑی سٹارٹ کھڑی رہے گی۔ علامہ 
صاحب قوم سے الوداعی خطاب میںفرما دیں گے کہ میں نے حسب وعدہ انقلاب نافذ کر دیا ہے۔ میں عوام اور اللہ تعالیٰ کے حضور سرخرو ہو گیا ہوں۔ اگلے دوروز میں سارے لیڈر واپس آنے والے ہیں۔ اب یہ ان پر منحصر ہو گا کہ وہ اب انقلاب کو آگے بڑھاتے ہیں یا اسے ختم کر کے‘ اپنی عوام دشمن سرگرمیاں شروع کر دیتے ہیں۔ میں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا۔نوازشریف پہلے ہی عوام دشمن ہے۔ مجھے یقین ہے‘ وہ میرے انقلاب کو بھی تہس نہس کر دے گا۔ بہر حال میںبری الذمہ ہو گیا۔ الوداع!میرے عزیز ہم وطنو الوداع! الوداع! انقلاب! الوداع!خوش رہو اہل وطن ہم توسفر کرتے ہیں۔ رہ گیا گلو بٹ؟ تو اس سے میں کینیڈا میں بیٹھ کر بھی نمٹ لوں گا۔خطاب ختم کرتے ہی‘ علامہ صاحب پہلے سے سٹارٹ کھڑی‘ بلٹ پروف گاڑی میں چھلانگ مار کر بیٹھیں گے۔ جہاز کے زینے کے پاس اتریں گے ‘تیز رفتاری سے انہیں پھلانگتے ہوئے ‘جہاز کے اندر گھس جائیں گے جو فوراً ہی سٹارٹ ہو کر‘ محو پرواز ہو جائے گا۔ اس سے بہتر جھٹ پٹ انقلاب نافذ کرنے کا دوسرا کوئی طریقہ نہیں کہ علامہ صاحب‘ ارباب اقتدار کو ملک سے غیر حاضر دیکھ کر اپنا انقلاب نافذ کریں اور فرار ہو جائیں۔ بے شک لوگ کہتے رہیں۔
پھر دے گیا ہے کوئی دغا انقلاب کا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved